سلامتی

مقروضوں کا پچھتاوا: چینی قرضوں کے وصول کنندگان کی منسلکہ شرائط و ضوابط پر گریہ زاری

از پاکستان فارورڈ

چینی صدر شی جن پنگ (دائیں) 28 اپریل 2019 کو بیجنگ میں اپنی ملاقات سے قبل تاجک صدر امام علی رحمان سے مصافحہ کرتے ہوئے۔ [مادوکا اکیگامی/اے ایف پی]

چینی صدر شی جن پنگ (دائیں) 28 اپریل 2019 کو بیجنگ میں اپنی ملاقات سے قبل تاجک صدر امام علی رحمان سے مصافحہ کرتے ہوئے۔ [مادوکا اکیگامی/اے ایف پی]

بیجنگ کی طرف سے فراہم کردہ گرانٹوں اور قرضوں سے ادائیگی کردہ ملک بھر میں عمارتوں اور منصوبوں پر لگائے گئے نشانات کے مطابق تاجکستان میں چین کی سرمایہ کاری "مشترکہ مستقبل کے لیے" ہے۔

لیکن بیجنگ پر اربوں ڈالر کا قرض کسی نہ کسی طریقے سے واجب الادا ہے، مبصرین حیران ہیں کہ کیا اس کے ساتھ کوئی خاص شرائط و ضوابط منسلک ہیں.

تاجکستان سرکاری طور پر چلنے والے برآمدی-درآمدی بینک آف چائنا (ایگزم بینک) کا 1.98 بلین ڈالر کا مقروض ہے – جو سنہ 2022 کے آغاز میں ملک کے غیر ملکی قرض خواہوں کے قرض کا تقریباً 60 فیصد بنتا ہے۔

یوریشینیٹ نے 21 جولائی کو خبر دی کہ تاجکستان کی جانب سے سنہ 2021 میں ادا کردی 131.9 ملین ڈالر کے قرضوں میں سے، 65.2 ملین ڈالر چین گئے – لگ بھگ 22 ملین ڈالر سود کے ساتھ جمع ہوئے۔

کمبوڈیا کے وزیر دفاع ٹی بان (بائیں) اور کمبوڈیا میں چین کے سفیر وانگ وینٹیان (دائیں) 8 جون کو کمبوڈیا کے صوبہ پریہے سیہانوک میں ریام نیول بیس پر سنگ بنیاد کی تقریب میں حصہ لے رہے ہیں۔ [پان بونی/اے ایف پی]

کمبوڈیا کے وزیر دفاع ٹی بان (بائیں) اور کمبوڈیا میں چین کے سفیر وانگ وینٹیان (دائیں) 8 جون کو کمبوڈیا کے صوبہ پریہے سیہانوک میں ریام نیول بیس پر سنگ بنیاد کی تقریب میں حصہ لے رہے ہیں۔ [پان بونی/اے ایف پی]

27 مارچ 2021 کو اُس وقت کے ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف (بائیں) تہران میں اپنے چینی ہم منصب وانگ یی (دائیں) سے ملاقات کر رہے ہیں، اُس معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے جسے سرکاری ٹیلی ویژن نے '25 سالہ تزویراتی تعاون کا معاہدہ' کہا تھا۔ [اے ایف پی]

27 مارچ 2021 کو اُس وقت کے ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف (بائیں) تہران میں اپنے چینی ہم منصب وانگ یی (دائیں) سے ملاقات کر رہے ہیں، اُس معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے جسے سرکاری ٹیلی ویژن نے '25 سالہ تزویراتی تعاون کا معاہدہ' کہا تھا۔ [اے ایف پی]

دریں اثنا، تاجک پارلیمان کے نئے احاطے کو چین کی جانب سے 250 ملین ڈالر کی گرانٹ سے تعمیر کیا جا رہا ہے۔

بیجنگ کی طرف سے مزید 120 ملین ڈالر سے ایک نئی بلدیاتی عمارت تعمیر ہو رہی ہے۔

تاجک ماہرِ سیاسیات پرویز مُلا جانوف نے کہا کہ "یہ سب کچھ بہت پریشان کن محسوس ہوتا ہے۔"

