سیاست

سی پیک اور پاکستان میں عسکریت پسندی کا عروج

از زرق خان

سی پیک کی مالی اعانت سے چلنے والا سوکی کناری ہائیڈرو پاور پراجیکٹ، جس کی یہاں مئی 2013 کی تصویر دیکھی جا سکتی ہے، اب بھی زیرِ تعمیر ہے۔ [اسلام آباد میں چینی سفارتخانہ کا ٹویٹر اکاؤنٹ]

سی پیک کی مالی اعانت سے چلنے والا سوکی کناری ہائیڈرو پاور پراجیکٹ، جس کی یہاں مئی 2013 کی تصویر دیکھی جا سکتی ہے، اب بھی زیرِ تعمیر ہے۔ [اسلام آباد میں چینی سفارتخانہ کا ٹویٹر اکاؤنٹ]

اسلام آباد -- تجزیہ کاروں اور حکام کا کہنا ہے کہ چین - پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے ذریعے، اسلام آباد اور بیجنگ کے درمیان اقتصادی تعاون کی ایک دہائی نے، پاکستان کے اندر سیکیورٹی کی حرکیات پر نمایاں اثر ڈالا ہے۔

اس میں، پاکستان میں اسلام پسند شورش کو ہوا دینے میں ممکنہ کردار بھی شامل ہے۔

سی پیک جو کہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (بی آر آئی) کا ایک پاکستانی جزو ہے، کے 10 سالوں کے دوران، بہت سے قومی اور بین الاقوامی عسکریت پسند گروہوں نے چینی اور پاکستانی حکومتوں پر اپنے حملے تیز کر دیے ہیں۔

ان گروہوں میں تحریک طالبان پاکستان اور "دولتِ اسلامیہ" کی خراسان شاخ (داعش- کے) شامل ہیں۔

نامعلوم تاریخ کی اس فائل فوٹو میں، کراچی میں پولیس اہلکار اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ [زرق خان/پاکستان فارورڈ]

نامعلوم تاریخ کی اس فائل فوٹو میں، کراچی میں پولیس اہلکار اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ [زرق خان/پاکستان فارورڈ]

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے، انسداد دہشت گردی کے ایک اہلکار نے کہا کہ سنکیانگ میں مسلمانوں کے ساتھ بیجنگ کے ناروا سلوک اور پاکستان میں چینی اثر و رسوخ میں اضافے نے، چین مخالف جذبات کو ہوا دی ہے جس کا عسکریت پسند گروپ استحصال کر رہے ہیں۔

اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ "پاکستانی حکومت کے لیے، جسے پہلے ہی دہشت گردی کے مسائل کا سامنا ہے، سی پیک کے 10 سالوں کے دوران، چینی شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنانا ایک اہم چیلنج تھا۔"

اہلکار نے کہا کہ "پاکستانی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے ایسے چینی شہریوں کی حفاظت کرنا مشکل ہے جو سی پیک سے منسلک منصوبوں پر دور دراز علاقوں میں کام کر رہے ہیں۔"

جہاں دونوں حکومتیں، بیجنگ کے بی آر آئی میں سے، سی پیک کو ایک شاہی جواہر کے طور پر سراہتی ہیں، وہیں بہت سے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ چین کے پاکستان کے لیے خوشحالی اور منافع بخش ترقی کے وعدے جھوٹ کا پلندہ نکلے ہیں۔

چینی شہریوں پر جان لیوا حملے

بیجنگ نے جولائی 2021 میں صوبہ خیبر پختونخوا کے علاقے داسو کے قریب چینی انجینئروں کو لے جانے والی ایک بس پر ہونے والے مہلک خودکش حملے کا ذمہ دار، ٹی ٹی پی کوٹھہرایا تھا، جس میں نو انجینئرز ہلاک ہوئے تھے۔

قبل ازیں، ٹی ٹی پی نے اپریل 2021 میں کوئٹہ کے ایک ایسے پرتعیش ہوٹل میں بم دھماکہ کرنے کی ذمہ داری قبول کی تھی جو چینی سفیر کی میزبانی کر رہا تھا۔ بم دھماکہ کے وقت چینی وفد وہاں موجود نہیں تھا۔

