حقوقِ انسانی

چینی دباؤ کے باعث گوادر میں حقوق کی تحریک کے خلاف کریک ڈاؤن شروع

زرق خان

گوادر کے ہزاروں رہائشیوں نے، 20 نومبر کو، چین کے زیرِ انتظام چلنے والی اپنی بندرگاہ کی طرف جانے والی ایکسپریس وے کو بلاک کر دیا۔ گوادر اب بھی سی پیک کا ایک اہم حصہ ہے، جو چین کے متنازعہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (بی آر آئی) کا پاکستانی جزو ہے۔ [زرق خان/پاکستان فارورڈ]

گوادر کے ہزاروں رہائشیوں نے، 20 نومبر کو، چین کے زیرِ انتظام چلنے والی اپنی بندرگاہ کی طرف جانے والی ایکسپریس وے کو بلاک کر دیا۔ گوادر اب بھی سی پیک کا ایک اہم حصہ ہے، جو چین کے متنازعہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (بی آر آئی) کا پاکستانی جزو ہے۔ [زرق خان/پاکستان فارورڈ]

مقامی لوگوں کے مطابق، بیجنگ کے کہنے پر پاکستانی حکام، گوادر میں جو کہ بحر ہند کی وہ بندرگاہ جسے کبھی چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کا "شاہی جواہر" منصوبہ سمجھا جاتا تھا، ایک ماہ سے جاری احتجاج کے خلاف کریک ڈاؤن کر رہے ہیں۔

بلوچستان کے جنوب مغربی ساحل پر واقع بندرگاہی شہر، سی پیک کا ایک بڑا حصہ بننے کا امکان رکھتا ہے، جو کہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (بی آر آئی) کا ایک پاکستانی جزو ہے، جسے ون بیلٹ ون روڈ (او بی او آر) بھی کہا جاتا ہے۔

جماعت اسلامی پاکستان کے مقامی راہمنا مولانا ہدایت الرحمان جنہوں نے "گوادر کو اس کے حقوق دو" نامی مہم کی بنیاد رکھی ہے، نے ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے 26 دسمبر سے درجنوں مظاہرین کو گرفتار کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔

مقامی صحافیوں کے مطابق حکام نے ایک ہنگامی قانون کا نفاذ بھی شروع کر دیا ہے جس میں پانچ یا اس سے زیادہ لوگوں کے جمع ہونے پر پابندی ہے اور کئی دنوں سے انٹرنیٹ سروس پر پابندی لگا دی گئی ہے۔

کوئٹہ کے رہائشی اور سیاسی کارکن، 27 دسمبر کو گوادر میں حقوق کی مہم کے خلاف طاقت کے استعمال کی مذمت کرنے کے لیے، مقامی پریس کلب کے باہر ایک احتجاج میں حصہ لے رہے ہیں۔ [زرق خان/پاکستان فارورڈ]

کوئٹہ کے رہائشی اور سیاسی کارکن، 27 دسمبر کو گوادر میں حقوق کی مہم کے خلاف طاقت کے استعمال کی مذمت کرنے کے لیے، مقامی پریس کلب کے باہر ایک احتجاج میں حصہ لے رہے ہیں۔ [زرق خان/پاکستان فارورڈ]

یہ اقدامات 21 دسمبر کو رحمان کی جانب سے گوادر میں رہنے والے چینی شہریوں کو بندرگاہی شہر چھوڑنے کی تنبیہ کے بعد سامنے آئے۔

"گوادر کو اس کا حق دو" نامی مہم کے جھنڈے تلے، مظاہرین نے مقامی اور چینی ٹرالروں کے ذریعے گہرے سمندر میں غیر قانونی ماہی گیری اور ایسے منصوبوں کی طرف جانے والے راستوں پر، جو کہ سی پیک کا حصہ ہیں، موجود سیکورٹی کی چوکیوں پر مقامی لوگوں کو ہراساں کرنے کے خاتمے کا مطالبہ کیا ہے۔

انہوں نے پانی اور بجلی کی قلت کو ختم کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔

مہم کے ایک حصہ کے طور پر، 27 اکتوبر سے 25 دسمبر تک، ہزاروں رہائشیوں نے گوادر بندرگاہ کی طرف جانے والے داخلی راستے اور ایکسپریس وے کو بلاک کر دیا۔

