اسلام آباد – معروف بین الاقوامی تھنک ٹینکس کی، چین کی جانب سے پاکستان کی گوادر بندرگاہ کے ممکنہ عسکری استعمال سے متنبہ کرنے والی حالیہ رپورٹس نے اس خطے میں اپنی بحری موجودگی پھیلانے کے چینی فوج کے ارادوں سے متعلق بحث کو دوبارہ چھیڑ دیا ہے۔
متوقع ہے کہ صوبہ بلوچستان کا ایک ساحلی قصبہ، گوادر پاکستان کو تجارتی اور ترقیاتی منصوبوں کے لیے کھول دینے والے، چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹیو (بی آر آئی) ، جو ون بیلٹ ون روڈ (او بی او آر) کے طور پر بھی معروف ہے، کا ایک کلیدی حصہ بنے گا۔
تاہم متعدد پاکستانی بی آر آئی کے ایک پاکستانی جزُ، چین پاکستان معاشی راہداری (سی پی ای سی) کو اپنے ملک کے لیے ضرررساں اور چین کے لیے منفعت بخش سمجھتے ہیں۔
امریکی ادارۂ امن (یو ایس آئی پی) اور انقرہ مرکز برائے علومِ بحران و حکمتِ عملی (اے سی سی پی ایس) کی رپورٹس بتاتی ہیں کہ چین گوادر بندرگاہ کو بحرِ ہند میں عسکری قوت دکھانے کے لیے استعمال کرتے گا۔
یو ایس آئی پی نے مارچ کی ایک رپورٹ میں کہا، "چین کی جانب سے پاکستان کے مغربی ساحل سے بحرِ ہند پر عسکری قوت دکھانے کے امکانات بڑھ رہے ہیں۔"
رپورٹ میں کہا گیا، "بحری، فضائی، زمینی، سائیبر اور خلائی قوتوں کے منصوبہ کی معاونت میں تعینات کیے جانے والے اضافی چینی لاجسٹیکل یونٹس اور عسکری تنصیبات کے لیے ممکنہ مقامات کے طور پر پاکستان ان 13 ممالک میں سے ایک ہے جنہیں چین کی عسکری قوت پر پینٹاگان کی تازہ ترین رپورٹ میں نامزد کیا گیا ہے۔"
مزید کہا گیا، "مہمان ملک کی طور سے کڑی نگرانی میں بظاہر محدود ہنگامی رسائی جلد ہی چھاؤنی میں بدل سکتی ہے۔"
چینی فوج کے لیے بنیادیں
یو ایس آئی پی کے مطابق، گوادر کی گہرے سمندر کی بندرگاہ متعدد وجوہات کی بنا پر چین کے لیے کارآمد ہے۔
اس میں کہا گیا کہ اس کے پشتے پیپلز لبریشن آرمی (پی ایل اے) کی بڑی سے بڑی بحری کشتیوں کے موافق ہیں اور سے متوازی ایک لے ڈاؤن ایریا ہے جہاں عسکری آلات جوڑے جا سکتے ہیں اور سامان اور مواد نصب کیا جا سکتا ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا، "جیسا کہ پاک بحریہ چین سے زمینی اور ساحلی لڑائی کے سامان کے علاوہ نئی آبدوزیں شامل کر رہی ہے ، ممکن ہے کہ اس کی تنصیبات، پرزہ جات اور ٹیکنیشنز کو پی ایل اے بحری بیڑے کے حصوں کی معاونت کے لیے بھی استعمال کیا جائے۔"
اس میں کہا گیا "گوادر کا نیا ہوائی اڈا اور رن وے، جو 2023 میں مکمل ہوں گے، وہ بھی چین کے تضویری ایئرلفٹ بیڑے کے موافق ہوں گے۔"
رپورٹ میں "گوادر میں تجارتی سرگرمی کی نمایاں عدم موجودگی کا حوالہ دیا گیا – جس نے ماہر مشاہدین میں شبہات پیدا کر دیے ہیں"۔
اس میں کہا گیا کہ اس سے توجہ حاصل کیے بغیر "بحری سرگرمی بڑھانا" آسان ہو جاتا ہے، مزید کہا گیا کہ "اوپن سورس سیٹلائیٹ تصاویر کے تجزیات سے گوادر میں چینی احاطوں کی موجودگی کا پتا چلا ہے جہاں غیر معمولی طور پر سخت سیکیورٹی ہے۔"
مارچ 2022 کی اے سی سی پی ایس رپورٹ سے بھی پتا چلتا ہے کہ "گوادر میں ایک بندرگاہ کی تعمیر کے لیے چین کا کلیدی محرک تجارتی نہیں"۔ اس کے بجائے، محسوس یہ ہوتا ہے کہ یہ "چین کی داخلی و خارجی سلامتی پالیسی کے لیے ناگزیر ہے۔"
یہ بندرگاہ چین کے ژنجیانگ خطے سے تقریباً 3,000 کلومیٹر دور ہے اور چین کے مشرقی ساحل سے 3,500 کلومیٹر ہے۔ یہ بحرِ ہند، آبنائے ہرمز اور خلیج عرب کے متوازی ہے۔