گزشتہ سال دسمبر میں، داعش- کے، جو کہ پاکستان اور افغانستان کے لیے داعش کی ایک شاخ ہے، نے افغانستان کے دارالحکومت کابل کے مرکز میں واقع ایسے ہوٹلوں میں بم دھماکے اور فائرنگ کرنے کی ذمہ داری قبول کی تھی جہاں چینی سفارت کاروں اور تاجروں کا کثرت سے آنا جانا تھا۔

جون 2017 میں، داعش- کے نے دو چینی اتالیقوں کو کوئٹہ سے اغوا کرنے کے بعد قتل کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔

پشاور سے تعلق رکھنے والے مذہبی عالم علامہ یونس خلیل کے مطابق، القاعدہ سے منسلک گروپ جیسے کہ ٹی ٹی پی اور داعش- کے جانتے ہیں کہ بیجنگ کی جانب سے ایغور مسلمانوں کے ساتھ کی جانے والی بدسلوکی کی وجہ سے پاکستانی مسلمانوں میں چین مخالف جذبات بہت زیادہ ہیں۔

خلیل نے کہا کہ "یہی وجہ ہے کہ جہادی حلقوں میں چین مخالف بیان بازی میں کافی اضافہ ہوا ہے۔"

انہوں نے کہا کہ "بلوچ اور سندھی علیحدگی پسند گروہوں کی طرح، اسلام پسند عسکریت پسند گروہ سی پیک پر تنقید کر رہے ہیں اور اس کا موازنہ 1850 کی دہائی کی نوآبادیاتی برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی سے کر رہے ہیں اور پاکستان میں چینی مفادات پر حملہ کر رہے ہیں۔"

چین مخالف جذبات بڑھ رہے ہیں

سیکورٹی تجزیہ کاروں نے خبردار کیا کہ ٹی ٹی پی اور داعش - کے جیسے گروہ، بیجنگ کی طرف سے ایغوروں اور مسلمان گروہوں کے ساتھ کیے جانے والے جبر کے ساتھ ساتھ، چینی اداروں کی طرف سے کی جانے والی اسلام کی توہین سے پیدا ہونے والے چین مخالف جذبات کا فائدہ بھی اٹھا رہے ہیں۔

حالیہ برسوں میں، چینی حکومت مشرقی ترکستان اسلامی تحریک (ای ٹی آئی ایم) سے منسلک شورش کو روکنے کے بہانے، سنکیانگ کے مغربی علاقے میں ایغوروں اور دیگر مسلم اقلیتوں کے خلاف پکڑ دھکڑ کر رہی ہے۔

بیجنگ نے باقاعدگی سے، ای ٹی آئی ایم کو "دہشت گرد حملوں" کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے کیونکہ وہ سنکیانگ میں اپنے اقدامات کا جواز پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے، جہاں انسانی حقوق کے گروہوں کا کہنا ہے کہ دس لاکھ سے زیادہ مسلمان تلقینی کیمپوں میں قید ہیں۔

لیکن اسکالرز کا کہنا ہے کہ چینی حکومت نے اس بات کے بہت کم ثبوت پیش کیے ہیں کہ ای ٹی آئی ایم ایک منظم گروہ ہے یا یہ سنکیانگ میں حملوں کا ذمہ دار ہے، جسے علیحدگی پسند مشرقی ترکستان کہتے ہیں۔

یوروپین آئی آن ریڈیکلائزیشن کی اپریل کی ایک رپورٹ میں مشاہدہ کیا گیا ہے کہ داعش- کے نے بیجنگ کی جانب سے ایغور مسلمانوں کے ساتھ بدسلوکی اور مظالم کو اجاگر کرنے کے لیے اپنے چین پر مبنی پروپیگنڈے کو بڑھایا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ داعش-کے نے چین پر، سنکیانگ میں رہنے والے اویغوروں کی منظم نسل کشی اور قتل عام کرنے اور پورے صوبے کو ایک اجتماعی جیل میں تبدیل کرنے کا الزام لگایا ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500