انہوں نے یوریشینیٹ کو بتایا، "یہ ایک بہت ہی خطرناک رجحان ہے، خصوصاً اس لیے کہ بڑے قرضے بھی ہیں۔"

"چینی قرضے جمع کرنا آگ سے کھیلنا ہے۔ اب کسی بھی لمحے، یہ سیاسی اور جغرافیائی سیاسی توسیع کا بہانہ بن سکتا ہے۔"

مُلا جانوف نے کہا، "چین کی تمام ممالک کے لیے ایک معیاری پالیسی ہے: انہیں اپنی افرادی قوت کو ملازمتیں دینے کی ضرورت ہے، اس لیے وہ اپنے لوگوں اور صنعتی وسائل کو تمام منصوبوں کے لیے بھیجتے ہیں"۔

چین کو اپنی صنعت کے لیے منڈی کی ضرورت ہے۔

رازداری اور ترجیحی سلوک

چینی قرضوں کو عام طور پر ذرائع آمدورفت کے بنیادی ڈھانچے یا توانائی کے منصوبوں کی تعمیر یا مرمت کے مقاصد کے لیے بڑھایا جاتا ہے، جن میں سے بہت سے بیجنگ کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (بی آر آئی) کے تحت آتے ہیں، جسے ون بیلٹ، ون روڈ (او بی او آر) بھی کہا جاتا ہے۔

مگر قرضوں کو اس قدر راز میں رکھا جاتا ہے کہ ادائیگی کی شرائط کو پورا کرنا اکثر مشکل ہوتا ہے۔ بہت سے معاملات میں کام چینی سرکاری کمپنیوں کو بھی جاتا ہے، جس میں مقامی لوگوں کے لیے کچھ ملازمتیں مختص ہوتی ہیں۔

وحدت-یوون ریلوے، جو وسطی اور جنوبی تاجکستان کو ملاتی ہے، کی تعمیر ایک مثال ہے جس کی تفصیلات طویل عرصے سے دھندلی رہی ہیں۔

سنہ 2014 میں، ایگزم بینک نے ریلوے کو مکمل کرنے کے لیے ادھار بڑھانے پر اتفاق کیا۔

البتہ، سنہ 2015 کے اوائل میں ہی پہلے نائب وزیر خزانہ جمال الدین نور علی ایف نے صحافیوں کو بتایا کہ ایگزم بینک سے کم از کم 68 ملین ڈالر کا قرض ریلوے کی تکمیل کے لیے استعمال کیا گیا۔

سرکاری ملکیتی چائنا ریلوے کنسٹرکشن کارپوریشن کو بھی مبینہ طور پر کھلی بولی کے عمل کے بغیر ٹھیکے کے لیے ٹینڈر دیا گیا تھا۔

جب اگست 2016 میں صدر امام علی رحمان نے ریلوے کے دوشنبہ تا کلیاب حصے کا افتتاح کیا تو تاجکستان کے سرکاری میڈیا نے بتایا کہ اس منصوبے کی لاگت 125 ملین ڈالر تھی۔

مقامی میڈیا نے یہ نہیں بتایا کہ رقم کہاں سے آئی یا تعمیر کس نے پایۂ تکمیل تک پہنچائی۔

اسی طرح، ایگزم بینک نے بنیادی طور پر تقریباً 290 ملین ڈالر کے قرض کے ساتھ تاجک دارالحکومت سے صوبہ سغد تک بلند و بالا دوشنبہ-چنک سڑک کو اوور ہال کرنے کی بڑی کوشش کی۔

یہ منصوبہ سنہ 2006 میں شروع ہوا اور سنہ 2013 میں ختم ہوا، اور بہت بڑی انجینئرنگ کمپنی چائنا روڈ اینڈ برج کارپوریشن کو ٹھیکہ ملا – جس نے تاجکستان پر قرضوں کا بوجھ چڑھا کر، چین کو مؤثر طریقے سے رقم واپس بھیج دی۔

'خریدار کا پچھتاوا'

تاجکستان بمشکل واحد مثال ہے جہاں چینی کمپنیاں -- اور چینی مزدور -- بنیادی ڈھانچے کے بڑے منصوبے بناتے ہیں جن کی ادائیگی چینی قرضوں سے ہوتی ہے۔

