جرم و انصاف

چینی مجرمانہ گروہوں میں اضافے پر حکام کی تشویش

پاکستان فارورڈ

کراچی پولیس 27 مارچ کو اپنے فرائض انجام دے رہی ہے۔ [پاکستان فارورڈ]

کراچی پولیس 27 مارچ کو اپنے فرائض انجام دے رہی ہے۔ [پاکستان فارورڈ]

کراچی -- پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور شہریوں میں، چین کی شہریت رکھنے والوں کی طرف سے کی جانے والی مجرمانہ اور دھوکہ دہی کی سرگرمیوں میں اضافے پر، تشویش میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

حالیہ اسکینڈل -- جن میں "دلہنوں کی اسمگلنگ"اور خودکار ٹیلر مشینوں (اے ٹی ایمز) سے صارفین کے بینک کارڈوں کے نمبر اور ذاتی شناختی نمبر (پنز) حاصل کرنے کی دھوکہ دہی کی مہم -- شامل ہیں، نے چین کے جرائم پیشہ گروہوں کو روشنی میں لے آئی ہیں۔

تجزیہ نگاروں کے مطابق ان کے بہت سے جرائم کو ذرائع ابلاغ میں اجاگر نہیں کیا گیا ہے کیونکہ ان پر ایسے سرکاری حکام کا دباؤ ہے جنہیں خطرہ ہے کہ وہ اسلام آباد کے بیجنگ کے ساتھ نفع بخش تعلق کو نقصان پہنچائیں گے۔

اس پریشان کن رجحان کی ایک اور مثال میں، پولیس نے 24 اپریل کو خیبر پختون خواہ (کے پی) کی مانسہرہ ڈسٹرکٹ میں ایک چینی شہری کو گرفتار کیا جس پر اپنے ہی اغوا کا ڈرامہ کرنے کا الزام ہے۔ اس سے پہلے وہ ملازمت فراہم کرنے کا چکما دے رہا تھا۔

پاکستانی مسیحی برادری، 15 جنوری کو کراچی کے علاقے کورنگی میں چرچ میں ہونے والی تقریب میں شریک ہیں۔ چینی مجرم گروہوں کی طرف سے "دلہنوں کے اغوا" کا بڑا نشانہ مسیحی برادری تھی۔ [پاکستان فارورڈ]

پاکستانی مسیحی برادری، 15 جنوری کو کراچی کے علاقے کورنگی میں چرچ میں ہونے والی تقریب میں شریک ہیں۔ چینی مجرم گروہوں کی طرف سے "دلہنوں کے اغوا" کا بڑا نشانہ مسیحی برادری تھی۔ [پاکستان فارورڈ]

پاکستانی پولیس کو 27 مارچ کو بینک کے باہر دکھایا گیا ہے۔ [پاکستان فارورڈ]

پاکستانی پولیس کو 27 مارچ کو بینک کے باہر دکھایا گیا ہے۔ [پاکستان فارورڈ]

روزنامہ امت نے خبر دی ہے کہ کے پی اور سندھ پولیس نے اس گرفتاری کے لیے باہمی تعاون کیا اور کراچی پولیس نے ملزم کو واپس شہر لانے کے لیے ایک ٹیم کو بھیجا۔

یہ شخص، جس کا نام ذرائع ابلاغ کو نہیں بتایا گیا، نے کراچی میں کٍئی شہریوں سے دھوکہ کیا اور ان سے لاکھوں روپے چرا لیے۔ یہ بات کراچی پولیس کے چیف غلام نبی میمن نے بتائی۔

اس شخص کے رفیق نے 20 اپریل کو پولیس کے پاس شکایت درج کروائی اور کہا کہ ملزم کو کراچی کے علاقے ڈیفنس ہاوسنگ اتھارٹی سے اغوا کر لیا گیا ہے۔

میمن نے کہا کہ جب پولیس نے اس گمشدگی کی تفتیش شروع کی تو انہیں پتہ چلا کہ یہ چینی شہری ملازمت فراہم کرنے کا ایک جعلی گروہ چلا رہا تھا اور اس نے شہریوں کو لاکھوں روپوں سے محروم کر دیا تھا۔

شکایات میں اضافہ

ایف آئی اے کے حکام کا کہنا ہے کہ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کو گزشتہ کئی سالوں سے شہریوں کی طرف سے بہت سی شکایات ملی ہیں۔

ایف آئی اے کے ایک اہلکار، جس نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی ہے کیونکہ اسے ذرائع ابلاغ سے بات کرنے کا مجاز نہیں ہے، نے کہا کہ "ان میں سے اکثر کو چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) سے جڑے منصوبوں میں ملازمتیں اور ٹھیکے فراہم کرنے کا وعدہ کر کے دھوکہ دیا گیا ہے"۔

