معیشت

گوادر میں جاری احتجاج سے چینی حمایت کے حامل سی پی ای سی منصوبہ لڑکھڑانے لگا

زرق خان

20 نومبر کو گوادر کے ہزاروں باشندوں نے چین کے زیرِ انتظام اپنی بندرگاہ کو جانے والی ایکسپریس وے کو مسدود کر دیا۔ گوادر چین کے متنازع بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹیو (بی آر آئی) کے ایک پاکستانی جزُ سی پی سی سی کا ایک اہم جزُ رہا ہے۔ ]زرق خان / پاکستان فارورڈ[

20 نومبر کو گوادر کے ہزاروں باشندوں نے چین کے زیرِ انتظام اپنی بندرگاہ کو جانے والی ایکسپریس وے کو مسدود کر دیا۔ گوادر چین کے متنازع بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹیو (بی آر آئی) کے ایک پاکستانی جزُ سی پی سی سی کا ایک اہم جزُ رہا ہے۔ ]زرق خان / پاکستان فارورڈ[

رواں ماہ گوادر میں، جو کبھی چین-پاکستان معاشی راہداری (سی پی ای سی) کے "تاج کا ہیرا" سمجھا جاتا تھا، مقامی افراد کے معاش اور روزمرہ زندگیوں پر چین کے رسوخ کے خلاف احتجاج زور پکڑ گیا ہے۔

20 نومبر کو ہزاروں باشندوں نے گوادر بندرگاہ کو جانے والی ایکسپریس وے کو مسدود کر دیا، جو کہ چین کے متنازع بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹیو (بی آر آئی)، جو ون بیلٹ ون روڈ (او بی او آر) کے نام سے بھی معروف ہے، کا ایک نہایت اہم جزُ ہے۔

"گوادر کو اس کا حق دو" مہم کے پرچم تلے، احتجاج کنندگان مقامیوں اور چینی ماہی گیر کشتیوں کی جانب سے گہرے سمندر کی غیرقانونی ماہی گیری اور اکتوبر سے اب تک اس منصوبے کے سی پی ای سی کے جزُ کی جانب جانے والے سیکیورٹی ناکوں پر مقامی افراد کو ہراساں کیے جانے کے خاتمہ کا مطالبہ کیا۔

"گوادر کو اس کے حقوق دو" مہم کا آغاز کرنے والے جماعتِ اسلامی پاکستان کے ایک مقامی رہنما مولانا ہدایت الرحمٰن نے اعلان کیا، "مسائل کے حل تک احتجاج جاری رہے گا۔"

رحمٰن، جنہوں نے گزشتہ برس بھی ایک مہم کی قیادت کی تھی، نے کہا، "گوادر کے باشندوں نے ایک مرتبہ پھر حکمران طبقہ کو ایک واضح پیغام دیا ہے۔ اگر توجہ نہ دی گئی، تو عوام کے پاس بندرگاہ بند کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ ہو گا۔"

رحمٰن نے 22 اکتوبر کو لاہور میں چوتھی عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں کہا، "ہمارے پاس پانی، بجلی، یا تعلیم نہیں ہے۔ ہمیں ایسا سی پی ای سی نہیں چاہیئے۔"

رحمٰن نے کہا گوادر کے باشندوں کو اساتذہ اور سکول دینے کے بجائے، سی پی ای سی فوجی ناکوں اور چینی شہریوں اور ان کے مفادات کا تحفظ کرنے والے عسکری عملہ کی موجودگی کا باعث بن رہا ہے۔

جھوٹ

احتجاج کنندگان نے کہا کہ سی پی ای سی سے منسلک منصوبوں نے گوادر کے باشندوں کی زندگیاں بہتر نہیں بنائیں، نہ ہی انہوں نے پانی اور بجلی کی قلت جیسے بنیادی شہری مسائل کے حل میں مدد دی ہے۔

احتجاج میں شریک ہونے والے گوادر کے ایک طالبِ علم اشرف علی نے کہا کہ طویل عرصہ سے گوادر بندرگاہ کو سی پی ای سی کے تاج کے ہیرے کے طور پر دکھایا جا رہا ہے، لیکن حقیقت میں، آسودہ حالی اور ترقی کے پرکشش چینی وعدے جھوٹ ثابت ہوئے ہیں۔

