کابل -- پڑوسی ملک پاکستان کے تجربات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے افغان تجزیہ کاروں کا کہنا ہے افغانستان میں چینی سرمایہ کاری سے صرف بیجنگ کو فائدہ ہوتا ہے اور اس کا مقصد خطے کی تجارت اور معیشت کو ہائی جیک کرنا ہے۔
چین نے حالیہ مہینوں میں چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کو افغانستان تک وسیع کرنے کی پیشکش کی ہے، جو کہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (بی آر آئی) کا ایک پاکستانی حصہ ہے، جسے ون بیلٹ ون روڈ (او بی او آر) بھی کہا جاتا ہے۔
چین کے وزیر خارجہ وانگ یی نے تاشقند، ازبکستان میں شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے وزرائے خارجہ کے سربراہی اجلاس کے موقع پر کہا کہ بیجنگ "سی پیک کی افغانستان تک توسیع کی حمایت کرتا ہے"۔
انہوں نے 29 جولائی کو کہا، "چین افغانستان کی ترقیاتی حکمتِ عملیوں کے ساتھ بی آر آئی کی صف بندی کو آگے بڑھانے کے لیے پُرامید ہے۔"
چین نے سی پیک کے تحت بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کے لیے 60 بلین ڈالر -- زیادہ تر قرضوں کی صورت میں -- تک کا وعدہ کیا ہے۔
سنہ 2015 میں شروع کیا گیا،سی پیک پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں گوادر کی بندرگاہ سے، گلگت بلتستان میں خنجراب پاس سے ہوتا ہوا چین کے شمال مغربی سنکیانگ کے علاقے تک 2,700 کلومیٹر پر محیط ہے۔
ابتدائی طور پر پاکستانی حکام نے سی پیک کو ملکی معیشت کے ساتھ ساتھ چین کے ساتھ تعلقات میں ایک جست کے طور پر سراہا تھا۔
لیکن اب، مقامی اقتصادی مفادات کے تحفظ میں چین کی ناکامی کے بارے میں خدشات اور بڑھتا ہوا غصہ، چینی سرمایہ کاروں کو اصل زر پر زیادہ گارنٹی شدہ منافع، ناقابلِ برداشت قومی قرض اس منصوبے کی کسی بھی خوبی کو زیر کر رہے ہیں۔
منصوبے کی سست رفتاری خصوصاً تشویشناک ہے۔
افغان وزارتِ مواصلات اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے سابق ڈپارٹمنٹ ڈائریکٹر فہیم چکری نے کہا، "اقتصادی یا کسی دوسرے منصوبے کے مخصوص عرصے ہوتے ہیں، لیکن ہم دیکھ سکتے ہیں کہ سنہ 2015 سے سی پیک کے نفاذ کی شرح صرف 20 فیصد رہی ہے۔"
"سی پیک اور میس عینک کی کان جیسے دیگر منصوبوں کا سست نفاذ یہ ظاہر کرتا ہے کہ چین کے منصوبے علاقائی ممالک کی تجارت اور اقتصادی ترقی کے لیے نہیں بلکہ اس کے اقتصادی، سیاسی اور دفاعی اہداف، مفادات اور پالیسیوں کے لیے بنائے گئے ہیں۔ "
سنہ 2007 میں، افغان حکام نے میس عینک، جس میں دنیا کا تانبے کا دوسرا سب سے بڑا ذخیرہ ہے، میں 30 سال تک کان کنی کر کے خام دھات نکالنے کے لیے چین کے کان کنی کے سرکاری کنسورشیم کے ساتھ 3 بلین ڈالر کا معاہدہ کیا تھا۔
جنگ اور بیجنگ اور کابل کے درمیان معاہدے کی مالی شرائط پر اختلافات تاخیر کا باعث بنے، اور اب صرف اس بات پر بات چیت جاری ہے کہ آگے کیسے بڑھنا ہے۔
چکری نے کہا، "اگرچہ سی پیک برسوں سے جاری ہے، لیکن ابھی تک اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا"۔
"چین نے پاکستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے، لیکن پاکستان کی معیشت اس وقت بہت بُری حالت میں ہے اور یہ دنیا کے سب سے زیادہ مقروض ممالک میں سے ایک ہے۔"
"اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خطے کے کسی بھی ملک کو چین کے اقتصادی منصوبوں سے فائدہ نہیں ہو سکتا۔ سی پیک میں شامل ہو کر افغانستان کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔"
کابل کی ایک نجی یونیورسٹی میں بزنس ایڈمنسٹریشن کے ایک طالب علم، 25 سالہ قاسم اکبری نے کہا کہ چین علاقائی ممالک کو جھوٹی امید دلاتا ہے اور مختلف اقتصادی منصوبوں کی منصوبہ بندی اور ڈیزائننگ کے ذریعے انہیں مصروف رکھتا ہے، یہ سب کچھ وہ خفیہ طور پر خطے میں اپنے تزویراتی اقتصادی منصوبوں کو نافذ کرنے کی کوشش کرنے کے لیے کرتا ہے۔
"لہٰذا، افغانستان کی سی پیک میں شمولیت سے ہمیں کوئی فائدہ نہیں ہو گا؛ بلکہ اس سے الٹا ہمیں نقصان بھی ہو گا۔"
انہوں نے کہا، "افغانستان کو قرضے فراہم کرکے اور جھوٹے معاشی وعدے کرکے، چین صرف افغانستان کو مقروض، دست نگر اور چین پر انحصار کرنے والا بنانا چاہتا ہے۔"
امریکہ میں مقیم افغان اقتصادی تجزیہ کار، دریا خان باہیر نے کہا، "چین اپنے اقتصادی اور سیاسی منصوبوں کو بڑھانے اور وسعت دینے کے لیے خطے میں بڑے منصوبوں کے اطلاق کی کوشش کر رہا ہے۔"
انہوں نے کہا، "سی پیک خطے میں اس کے منصوبوں میں سے ایک ہے، لیکن اس کے قلیل و طویل المیعاد فوائد صرف چین ہی کو حاصل ہوں گے۔"
ان کا کہنا تھا، "بظاہر، چین چاہتا ہے کہ افغانستان سی پیک میں شامل ہو... لیکن حقیقت میں، چین افغانستان کو اپنے معاشی مفادات کے لیے ایک آلے کے طور پر استعمال کرنا چاہتا ہے۔"
"اگر افغانستان سی پیک میں شامل ہوتا ہے تو چین کو سب سے زیادہ فائدہ ہو گا، نہ کہ ہمارے ملک کو ۔"
قدرتی وسائل
چین کی خاص طور پر نظر افغانستان کی معدنی دولت پر ہے۔
کابل کے مقامی اقتصادی تجزیہ کار محمد شبیر بشیری نے کہا، "چین کی پالیسی معاشی طور پر تیسری دنیا کے ممالک پر غلبہ حاصل کرنا ہے۔ اس لیے افغانستان کی موجودہ اقتصادی اور سیاسی صورتحال کے پیشِ نظر، چین افغانستان کے جغرافیے کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔"
انہوں نے کہا، "یہ افغانستان میں اقتصادی تسلط حاصل کرنا اور تمام قدرتی وسائل، خام مال اور زیرِ زمین دولت بھی ہتھیانا چاہتا ہے۔"
ان کا مزید کہنا تھا، "چین کا افغانستان کے ذریعے جنوبی ایشیا کو وسطی ایشیا سے جوڑنے کا ہدف اقتصادی اور سیاسی زاویوں پر مشتمل ہے۔"
"قرضے فراہم کر کے اور اقتصادی منصوبوں کا اطلاق کر کے، چینی ایک طرف تو جنوبی ایشیائی، وسطی ایشیائی اور افغان منڈیوں پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں اور دوسری طرف علاقائی معیشت، تجارت اور گزرگاہوں پر اجارہ داری اور انہیں ہائی جیک کرنا چاہتے ہیں۔"
لندن میں مقیم اقتصادی تجزیہ کار اور افغان پرائیویٹ بینکوں کی ایسوسی ایشن کے سابق ڈائریکٹر سیار قریشی نے کہا، "چین ایک صنعتی اور اشیاء ساز ملک ہے، اور اسے افغانستان کے قدرتی وسائل اور خام مال کی سخت ضرورت ہے۔"
انہوں نے کہا، "لہٰذا، وہ مختلف منصوبوں کا اطلاق کرکے اور اسے سی پیک میں شامل کرکے افغانستان کے قدرتی وسائل اور خام مال تک رسائی کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔"
"چین افغانستان کی نازک اور بحران زدہ معیشت کو اچھی طرح سمجھتا ہے۔ لہٰذا، اسے قرض دے کر، یہ اسے قرضوں میں دفن کرنے کی کوشش کرے گا اور آخر کار اسے محکوم بنانے کی کوشش کرے گا تاکہ وہ خطے اور افغانستان میں اپنے اقتصادی اور سیاسی ایجنڈے کا اطلاق باآسانی کر سکے۔"