سلامتی

بلوچ باغیوں کی جانب سے چینی شہریوں پر حملوں میں اضافے کے بعد مشکلات میں اضافہ

از زرق خان

پاکستانی فوج کے سپاہی 30 جولائی کو اسلام آباد میں چین کے نائب وزیر اعظم ہی لائفنگ کے دورے سے پہلے گشت کر رہے ہیں۔ انہوں نے 30 جولائی کو چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کی 10ویں سالگرہ منانے کے لیے اسلام آباد کا دورہ کیا تھا۔ [فاروق نعیم/اے ایف پی]

پاکستانی فوج کے سپاہی 30 جولائی کو اسلام آباد میں چین کے نائب وزیر اعظم ہی لائفنگ کے دورے سے پہلے گشت کر رہے ہیں۔ انہوں نے 30 جولائی کو چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کی 10ویں سالگرہ منانے کے لیے اسلام آباد کا دورہ کیا تھا۔ [فاروق نعیم/اے ایف پی]

اسلام آباد -- اتوار (13 اگست) کو بلوچستان کے علاقے گوادر میں چینی قافلے پر حملہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ کس طرح چین مخالف جذبات رکھنے والے کالعدم باغی گروہ ملک میں تیزی سے نمودار ہو رہے ہیں، چینی شہریوں پر حملوں پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں اور پاکستان کے پہلے سے ہی ناگفتہ بہ سکیورٹی منظرنامے کو مزید خراب کر رہے ہیں۔

ایک کالعدم عسکریت پسند تنظیم بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے ان چینی انجینئرز پر حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے، جنہیں گوادر میں پاکستانی فوج حفاظت فراہم کر رہی تھی۔

گوادر، بیجنگ کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کے لیے ایک اہم مقام ہے، جس کے منصوبوں میں گہرے پانی کی بندرگاہ تیار کرنا شامل ہے۔

متضاد حکایات

ایک بیان میں، بی ایل اے نے دعویٰ کیا کہ مجید بریگیڈ، جو کہ گروہ کا ایک ذیلی یونٹ ہے، کے دو ارکان نے چار چینی شہریوں اور 13 پاکستانی سکیورٹی اہلکاروں کو ہلاک کر دیا ہے۔

گروہ نے چینی اہداف پر مزید مہلک حملے کرنے کی دھمکی دیتے ہوئے خبردار کیا کہ بیجنگ "گوادر اور ... سیندک [ضلع چاغی میں تانبے اور سونے کی کان کنی کا منصوبہ] میں بلوچستان کے وسائل کی بے دریغ غارت گری اور لوٹ مار میں مجرمانہ طور پر ملوث ہے۔"

تاہم پاکستانی فوج، چینی حکومت اور مختلف اخبارات نے چینی شہریوں کو نقصان پہنچنے کی خبروں کی تردید کی ہے۔

انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) نے ایک بیان میں کہا کہ "فوجی قافلے پر حملہ کرنے کے بعد سیکیورٹی فورسز نے دو دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا۔"

بیان میں قافلے میں چینی شہریوں کی کسی قسم کی موجودگی کا کوئی حوالہ نہیں دیا گیا۔

ایک پولیس اہلکار نے اے ایف پی کو بتایا کہ تین پاکستانی فوجی زخمی ہوئے ہیں۔

چین کے سرکاری اخبار گلوبل ٹائمز نے خبر دی ہے کہ عسکریت پسندوں نے تین بلٹ پروف اسپورٹس یوٹیلیٹی گاڑیوں اور ایک وین پر مشتمل ایسے قافلے پر حملہ کیا جس میں 23 چینی اہلکار سوار تھے۔

اس میں کہا گیا کہ "حملے کے دوران ایک دیسی ساختہ دھماکہ خیز آلہ (آئی ای ڈی) پھٹ گیا اور وین کو گولی مار دی گئی۔ گولیوں سے شیشے میں دراڑیں پڑ گئیں۔"

اسلام آباد میں چینی سفارت خانے نے پاکستانی حکومت سے مطالبہ کیا کہ "حملہ آوروں کو سخت سزا دی جائے اور چینی شہریوں، اداروں اور منصوبوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے عملی اور موثر اقدامات کیے جائیں۔"

