درجۂ حرارت صفر سے نیچے ہونے کے باوجود گلگت بلتستان (جی بی) کے علاقے میں چینی اثر و رسوخ کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج بدھ (11 جنوری) کے روز تیسرے ہفتے میں داخل ہو گیا۔
مظاہرین نے 27 دسمبر کو سکردو، جی بی میں روزانہ مظاہرے شروع کیے تھے تاکہ ان کے ذریعہ معاش اور روزمرہ کی زندگیوں پر چینی اثر و رسوخ کے بارے میں تحفظات کا اظہار کیا جا سکے -- یعنی زمینوں پر قبضے اور دیگر مسائل، بشمول بجلی اور گندم کی قلت اور پارلیمنٹ میں پیش کیے بغیر ٹیکسوں کا نفاذ۔
مظاہرین کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرنے کے لیے علاقہ مکینوں نے 6 جنوری کو جی بی بھر میں شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال بھی کی تھی۔
جی بی میں مظاہرین کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرنے کے لیے کراچی سمیت دیگر شہروں میں بھی مظاہرین نے مظاہروں میں شرکت کی۔
جی بی کی سرحد چین کے مسلم اکثریتی سنکیانگ کے علاقے کے ساتھ ملتی ہے اور یہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کا گیٹ وے ہے، جو چین کی متنازعہ بیلٹ اینڈ روڈ پہل کاری (بی آر آئی) کا ایک پاکستانی جزو ہے، جسے ون بیلٹ ون روڈ (او بی او آر) بھی کہا جاتا ہے۔
مظاہرین کا کہنا ہے کہ پاکستانی حکومت اُن خفیہ منصوبوں کے لیے زمینوں پر قبضے کر رہی ہے جو سی پیک کا حصہ ہیں
سول سوسائٹی کے ایک کارکن، مصطفٰی شگری نے کہا، "ہمارا پاکستانی حکومت سے مطالبہ ہے کہ وہ منصوبے کے تمام، خصوصاً زمین کے حصول کے بارے میں، معاہدوں کو سامنے لائے جو اس نے چین کے ساتھ کیے ہیں جو گلگت بلتستان میں کیے جائیں گے"۔
کچھ کارکنوں کا دعویٰ ہے کہ چین کا لیتھیم کے لیے ایک پروسیسنگ پلانٹ بنانے کا منصوبہ ہے جو وہ مستقبل قریب میں افغانستان کی کانوں سے نکالے گا اور وہاں سے لائے گا۔
ڈان نے پیر کے روز اپنے اداریئے میں لکھا کہ مقامی لوگوں کو "اس علاقے میں ریاست کی جانب سے اُس زمین پر قبضے کے بارے میں شدید تحفظات ہیں جو ان کے بقول لوگوں کی ہے۔ ریاست جی بی میں زمین سی پیک اور دیگر منصوبوں کے لیے حاصل کر رہی ہے"۔
اس میں کہا گیا، "یہ دیکھتے ہوئے کہ جی بی کے لوگ ان مسائل پر متحد ہو چکے ہیں، ریاست کو ان کے ساتھ مشغول ہونا، ان کے تحفظات کو سننا اور باہمی متفقہ حل تک پہنچنا ہے"۔
احتجاج کے منتظمین کا کہنا ہے کہ جی بی کے رہائشیوں کی سی پیک سے بہت سی توقعات وابستہ ہیں۔
ایک مقامی تاجر رہنماء جواد بیگ نے کہا، "لیکن سی پیک کے داخلی راستے پر ہونے کے باوجود، مقامی لوگ فیصلہ سازی کے عمل اور میگا پراجیکٹ کے براہِ راست فوائد سے مکمل طور پر اکتائے ہوئے ہیں"۔
سنہ 2015 میں، جی بی کی قانون ساز اسمبلی (جی بی ایل اے) نے متفقہ طور پر ایک قرارداد منظور کی تھی جس میں وفاقی حکومت پر زور دیا گیا کہ وہ اس کے نمائندوں کو اس مشاورتی کمیٹی میں شامل کرے جو سی پیک پر کام کر رہی ہے۔
نیا تنازعہ پیدا کرنا
بلوچستان اور سندھ صوبوں میں اسی طرح کے مسائل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کارکنوں کا کہنا ہے کہ جی بی میں چینی سرمایہ کاری سے صرف بیجنگ کا فائدہ ہے اور یہ چینیوں کے خلاف مسلح مزاحمت کو جنم دے سکتا ہے۔
مقامی لوگوں کے مطابق، 25 دسمبر سے، پاکستانی حکام بیجنگ کی ایماء پر، گوادر میں مہینوں سے جاری احتجاج کے خلاف کریک ڈاؤن کر رہے ہیں، جو بلوچستان میں بحرِ ہند کی ایک بندرگاہ ہے جسے کبھی سی پیک کے "سر کا تاج" منصوبہ سمجھا جاتا تھا۔
بلوچستان اور سندھ میں اسلام آباد اور مقامی گروپوں کے درمیان تصادم کے آثار پہلے ہی سامنے آچکے ہیں، جہاں مقامی نسلی عسکریت پسند گروپوں نے بلوچ راجی آجوئی سانگر (براس) کے نام سے ایک اتحاد قائم کیا ہے اور پاکستان میں چینی مفادات پر حملہ کیا ہے۔
