احتجاج

گوادر میں مظاہروں کی واپسی سے پاکستان میں چینی اثر و رسوخ اجاگر

از زرک خان

'گوادر کو اس کا حق دو' مہم کے بانی مولانا ہدایت الرحمان 22 اکتوبر کو لاہور میں چوتھی عاصمہ جہانگیر کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے۔ [مولانا ہدایت الرحمان/ٹویٹر]

'گوادر کو اس کا حق دو' مہم کے بانی مولانا ہدایت الرحمان 22 اکتوبر کو لاہور میں چوتھی عاصمہ جہانگیر کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے۔ [مولانا ہدایت الرحمان/ٹویٹر]

گوادر کے رہائشیوں اور کارکنوں نے گزشتہ ہفتے بڑھتے ہوئے چینی اثر و رسوخ کے خلاف احتجاج شروع کیا، جو کہ گزشتہ نومبر کے بعد سے ایسا دوسرا مظاہرہ ہے۔

بلوچستان کے جنوب مغربی ساحل پر واقع بندرگاہی شہر کے چین-پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کا ایک بڑا حصہ بننے کی توقع ہے، جو چین کی بیلٹ اینڈ روڈ پہل کاری (بی آر آئی) کا ایک پاکستانی حصہ ہے، جسے ون بیلٹ ون روڈ (او بی او آر) بھی کہا جاتا ہے۔

مظاہرین کا کہنا تھا کہ سی پیک سے منسلک منصوبے گوادر کے مکینوں کی زندگیوں میں بہتری نہیں لائے اور نہ ہی ان سے پانی اور بجلی کی طویل قلت کو دور کرنے میں مدد ملی ہے۔

مولانا ہدایت الرحمان، جنہوں نے پچھلے سال پہلے احتجاج کی قیادت کی تھی، نے کہا، "ہمارے پاس نہ پانی ہے، نہ بجلی ہے نہ ہی تعلیم ہے۔ ہمیں ایسا سی پیک نہیں چاہیے"۔

اپریل میں گوادر میں ماہی گیری کی کشتیوں کی فائل فوٹو۔ [زرک خان]

اپریل میں گوادر میں ماہی گیری کی کشتیوں کی فائل فوٹو۔ [زرک خان]

"گوادر کو اس کا حق دو" مہم کی بنیاد رکھنے والے جماعتِ اسلامی پاکستان کے ایک مقامی رہنماء ہدایت الرحمان نے گزشتہ ہفتے لاہور میں چوتھی عاصمہ جہانگیر کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اپنے تاثرات بیان کیے۔

ہدایت الرحمان نے کہا کہ گوادر کے مکینوں کو اساتذہ اور سکول فراہم کرنے کے بجائے، سی پیک نے فوجی چوکیاں اور فوجی اہلکار دیے ہیں جو چینی شہریوں اور ان کے مفادات کی حفاظت کرتے ہیں۔

گزشتہ نومبر میں، ہزاروں مکینوں نے ہفتوں طویل "گوادر کو اس کا حق دو" مہم میں حصہ لیا، جس میں مقامی اور چینی ٹرالروں کی جانب سے گہرے سمندر میں غیر قانونی ماہی گیری اور حفاظتی چوکیوں پر مقامی لوگوں کو ہراساں کیے جانے کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا تھا جو سی پیک کے حصے کے طور پر لگنے والے منصوبوں کے نتیجے میں بنی تھیں۔

ہدایت الرحمان کی قیادت میں مظاہرین نے پانی اور بجلی کی قلت کو ختم کرنے کا بھی مطالبہ کیا اور گوادر میں ممکنہ باڑ لگانے کی مخالفت کا اظہار کیا جس کا مقصد چینی امداد سے چلنے والے منصوبوں کو سی پیک کے مخالف بلوچ علیحدگی پسندوں سے بچانا ہے۔

گوادر میں ماہی گیروں کے ایک رہنما بشیر ہوت نے اس وقت کہا تھا، "ایک سال گزرنے کے باوجود، گوادر کے مسائل حل نہیں ہوئے بلکہ ان میں اضافہ ہوا ہے۔ ہم چیک پوسٹوں اور گہرے سمندر میں ٹرالروں کے خلاف اور بنیادی انسانی حقوق کے لیے دوبارہ احتجاج کریں گے"۔