علی نے کہا، "گوادر کو کاروبار اور تجارت کا مرکز بنانے اور شہریوں کے لیے ترقیاتی منصوبے ]پیدا کرنے[ کے بجائے، چین پاکستانی حکام کو مجبور کر رہا ہے کہ بندرگاہ کے شہر کو ایک سیکیورٹی زون بنا دیں اور شہریوں کی نقل و حرکت کو محدود کر دیں۔"

اس نے کہا، "ابھی تک گوادر کے لوگ 2,500 روپے (12.50 ڈالر) فی ٹینکر پینے کا پانی خریدنے پر مجبور ہیں۔"

پاکستان میں بی آر آئی منصوبوں کے ایک اسلام آباد اساسی سکالر جاوید حسین شاہ کے مطابق، حالیہ احتجاج شہریوں کے بڑھتے ہوئے غم و غصہ کی علامت ہیں۔

شاہ نے کہا، "گوادر کے عوام نے ان خالی خوابوں پر اپنی مایوسی کا اظہار کیا جو بیجنگ نے انہیں اپنے مفادات کی قیمت پر بیچے۔"

چینی شہریوں اور منصوبوں پر عسکریت پسند گروہوں کی جانب سے حملوں میں اضافہ کے بعد، پاکستانی حکام نے گوادر بندرگاہ پر کام کرنے والے چینی شہریوں کے تحفظ کے لیے درجنوں سیکیورٹی ناکے قائم کیے۔

تاہم، ان ناکوں نے ضلع گوادر کے 300,000 سے زائد باشندوں کی نقل و حرکت مسدود کر دی ہے، جس سے ایک ایسے ردِّ عمل کا آغاز ہوا جو بڑھ کر حقوق کی ایک مہم بن گیا۔

جنوری 2021 میں ایک صوبائی عدالت نے پاکستانی حکام کو گوادر میں بندرگاہ کے گرد ایک خاردار تار لگانے سے روکا، جس سے متعلق مقامی افراد کا کہنا تھا کہ وہ مقامی باشندوں کی نقل وحرکت کو متاثر کرتی اور ماہی گیروں کو سمندر تک رسائی کے مقامات تک پہنچنے سے روک دیتی۔

بڑھتے ہوے چین مخالف جذبات

بڑھتے ہوے چین مخالف جذبات گوادر میں احتجاج کا یہ نیا سلسلہ 27 اکتوبر کو شروع ہوا اور یہ گزشتہ برس دسمبر میں اسی طرز کی کئی ماہ طویل ریلیوں کے بعد سامنے آیا۔

اس وقت چین نے میڈیا میں گوادر میں احتجاج کا نوٹس لیا اور ان احتجاج کی غلط خبروں کے طورپر تردید کر دی۔

پاکستانی میڈیا مشاہدین کے مطابق، پاکستان کی بی آر آئی میں شمولیت اور چینی رسوخ پر بڑھتے ہوئے عوامی غم و غصہ کی وجہ سے پاکستان چینی پراپیگنڈا کا ایک بڑا ہدف ہے۔

بیجنگ نے چینی ریاست کے زیرِ انتظام میڈیا آؤٹ لیٹس پر اردو زبان میں سروسز میں سرمایہ کاری کی ہے، اور Gawadar Pro جیسی ویب سائیٹس کا آغاز کیا ہے، جو انگریزی اور اردو میں مواد شائع کرتی ہیں، جس کا بنیادی مقصد پاکستان میں چین مخالف جذبات کو اٹھنے سے روکنا ہے۔

پاکستان، بطورِ خاص بلوچستان اور سندھ کے صوبوں میں تیزی سے بڑھتا ہوا چینی رسوخ – جبکہ چینی کمپنیاں مقامی افراد پر اثرات کی پرواہ یا فکر کیے بغیر مقامی وسائل کا استحصال کر رہی ہیں – صوبہ میں شدید بدامنی کا باعث بنا ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 2

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

بکواس ہورہی ہے

جواب

بنیادی----ملازمتوں کی ضرورت ہے

جواب