رحمان نے 22 اکتوبر کو لاہور میں، چوتھی عاصمہ جہانگیر کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ "ہمارے پاس پانی، بجلی یا تعلیم نہیں ہے۔ ہمیں ایسا سی پیک نہیں چاہیے۔"

رحمان نے اس وقت کہا کہ گوادر کے رہائشیوں کو اساتذہ اور اسکول فراہم کرنے کے بجائے، سی پیک سے فوجی چوکیاں قائم ہوئی ہیں اور فوجی اہلکار تعینات ہوئے ہیں جو چینی شہریوں اور ان کے مفادات کی حفاظت کرتے ہیں۔

اسی طرح کا ایک ماہ تک جاری رہنے والا احتجاج نومبر2021 میں بھی شروع ہوا تھا۔

کریک ڈاؤن کی مذمت

انسانی حقوق کی تنظیموں اور سیاسی جماعتوں نے بڑے پیمانے پر گرفتاریوں اور ہنگامی اقدامات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

جماعت اسلامی نے گوادر میں حقوق کی مہم کے خلاف طاقت کے استعمال کی مذمت کرنے کے لیے ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے کئے ہیں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل (اے آئی) نے 30 دسمبر کو ٹویٹر پر کہا کہ "لوگوں کو پرامن طریقے سے عدم اطمینان کا اظہار کرنے کا حق ہے اور ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس حق کے لیے سہولت فراہم کرے۔"

اس نے فالو اپ ٹویٹ میں مزید کہا کہ "ہر قسم کے عوامی اجتماعات پر مکمل پابندی لگانا احتجاج کے حق کو دبانے کے مترادف ہے اور یہ ایک سرد پیغام بھیجتا ہے کہ اختلاف رائے کی کوئی گنجائش نہیں ہے"۔

گوادر میں انٹرنیٹ کی بندش پر ردِعمل کا اظہار کرتے ہوئے، اے آئی نے 3 جنوری کو ٹویٹ کیا کہ: "اس طرح کی رکاوٹیں نہ تو ضروری ہیں اور نہ ہی متناسب، اور [یوں] گوادر کے لوگوں کی بات چیت، معلومات تک رسائی، حفاظت تلاش کرنے اور کام کرنے کی صلاحیت کو روکتی ہیں"۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی)، جو کہ قومی سطح پر کام کرنے والا حقوق کا ایک خودمختار ادارہ ہے، نے بھی حکومت پر زور دیا کہ وہ مظاہرین کے ساتھ مذاکرات کرے اور ان کے مطالبات کی منصفانہ سماعت کرے۔

ایچ آر سی پی نے 2 جنوری کو ایک بیان میں کہا کہ "ان کی جائز شکایات - - جو کہ نئی نہیں ہیں -- ان مطالبات پر مرکوز ہیں جو پاکستان کے کسی بھی شہری کو کرنے کا حق ہے: انسان کی حفاظت کا حق، نقل و حرکت اور پرامن اجتماع کی آزادی، صاف پانی تک رسائی، تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال، جبری گمشدگیوں کا خاتمہ اور زیادہ معاشی مواقع اور ذریعہ معاش۔"

بی آر آئی سے عسکریت پسندی کا فروغ

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ کریک ڈاؤن اسلام آباد پر چین کے دباؤ کی وجہ سے ہوا ہے تاکہ رحمان کی زیر قیادت کام کرنے والی حقوق کی مہم کو دبایا جا سکے۔

گوادر کے ایک طالب علم، اشرف علی نے کہا کہ "گوادر کو کاروبار اور تجارت کا مرکز بنانے اور رہائشیوں کے لیے ترقیاتی منصوبے شروع کرنے کی بجائے، چین پاکستانی حکام کو بندرگاہی شہر کو سیکورٹی زون بنانے اوررہائشیوں کی نقل و حرکت کو محدود بنانے پر، مجبور کر رہا ہے۔"

انہوں نے کہا کہ بیجنگ کے کہنے پر رحمان کی زیرِ قیادت کام کرنے والی مہم کے خلاف طاقت کا استعمال، بلوچستان میں نسلی عسکریت پسندی کو مزید ہوا دے گا۔