انہوں نے کہا، "گوادر میں چین کی موجودگی نے مقامی باشندوں کو اپنی ہی سرزمین پر اجنبی بنا دیا ہے"۔

خدشات میں اضافہ

چینی شہریوں اور عسکریت پسند گروپوں کے منصوبوں پر حملوں میں اضافے کے بعد، پاکستانی حکام نے گوادر بندرگاہ پر کام کرنے والے چینی شہریوں کی حفاظت کے لیے درجنوں سکیورٹی چوکیاں قائم کیں۔

تاہم، چوکیوں نے گوادر ضلع کے 300,000 سے زائد مکینوں کی نقل و حرکت میں رکاوٹ ڈالی ہے، جس سے مقامی آبادی کی جانب سے شدید ردِعمل پیدا ہوا جو حقوق کی مہم میں شامل ہو گیا۔

ہوت نے مئی میں کہا تھا، "ایک ماہ سے زائد عرصے تک احتجاج منظم کرنے کے بعد، تحریک اپنے کچھ مطالبات کو پورا کرنے کے لیے حکومت پر دباؤ ڈالنے میں کامیاب ہو گئی، جن میں چوکیوں میں نرمی اور ماہی گیری کو روکنا شامل ہے"۔

انہوں نے کہا کہ گوادر اور بلوچستان کے دیگر حصوں میں چینیوں کی موجودگی کی وجہ سے مقامی باشندے غیر یقینی صورتحال کا شکار ہیں۔

جنوری 2021 میں، ایک صوبائی عدالت نے پاکستانی حکام کو گوادر میں بندرگاہ کے گرد خاردار باڑ لگانے سے روک دیا تھا جس کے بارے میں مقامی لوگوں کا کہنا تھا کہ اس سے مقامی باشندوں کی نقل و حرکت میں رکاوٹ آئے گی اور ماہی گیروں کو سمندری رسائی کے مقامات تک پہنچنے سے روکا جائے گا۔

چینی اثر و رسوخ

پاکستان، خصوصاً بلوچستان اور سندھ صوبوں میں، چینی اثر و رسوخ میں تیزی سے اضافے – کہ چینی کمپنیاں مقامی وسائل کا بے دریغ اور مقامی لوگوں پر اثرات کی فکر کیے بغیر استحصال کر رہی ہیں -- نے صوبے میں شدید بدامنی کو جنم دیا ہے۔

بی آر آئی سے متعلقہ کمپنیوں اور منصوبوں نے بھی اپنے پاکستانی اہلکاروں پر کووڈ-19 کے بالکل ناقابلِ برداشت اقدامات کو نافذ کرکے ناراضگی پیدا کی ہے، جس میں زبردستی لاک ڈاؤن اور ان کے اہل خانہ سے علیحدگی شامل ہے۔

ان پر چینی شہریوں کو پاکستانی اہلکاروں سے زیادہ تنخواہ دینے کا بھی الزام ہے۔.

بلوچستان میں بڑھتے ہوئے چینی اثر و رسوخ پر غصے نے بلوچ اور سندھی عسکریت پسند تنظیموں کو ایک دوسرے کے ساتھ اتحاد کرنے کی ترغیب دی ہے، اس تشویش کو ہوا دیتے ہوئے کہ مشترکہ گروہ خطے میں پُرتشدد سرگرمیاں بڑھا دے گا۔

پولیس نے بتایا کہ 28 ستمبر کو، ایک مسلح شخص نے کراچی میں ایک حملے میں ایک چینی نژاد شخص کو ہلاک اور دو دیگر کو زخمی کر دیا۔

اپریل کے آخر میں، بلوچ راجی آجوئی سانگر (براس)کے ایک جزو، بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے کراچی میں ایک سرکاری یونیورسٹی کے اندر خودکش حملے میں تین چینی اساتذہ سمیت چار افراد کو ہلاک کرنے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

بی ایل اے کے عسکریت پسندوں نے فروری میں بلوچستان کے اضلاع نوشکی اور پنجگور میں فوجی چوکیوں پر جڑواں حملے کیے تھے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 2

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

Mukami logon ko bunyad sahulatain fraham karo

جواب

پاکستان ایک اسلامی اس فلاحی ریاست نہی بلکہ فوجی ریاست ھے اس ملک کے مالک وہی ہیں 6

جواب