معیشت

گوادر میں حقیقت نے سی پی ای سی کے تحت نفع بخش پیش رفت کے خواب چکنا چور کر دیے

زرق خان

4 اکتوبر 2017 کو گوادر بندرگاہ پر کنٹینر لے جانے والے ایک بحری جہاز کے قریب پاک بحریہ کے اہلکار محافظ کھڑے ہیں۔ [ایمیلی ہیرنسٹین / اے ایف پی]

4 اکتوبر 2017 کو گوادر بندرگاہ پر کنٹینر لے جانے والے ایک بحری جہاز کے قریب پاک بحریہ کے اہلکار محافظ کھڑے ہیں۔ [ایمیلی ہیرنسٹین / اے ایف پی]

اسلام آباد – گزشتہ ہفتے پاکستان اور چین کی حکومتوں نے بنیادی ڈھانچے اور ترقی کے ایک 54 بلین ڈالر مالیت کے منصوبے، چین پاکستان معاشی راہداری (سی پی ای سی) کے ذریعے معاشی اشتراک کے 10 برس کی تکمیل منائی ۔

تاہم جبکہ دونوں حکومتیں سی پی ای سی کوبیجنگ کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹیو (بی آر آئی) کے تاج کے ہیرے کے طور پر پیش کر رہی ہیں، بلوچستان کے ساحلی شہر، گوادر کے باشندوں کا کہنا ہے کہ چین کی جانب سے پاکستان کے لیے آسودگی اور منفعت بخش پیشرفت کے وعدے جھوٹ کا ایک پلندہ ثابت ہوئے۔

پاکستانی وزارتِ منصوبہ بندی، ترقی و خصوصی اقدامات کے مطابق، وزیر احسن اقبال نے گزشتہ ماہ اسلام آباد میں گوادر میں منصوبوں کی پیشرفت کا جائزہ لینے کے لیے ایک اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا کہ ”تین ماہ کی ریکارڈ مدت میں گوادر میں 18 میگا اپ لفٹ منصوبے مکمل ہوئے۔“

انہوں نے 14 جون کو کہا کہ مکمل ہو جانے پر ”گوادر میں سی پی ای سی کے تحت تمام بڑے منصوبے ۔۔۔ خطے میں ایک چمکتا موتی ہوں گے۔“

"گوادر کو اس کا حق دو" مہم کے جزُ کے طور پر گوادر کے ہزاروں باشندوں نے 20 نومبر کو چین کے زیرِ انتظام بندرگاہ کو جانے والی ایکسپریس واے کو مسدود کرتے ہوئے ایک احتجاج کیا۔ [زرق خان/پاکستان فارورڈ]

"گوادر کو اس کا حق دو" مہم کے جزُ کے طور پر گوادر کے ہزاروں باشندوں نے 20 نومبر کو چین کے زیرِ انتظام بندرگاہ کو جانے والی ایکسپریس واے کو مسدود کرتے ہوئے ایک احتجاج کیا۔ [زرق خان/پاکستان فارورڈ]

پاکستانی حکام کے مطابق، کئی برسوں کے دوران، سی پی ای سی سرمایہ کاری نے نقل و حمل کے راستوں میں بہتری اور بجلی کے قومی کے گرِڈ میں اضافہ کرنے کے سلسلہ میں اسلام آباد کی مدد کی ہے۔

بیجنگ کے لیے خصوصی اہمیت کے حامل اس منصوبے نے چین کے مغربِ بعید کے خطے ژنجیانگ کو بحیرۂ عرب میں تضویری محلِ وقوع کی حامل پاکستانی گہرے پانی کی بندرگاہ گوادر سے مربوط کرنے والے تجارتی راستے تعمیر کیے ہیں۔

تاہم، شراکت کی ایک دہائی کے باوجود، باشندوں اور فعالیت پسندوں کا کہنا ہے کہ گوادر میں پانی، بجلی، اور معیاری نگہداشت صحت اور تعلیم جیسے بنیادی شہری مسائل حل نہیں ہو سکے۔

'خستہ حال' مقامی

اس کے بجائے یہ شہر ایک سیکیورٹی زون میں تبدیل ہو چکا ہے جہاں بلوچستان میں بڑھتے ہوئے چینی رسوخ سے غضب ناک بلوچ عسکریت پسند گروہوں کے حملوں سے بندرگاہ پر کام کرنے والے چینی شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے باشندوں کی نقل و حرکت مسدود کر دی گئی ہے ۔

ایک گوادر اساسی سیاسی فعالیت پسند حمید حوت نے کہا، ”لوگوں کو پاکستانی اور چینی حکومتی عہدیداران کے دروغ پر کان دھرنے کے بجائے گوادر آ کر خود حقیقت کو دیکھنا چاہیئے۔“

انہوں نے کہا، ”سی پی ای سی نے گوادر کے باشندوں کو منفعت نہیں پہنچائی۔ اس کے بجائے اس منصوبے نے مقامی افراد کی زندگیوں کو خستہ حال بنا دیا ہے۔“