عرب سینٹر واشنگٹن ڈی سی نے جنوری 2021 کی ایک رپورٹ میں کہا کہ کئی ممالک کو بی آر آئی کو اپنانے اور قرضوں کے بوجھ کے ساتھ ہونے کے مفروضے کی وجہ سے "خریدار کے پچھتاوے" کی ایک شکل کا تجربہ ہوا ہے۔

اس کا کہنا تھا، "بہت سوں کا ماننا ہے کہ بیجنگ تزویراتی اثاثوں کو قابو کرنے کے لیے دانستہ طور پر یہ 'قرض کا جال' ترتیب دے رہا ہے"۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ "بیجنگ کی رفتار اور عزم [بی آر آئی کی پیروی میں] مشرق وسطیٰ میں سب سے زیادہ واضح ہے، اس میں یہ نوٹ کیا گیا ہے کہ چین نے "بی آر آئی سے متعلقہ منصوبوں کی مالی اعانت میں مشرق وسطیٰ میں کم از کم 123 بلین ڈالر جھونک دیئے ہیں"۔

چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی-پیک) کے ساتھ پاکستان کا تجربہ، جو بی آر آئی کا ایک پاکستانی جزو ہے، خریدار کے پچھتاوے کی ایک مثال رہی ہے۔

حالیہ برسوں میں بیجنگ نے اسلام آباد کے ساتھ کئی ارب ڈالر کے بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کے لیے معاہدے کیے ہیں جس سے مقامی باشندوں میں چینی اثر و رسوخ اور کمپنیوں کے مزدوری کے طریقوں پر ناراضگی، خاص طور پر چینی شہریوں کو پاکستانی مزدوروں سے زیادہ تنخواہ دینے پر تشویش پیدا ہوئی ہے۔

پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں بڑھتے ہوئے چینی اثر و رسوخ پر غصے نے بلوچ اور سندھی عسکریت پسند تنظیموں کو ایک دوسرے کے ساتھ اتحاد کرنے کی ترغیب دی ہے، اس تشویش کو ہوا دیتے ہوئے کہ مشترکہ گروپ خطے میں پُرتشدد سرگرمیاں بڑھا دے گا۔

سری لنکا حالیہ مہینوں میں چین کے واجب الادا قرضوں کے بڑے بوجھ اور اس کے نتیجے میں ملک میں سیاسی اور اقتصادی نظام کے خاتمے کے لیے بھی سرخیوں کی زینت بنا ہے۔

چین کا اس پر قرض -- تاجکستان کے 60 فیصد کے مقابلے میں -- اس کے کل غیر ملکی قرضوں کا صرف 10 فیصد ہے۔

سٹینفورڈ یونیورسٹی کے قانون، سائنس اور ٹیکنالوجی کے پروگرام کے ڈائریکٹر مارک لیملے نے سنہ 2020 میں سی این این کو بتایا، "چین کے ساتھ کاروبار کرنا مشکل سے مشکل تر ہے۔"

"یہ احساس بھی بڑھتا جا رہا ہے کہ چین کے ساتھ کاروبار کرنے میں پریشان کن اخلاقی سمجھوتے بھی شامل ہیں۔"

فوجی توسیع

درحقیقت، دنیا بھر کی بندرگاہوں پر زیرِ تعمیر چینی فوجی اڈے ظاہر کرتے ہیں کہ بیجنگ کس طرح زیادہ فوجی رسائی حاصل کرنے کے لیے ملکوں میں اپنی اقتصادی "سرمایہ کاری" کا فائدہ اٹھا رہا ہے۔.

چین اہم علاقوں میں تجارتی بندرگاہوں کی سہولیات تعمیر کر رہا ہے جسے اس کی تیزی سے پھیلتی ہوئی بحریہ کی جانب سے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

یہ سب بیجنگ کی فوجی اور تجارتی سہولیات کے نیٹ ورک کے ذریعے سرزمین چین کو ہارن آف افریقہ سے جوڑنے کے لیے "موتیوں کی لڑی" کی حکمت عملی کا جزو ہیں۔