پاکستان میں چینی اثر و رسوخ کی تیزی سے بڑھوتری، خاص طور پر بلوچستان اور سندھ صوبوں میں -- چینی کمپنیاں مقامی وسائل کا بے پرواہ اور مقامی لوگوں پر اثرات کی فکر کیے بغیر استحصال کر رہی ہیں -- نے صوبے میں شدید بدامنی کو جنم دیا ہے۔

بی آر آئی سے متعلقہ کمپنیوں اور منصوبوں نے بھی اپنے پاکستانی کارکنوں پر صفر رواداری کے کووڈ- 19 کے اقدامات کو نافذ کرکے ناراضگی پیدا کی ہے، جس میں زبردستی لاک ڈاؤن اور ان کے اہل خانہ سے علیحدگی بھی شامل ہے۔

ان پر چینی شہریوں کو پاکستانی کارکنوں سے زیادہ تنخواہ دینے کا بھی الزام ہے۔

بلوچستان میں بڑھتے ہوئے چینی اثر و رسوخ پر غصے نے، بلوچ اور سندھی عسکریت پسند تنظیموں کو ایک دوسرے کے ساتھ اتحاد کرنے کی ترغیب دی ہے اور اس تشویش کو ہوا دی ہے کہ مشترکہ گروپ، خطے میں پرتشدد سرگرمیاں بڑھا دے گا۔

پولیس نے کہا ہے کہ 28 ستمبر کو، ایک بندوق بردار نے کراچی میں ہونے والے حملے میں، چینی نژاد ایک شخص کو ہلاک اور دو دیگر کو زخمی کر دیا تھا۔

اپریل کے آخر میں، بلوچ راجی آجوئی سانگر (بی آر اے ایس) کے ایک جزو، بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے کراچی میں ایک سرکاری یونیورسٹی کے اندر خودکش حملے میں تین چینی اساتذہ سمیت چار افراد کو ہلاک کرنے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

بی ایل اے کے عسکریت پسندوں نے فروری میں بلوچستان کے اضلاع نوشکی اور پنجگور میں فوجی چوکیوں پر دو حملے کیے تھے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 6

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

یہ مسٸلہ انہوں نے پیدا کیا ہے جنہیں CPEC قبول نہیں۔

جواب

گوادر کے عوام کو ان کا حق دیا جائے چائنیز کو جو کہ غیر مسلم ھیں گوادر کے مسلم عوام پر مسلط نہ کیا جائے ۔ورنہ خون خرابہ ہوسکتا ہے کافر کبھی بھی مسلمان کا خیر خواہ نہیں ہو سکتا چین بھی اپنی ذاتی مفاد کی خاطر دوستی کررہاہے ہمیں مستقبل میں چائنیز کو پاکستان پر حکومت کرتے ھوئے دکھائی دیتا ہے ۔یہ بات 100% یقینی ہے ۔

جواب

جی ہاں

جواب

جی ہاں

جواب

قانونی حساب سے گوادر کے عوام کو ان کا جائز حقوق دیے جاے۔۔

جواب

گوادردھرنا احتجاج چین ،سی پیک یا پاکستان کے خلاف نہیں بلکہ غنڈہ ٹیکس ،بھتہ خوری ،ٹرالر مافیا،عوام کو چیک پوسٹوں پر بے عزت کرنے ،تاجروں کاروباری حضرات سے بارڈرپر بھتہ لینے کے خلاف ہے ۔ٹرالر مافیاسے وردی میں ملبوث سرکاری اہلکارلاکھوں غنڈہ ٹیکس لیکر چھوٹے ماہی گیروں کا کاروبارتباہ کررہے ہیں۔حق دو تحریک جماعت اسلامی عوامی اجتماعی مسائل کو قانونی طریقے سے حل کرنے کی جمہوری جدوجہد کر رہی ہے،کچھ لوگ امریکہ کو خوش کرنے کیلئے حق دوتحریک کو سی پیک کا چین کے خلاف کا کہہ رہے ہیں جو کہ صرف جھوٹاپروپیگنڈہ کے سواکچھ نہیں۔امریکی آلہ کار بن کر ٹرالر مافیاسے روزانہ لاکھوں کروڑوں غنڈہ ٹیکس لینے والے والے سی پیک وچین کے خلاف ہے

جواب