ہنزہ میں سیاسیات کے پروفیسر محمد شفیق ہنزئی نے کہا، "اب اگر چینی سرمایہ کاری کے بارے میں مقامی آبادی کے خدشات کو درست طریقے سے حل نہ کیا گیا تو گلگت-بلتستان میں ایسے عناصر اس صورتحال سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں"۔
انہوں نے کہا، "ایک طرف سی پیک منصوبوں کے نام پر زمینوں پر زبردستی قبضہ کر لیا گیا ہے تو دوسری جانب چینی شہریوں کی حفاظت کے لیے بڑی تعداد میں فوجیوں کی تعیناتی کے ذریعے علاقے کو محفوظ بنایا گیا ہے"۔
اسلام آباد اور بیجنگ نے 14 جولائی کو ہونے والے خودکش حملے، جس میں نو چینی انجینئرز ہلاک ہو گئے تھے ، کا ذمہ دار تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو ٹھہرایا تھا۔ یہ انجینیئر جی بی سے ملحقہ ضلع کوہستان، خیبر پختونخواہ میں ایک ہائیڈرو الیکٹرک پراجیکٹ پر کام کر رہے تھے۔
ہنزائی نے مزید کہا، "چینی مقامی ثقافت، مذہب یا ماحول کی زیادہ پرواہ کیے بغیر ترقیاتی منصوبوں کو نافذ کرنے کے لیے مشہور ہیں"۔
یغور بیویوں کو حراست میں لینا
بیجنگ کا مسلمانوں پر ظلم سرحد پار سے جی بی میں بھی پھیل گیا ہے کیونکہ حکومت نے سینکڑوں پاکستانی شہریوں کی یغور بیویوں اور بچوں کو حراست میں لینے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے، جس سے ملک میں بیجنگ مخالف جذبات سخت ہو رہے ہیں۔
مردوں کا ایک گروپ، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق جی بی سے ہے، اپنی یغور مسلمان بیویوں کی رہائی کے لیے سنہ 2017 سے مہم چلا رہا ہے، جنہیں مبینہ طور پر چینی حکومت کے بدنام زمانہ "تلقینِ عقیدہ کیمپوں" میں رکھا گیا ہے۔
جی بی اور سنکیانگ کے رہائشی اکثر ایک دوسرے سے ملتے ہیں، اور آپس میں شادیاں کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔
سنہ 2018 میں، جی بی ایل اے نے ایک متفقہ قرارداد کے ذریعے حکومت سے سنکیانگ میں زیرِ حراست بیویوں کی رہائی کے لیے فوری اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
تاہم بڑے پیمانے پر احتجاج اور مقامی پارلیمان کی قرارداد کے باوجود چینی حکام نے ابھی تک جی بی کے رہائشیوں کی بیویوں اور بچوں کو رہا نہیں کیا۔
ہم کسی بھی طرح سے جی بی کو اندھیرے میں رکھ کر چین سے کئے جانے والے حکومتی منصوبوں کو قبول نہیں کرتے ہیں، بلکہ اس طرح کئے جانے والے جی بی مخالف منصوبوں کی پرزور مذمت کرتے ہیں۔
جوابتبصرے 8
شرمناک منفی میڈیا مہم
جوابتبصرے 8
یہ جھوٹا پروپگنڈہ ہے، اور یہ پیچ انڈیا سے چلایا جا رہا ہے۔۔۔ میں گلگت بلتستان کا شہری ہوں ۔۔ایسی کوئی بات نہیں ہوئی کہ چین کے خلاف کوئی مظاہرہ ہوا ۔۔۔ہمارا مطالبہ صرف ٹیکس کا خاتمہ تھا جو کہ ہو گیا۔۔۔۔ بند کرو جھوٹی خبریں پھیلانا
جوابتبصرے 8
ایسے مضامین پاک سر زمین کے خلاف اور یہودی کفار سرگرمیوں کا پتہ دیتی ھےپ
جوابتبصرے 8
حکومتِ پاکستان کو مظاہرین اور مقامی لوگوں کے تحفظات فورا دور کرنے چاہیں اور ایسے اقدامات کرنے چاہیں کہ سی پیک کا فائدہ مقامی آبادی کو پہنچے اور لوگوں کی زندگی میں بہتری آئے۔
جوابتبصرے 8
یہ سب جھوٹ ہے، احتجاج کے حوالے سے اس پیج پر بیان جھوٹی ہے اور کسی قسم کا چین کے خلاف احتجاج نہیں کی جارہی ہے بلکہ عوامی زمین کا خالصہ سرکار کے خلاف احتجاج کیا گیا ہے جھوٹی خبریں دینے سے پہلے خبر کیا لکھنا ہے اور صداقت کیا ہے پھر خبر شائع کرنا چاہیے
جوابتبصرے 8
سب جھوٹ ہے میں گلگت بلستان کا باشندہ ہوں پاکستان کے خلاف ہے احتجاج ہے گلگت بلستان متنازعہ علاقہ ہے
جوابتبصرے 8
خقائق کو توڑ مڑوڑ کر پیش کرنے میں یہ ویب سائٹ اعلیٰ درجے پہ فائز ہے ۔
جوابتبصرے 8