عرب سینٹر واشنگٹن ڈی سی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے، "اگرچہ چین کی مشرق وسطیٰ میں مشغولیت کی حکمتِ عملی کو معمولی قرار دیا جا سکتا ہے، لیکن درحقیقت یہ مشرق وسطیٰ میں چین کے فوجی اور سفارتی پروفائل کی توسیع کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے چل رہی ہے۔"

وسط جنوری میں، تہران نے اعلان کیا تھا کہ وہ چین کے ساتھ 25 سالہ جامع تزویراتی تعاون کے معاہدے پر عمل درآمد شروع کر رہا ہے، جس پر گزشتہ سال دستخط ہوئے تھے۔

معاہدے کی شرائط کے تحت ایران 400 بلین ڈالر کے سرمایہ کاری کے منصوبوں کے آغاز کے ذریعے بی آر آئی میں شامل ہو گا۔

اگرچہ معاہدہ بظاہر تجارتی نوعیت کا ہے، لیکن ایرانی بندرگاہوں جاسک اور چاہ بہار میں چینی سرمایہ کاری اس کی تیزی سے بڑھتی ہوئی بحریہ کو اپنی رسائی کو وسیع کرنے کے قابل بنائے گی.

وال سٹریٹ جرنل (ڈبلیو ایس جے) نے سنہ 2019 میں امریکی اور اتحادی حکام کا حوالہ دیتے ہوئے خبر دی تھی کہ ایک اور مثال میں، چین نے کمبوڈیا کے ساتھ ایک خفیہ معاہدہ کیا تاکہ اس کی بحریہ کو اس ملک میں ایک اڈہ استعمال کرنے کی اجازت دی جائے۔

چینی اور کمبوڈین دونوں حکام نے ان اطلاعات کی تردید کرتے ہوئے انہیں "جعلی خبریں" اور "افواہیں" قرار دیا تھا۔

واشنگٹن پوسٹ نے 6 جون کو مغربی حکام کے حوالے سے خبر دی کہ لیکن اب چین خفیہ طور پر کمبوڈیا میں اپنی فوج کے خصوصی استعمال کے لیے ایک بحری تنصیب تعمیر کر رہا ہے۔

گزشتہ سال کے آخر میں، متحدہ عرب امارات (یو اے ای) امریکی خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے اس انکشاف پر ششدر رہ گیا تھا کہ چین خفیہ طور پر خلیفہ بندرگاہ پر ایسی تعمیر کر رہا ہے جو ایک فوجی تنصیب لگتی ہے.

ڈبلیو ایس جے نے نومبر میں خبر دی کہ اماراتی حکومت کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ تجارتی جہازوں کے بھیس میں بندرگاہ میں داخل ہونے والے بحری جہاز درحقیقت وہ بحری جہاز تھے جو چینی فوج سگنل انٹیلیجنس جمع کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ انکشاف کے بعد تعمیر روک دی گئی تھی۔

چین کے استوائی گنی میں فوجی اڈے کے منصوبے کے بارے میں گزشتہ دسمبر میں وال سٹریٹ جرنل کی ایک اور رپورٹ کے جواب میں، چینی ریاستی ملکیتی اخبار گلوبل ٹائمز نے پیپلز لبریشن آرمی (پی ایل اے) کی " کچھ دور پانیوں میں قدم جمانے" کی بڑھتی ہوئی ضرورت کی تصدیق کی کیونکہ چین کے بیرونِ ملک مفادات میں اضافہ ہو رہا ہے۔

سنہ 2019 کی ایک رپورٹ میں،امریکہ-چین اقتصادی و دفاعی جائزہ کمیشن نے نوٹ کیا کہ بیجنگ کا (بی آر آئی) کو فروغ دینے کا مقصد "فوجی تعاون کو بڑھانا اور اس کی سنسر شپ اور نگرانی کی ٹیکنالوجیز کو برآمد کرنا" ہے۔

اس نے مزید کہا، "چین کا بی آر آئی پیپلز لبریشن آرمی کی بیرون ملک موجودگی کے پیچھے سب سے واضح تنظیمی تصور کے طور پر ابھرا ہے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

چین اور روس دنیا کا کینسر ہیں۔ ہم عالمی برادری سے روس اور چین کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے، خاص طور پر چین کے توسیع پسندی کے مطالبے کے خلاف کا مطالبہ کرتے ہیں۔

جواب