مقامی افراد کے مطابق، بیجنگ کی ایما پر پاکستانی حکام نے دسمبر میں گوادر میں ایک احتجاجی تحریک پر کریک ڈاؤن کیا جو گوادر کے باشندوں کےذرائع معاش اور روز مرہ زندگیوں پر چینی رسوخ سے متعلق ان کے خدشات کا اظہار کر رہی تھی۔

وسط نومبر میں ایک احتجاج کے دوران، باشندوں نے چین کے زیرِ انتظام بندرگاہ کو جانے والی ایکسپریس وے کو مسدود کر دیا ۔

”گوادر کو اس کا حق دو“ کے پرچم تلے، جماعتِ اسلامی پاکستان کے مقامی رہنما مولانا ہدایت الر٘حمٰن کی جانب سے شروع کی جانے والی مہم میں احتجاج کنندگان نے مقامی اور چینی دام کشتیوں کی جانب سے گہرے سمندر میں غیر قانونی ماہی گیری اور سی پی ای سی کے منصوبوں کے جزُ کو جانے والے سیکیورٹی ناکوں پر مقامی افراد کی حراسانگی کے خاتمہ کا مطالبہ کیا۔

حوت نے کہا، ”رحمٰن کی قیادت میں اس تحریک کا مقصد صرف گوادر بندرگاہ کو جانے والے سیکیورٹی ناکوں پر مقامی افراد کی حراسانگی، اور مقامی اور چینی دام کشتیوں کی جانب سے گہرے پانی کی غیر قانونی ماہی گیری کا خاتمہ اور پانی اور بجلی جیسے بنیادی شہری مسائل سے نمٹنا تھا۔“

چینی شہریوں اور منصوبوں پر بلوچ عسکریت پسند گروہوں کی جانب سے حملوں میں اضافہ کی ایک لہر کے بعد، پاکستانی حکام نے بندرگاہ پر کام کرنے والے چینی شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے درجنوں سیکیورٹی ناکے تشکیل دیے۔

اکتوبر میں گوادر سے تعلق رکھنے والے ایک پاکستانی رکنِ پارلیمان اسلم بھوٹانی نے قومی اسمبلی کو شہر میں متعدد منصوبوں پر کام کرنے والی چینی کمپنیوں کی جانب سے مقامی باشندوں کے استحصال سے متعلق آگاہ کیا۔

انہوں نے ان کمپنیوں پر مقامی افراد کو ملازمتوں سے منع کرنے اور ساحلی علاقوں میں ماحول اور آبی حیات کو تباہ کرنے کا الزام لگایا، اور ٹیکس ادا نہ کرنے پر انہیں دھوکہ باز کہا۔

گوادر کے لیے بیجنگ کا منصوبہ

آزاد تجزیہ کاروں کے مطابق، سیکیورٹی خدشات اور مالی اندیشوں کے باوجود، گوادر میں چین کی مستحکم سرمایہ کاری سے معلوم ہوتا ہے کہ بیجنگ کے اس بندرگاہ کے لیے دیگر منصوبے ہیں۔

امریکی ادارۂ امن (یو ایس آئی پی) نے مارچ کی رپورٹ میں کہا، ”پاکستان کے مغربی ساحل سے چین کی جانب سے بحیرۂ عرب پر عسکری قوت کے اظہار کے امکانات بڑھ رہے ہیں“۔

اس میں کہا گیا، ”پاکستان ان 13 ممالک میں سے ایک ہے جن کا نام چین کی عسکری قوت پر پینٹاگان کی حالیہ ترین رپوٹ میں بحری، فضائی، زمینی، سائیبر اور خلائی قوت کے اظہار کی حمایت میں اضافی چینی عسکری تنصیبات اور لاجسٹک یونٹس کی تعیناتی کے لیے ممکنہ مقامات کے طور پر آیا ہے۔“

اس رپورٹ میں ”گوادر میں تجارتی سرگرمی کی واضح غیر موجودگی“ کا حوالہ دیا گیا – جس نے ماہر مشاہدین کے خدشات میں اضافہ کر دیا ہے۔

انقرہ مرکز برائے علومِ بحران و حکمتِ عملی (اے سی سی پی ایس) کی جانب سے مارچ 2022 کی ایک رپورٹ میں یہ رائے دی گئی کہ ”چین کے لیے گوادر میں ایک بندرگاہ تعمیر کرنے کا بڑا محر٘ک تجارتی نہیں ہے۔“

اس کے بجائے یہ ”چین کی داخلی اور بین الاقوامی سیکیورٹی پالیسی“ کے لیے ضروری سمجھا جاتا ہے۔

2022 کے تخمینہ جات کے مطابق، پاکستان تقریباً 30 بلین ڈالر سے چین کا مقروض ہے، جو اس کے قریب 30 فیصد بیرونی قرضہ جات کے برابر ہے۔

بیجنگ کو واجب الادا اسلام آباد کے قرضہ جات مسلسل بڑھ رہے ہیں، لیکن چین نے ادائگیوں اور سی پی ای سی کی بازادائگیوں کو مؤخر یا ان کی ترتیبِ نو کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500