اے سی سی پی ایس رپورٹ کے مطابق، "گوادر ان عسکری چوکیوں میں سب سے آگے ہو گا جنہیں تعمیر کرنے کا چین نے منصوبہ بنا رکھا ہے۔"
اس میں مزید کہا گیا، "اگر بنیادی ڈھانچے کی متعلقہ اصلاحات مکمل ہو جاتی ہیں، تو گوادر پی ایل اے کے آلات اور افراد کی کمک اور منتقلی کے لیے ایک موزوں منزل ہو گی۔"
رپورٹ میں کہا گیا، یہ چین کے تجارتی مفادات کے لیے عسکری سلامتی فراہم کرنے میں بھی ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔
بڑھتے ہوئے سلامتی خدشات
پاکستان، بطورِ خاص بلوچستان، میں چین کا تیزی سے بڑھتا ہوا رسوخ – جس کے ساتھ چینی کمپنیاں مقامی افراد پر اثر کی پرواہ کیے بغیر مقامی وسائل کا استحصال کر رہی ہیں – صوبے میں شدید بدامنی کا باعث بنا ہے۔
جنوری میں ایک اور تحقیق میں اے سی سی پی ایس نے گوادر میں چینی تعمیرات کی وجہ سے درپیش سیکیورٹی خدشات کا حوالہ دیا۔
اس میں کہا گیا، "بطورِ خاص گوادر اور چین کے درمیانی خطہ میں متعدد نسلی علیحدگی پسند اور بنیادپرست مذہبی دہشتگرد تنظیموں کی موجودگی غیر ملکی سرمایہ کاروں، سرمایہ کاریوں اور بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کو بڑے پیمانے پر خطرے میں مبتلا کرتی ہے۔"
"متعدد مواقع پر خطے میں احتجاج ہوتے رہے ہیں۔ لوگوں کی سب سے اہم تنقید یہ ہے کہ وہ وہاں ہونے والی سرمایہ کاری اور تشکیل پانے والی ملازمتوں سے براہِ راست استفادہ نہیں کر سکتے۔"
مقامی افراد کے مطابق، دسمبر میں پاکستانی حکام نے بیجنگ کے ایما پر گوادر میں ایک احتجاجی تحریک پر شدید کریک ڈاؤن کیا۔
احتجاج کنندگان مقامی اور چینی دام کشتیوں کی جانب سے گہرے پانی کی ماہی گیری اور گوادر بندرگاہ کو جانے والے راستوں پر سیکیورٹی ناکوں پر مقامی افراد کو حراساں کیے جانے کے خاتمہ کے متمنی تھے۔
اس تحریک کے رہنما، مولانا ہدایت الر٘حمٰن نے 2022 میں لاہور میں ایک سمینار میں بتایا کہ گوادر کے باشندوں کو اساتذہ اور سکول فراہم کرنے کے بجائے، سی پی سی سی چینی شہریوں اور ان کے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے عسکری ناکوں اور عسکری عملہ کی موجودگی کا باعث بنا ہے۔
بلوچستان میں بڑھتے ہوئے چینی رسوخ پر غم و غصہ نے ملک میں چینی مفادات کو نشانہ بنانے کے لیے بلوچ اور سندھی عسکریت پسند تنظیموں کو ایک دوسرے سے اتحاد کرنے پر اکسایا ہے۔
چینی مفادات کے خلاف تشدد
تشدد میں حالیہ اضافہ میں منگل (11 اپریل) کو علاقے کے صدرمقام، کوئٹہ میں ایک بم دھماکے میں چار افراد کے جاںبحق ہونے کے چند گھنٹے بعد، صوبہ بلوچستان میں عسکریت پسندوں کے ساتھ گولیوں کے تبادلہ میں چار پولیس اہلکار شہید ہو گئے۔
اے ایف پی نے خبر دی کہ پولیس کی طرف سے تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے تعلق رکھنے والوں کے طور پر شناخت ہونے والے عسکریت پسندوں نے کچلک میں قبل از سحر کے گشت پر گولی چلا دی۔
پیر کو کوئٹہ کے ایک مصروف بازار میں ایک موٹرسائیکل بم سے دو پولیس اہلکار اور دو شہری جاںبحق ہو گئے۔
بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کی، جو کہ چینی مفادات سمیت صوبے میں متعدد حملوں کی ذمہ دار ہے۔
پولیس کے مطابق، ستمبر میں بندوق برداروں نے کراچی میں ایک حملے کے دوران چین سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کو ہلاک اور دو دیگر کو زخمی کر دیا۔
اپریل 2022 میں بی ایل اے نے کراچی میں ریاست کے زیرِ انتظام ایک جامعہ میں ایک خود کش حملے میں تین چینی اساتذہ سمیت چار افراد کو قتل کرنے کی ذمہ داری قبول کی۔