اہلکار نے کہا کہ چین کے مجرم گروہ پیغامات کی ایپ ویچیٹ اور ای میلز کو استعمال کرتے ہوئے انجان پاکستانی شہریوں -- تاجروں اور خصوصی طور پر طلباء -- کو دھوکہ دیتے ہیں اور انہیں لاکھوں روپوں سے محروم کر دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ "اب یہ بہت اہم ہو گیا ہے کہ عوام کو ڈیجٹل خواندگی کے بارے میں تعلیم دی جائے تاکہ وہ سائبر جرائم کے مختلف پہلوؤں سے آگاہ ہو سکیں جن میں دھوکہ دہی کی سرگرمیاں بھی شامل ہیں"۔

اہلکار نے کہا کہ ایسی مجرمانہ سرگرمیوں میں اضافے کو سامنے رکھتے ہوئے، پاکستانی حکومت کو چینی شہریوں کو ویزہ جاری کرتے ہوئے زیادہ چوکسی دکھانی چاہیے۔

'دلہنوں کی اسمگلنگ'

2018 سے لے کر اب تک، پاکستان نوجوان لڑکیوں کی اسمگلنگ میں ملوث چینی مجرم گروہوںکی پکڑ دھکڑ کر رہا ہے۔ یہ گروہ غریب عورتوں اور ان کے اہلِ خاندان کو سرحد پار ایک زیادہ خوشحال زندگی فراہم کرنے کے جھوٹے وعدے کر کے اپنا شکار بنا رہے تھے۔

اے آر وائے نیوز کی طرف سے اپریل 2019 میں ایک تحقیقاتی رپورٹ چلائے جانے کے بعد، جس میں لاہور کے ایک غیر قانونی رشتہ کروانے والے مرکز میں، بہت سے چینی نژاد مردوں کو پاکستانی عورتوں کے ساتھ دکھایا گیا تھا-- جن میں دو نو عمر لڑکیاں بھی شامل تھیں، "دلہنوں کی اسمگلنگ" کی طرف توجہ انتہائی بڑھ گئی۔

گزشتہ دسمبر میں ایسوسی ایٹڈ پریس کی طرف سے کی جانے والی ایک تفتیش کے مطابق، پاکستان بھر سے کم از کم 629 لڑکیوں اور عورتوں کو دلہنوں کے طور پر چینی نژاد مرداوں کو فروخت کیا گیا جو انہیں چین لے گئے۔

چنی گروہ پنجاب میں رشتہ کروانے کے کئی غیر قانونی مراکز چلا رہے تھے جن کی توجہ زیادہ تر مسیحی برادری پر مرکوز تھی کیونکہ ان میں سے اکثریت زیادہ تعلیم یافتہ نہیں ہے اور مالی طور پر غیر مستحکم بھی ہے۔ یہ بات فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے مسیحی سرگرم کارکن جمشید دانیال نے بتائی۔

انہوں نے کہا کہ "مگر اب، ملک بھر میں چرچوں نے برادری کو متنبہ کرنے کے لیے آگاہی کی ایک مہم چلائی ہے جس میں چین کے مجرمانہ گروہوں کی طرف سے رشتہ کروانے والے غیر قانونی گروہوں کے بارے میں بتایا گیا ہے۔

اے ٹی ایم دھوکہ دہی

قانون نافذ کرنے والے حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے، ارکان کی اکثریت کو گرفتار کرنے سے، چینی مجرم گروہوں کے ایسے نیٹ ورکس کو توڑ دیا ہے جو اے ٹی ایم دھوکہ دہی میں ملوث تھے۔

پولیس نے بہت سے ایسے چینی نژاد افراد کو گرفتار کیا ہے جو 2018 میں اے ٹی ایم دھوکہ دہی میں ملوث تھے اور ان کے قبضے سے لاکھوں روپے اور کئی سو اے اٹی ایم کارڈ بازیاب کیے ہیں۔

کراچی کی ایک عدالت نے تین مارچ کو اے ٹی ایم کے ایک دھوکہ باز کو جو کہ چینی شہریت رکھتا تھا، کو اس کی شمولیت پر، چھہ سال اور تین ماہ کی قید اور ایک ملین روپے (6,200 ڈالر) کا جرمانہ کیا۔ یہ خبر نیشنل نے دی ہے۔

اگرچہ ایسی منصوبوں میں ملوث چینی نیٹ ورکس کو توڑ دیا گیا ہے مگر حکام نے متنبہ کیا ہے کہ پاکستانی مجرم جنہیں چینی گروہوں نے تربیت دی ہے، اب ان سے مماثل اے ٹی ایم فراڈ کر رہے ہیں۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500