چینی شہریوں کی حفاظت کا چیلنج

بلوچ باغی گروہوں -- بی ایل اے اور بلوچ لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) -- نے حالیہ برسوں میں چینی مفادات کو نشانہ بنایا ہے اور بیجنگ کو چین- پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک)، جو کہ چین کے بی آر آئی اقدام کا ایک پاکستان جزو ہے، کے تحت معاہدے کرنے کے خلاف خبردار کیا ہے۔

ان حملوں سے چینی رہنما پریشان ہیں اور انہوں نے اسلام آباد پر زور دیا ہے کہ وہ ان کے شہریوں کی حفاظت کو بڑھائے۔

کوئٹہ میں مقیم ایک سیکیورٹی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر کہا کہ "بلوچستان کی نسلی... شورش 2004 میں شروع ہوئی اور اس میں نمایاں اضافہ ہوا اور ایک دہائی قبل سی پیک کی آمد کے ساتھ ہی اس کی ہلاکت خیزی بڑھ گئی۔"

انہوں نے نوٹ کیا کہ بی ایل اے اور بی ایل ایف، بلوچ راجی آجوئی سانگر (بی آر اے ایس) کے اجزاء ہیں، جو بلوچستان اور سندھ کے عسکریت پسندوں کا ایک ایسا عملیاتی اتحاد ہے جسے چینی مفادات کو نشانہ بنانے کے لیے تشکیل دیا گیا ہے۔

اپریل 2022 میں کراچی میں ایک خاتون خودکش بمبار نے تین چینی اساتذہ کو ہلاک کر دیا۔ اگست 2021 میں گوادر میں چینی شہریوں کو نشانہ بنانے والے حملے میں دو بچے ہلاک اور تین زخمی ہوئے تھے۔

کراچی میں، بی ایل اے نے 2020 میں پاکستان اسٹاک ایکسچینج (پی ایس ای) اور 2018 میں چینی قونصل خانے پر حملوں کا دعویٰ کیا تھا۔ چینی کمپنیاں پی ایس ای کے 40 فیصد حصے کی مالک ہیں۔

بلوچ عسکریت پسند گروہوں کے علاوہ، تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) 2021 میں داسو میں ایک بس پر خودکش حملے کی ذمہ دار تھی جس میں نو چینی انجینئر ہلاک ہوئے تھے۔ ٹی ٹی پی پر 2021 میں کوئٹہ کے ایک پرتعیش ہوٹل میں ہونے والے بم دھماکے کا الزام بھی لگایا گیا تھا۔ اس حملے میں چینی سفیر کو کوئی نقصان نہیں پہنچا تھا۔

ایکسپریس ٹریبیون نے جنوری 2022 میں خبر دی تھی کہ ان حملوں نے اسلام آباد اور بیجنگ کے تعلقات کو کشیدہ کر دیا، جس سے پاکستان جسے نقد رقم کی کمی کا سامنا ہے ، کو دہشت گردی کے حملوں کے 36 چینی متاثرین کو 4.6 ملین ڈالر سے لے کر 20.3 ملین ڈالر تک کا معاوضہ فراہم کرنا پڑا تھا۔

غیر ملکی کمپنیوں کے ساتھ کام کرنے والی اسلام آباد میں قائم سیکیورٹی فرم کے ایک ماہر فخر عالم نے کہا کہ "دور دراز علاقوں میں چینی انجینئرز کے لیے جامع سیکیورٹی کو یقینی بنانا، دقت اور لاگت دونوں کے لحاظ سے اہم چیلنجز پیش کرتا ہے۔"

عالم نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "بیجنگ کے مفادات کے خلاف موجود خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے ہزاروں سیکورٹی اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔"

پاکستان نے گزشتہ سال بیجنگ کی جانب سے چینی شہریوں اور منصوبوں کے تحفظ کے لیے ایک نجی چینی سیکیورٹی کمپنی کو پاکستان میں کام کرنے کی اجازت دینے کی درخواست مسترد کردی تھی۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500