سلامتی

ناکارہ چینی عسکری سامان پاکستان کے لیے دردِ سری کا باعث بن رہا ہے

از زرق خان

پی این ایس تیمور، چین کی طرف سے پاکستان کے لیے بنائے گئے چار قسم کے 054 اے/پی جنگی جہازوں میں سے دوسرا، 23 جون کو شنگھائی کے ہڈونگ -ژونگھوا شپ یارڈ میں تفویض کیا گیا ہے۔ [پاکستانی بحریہ]

پی این ایس تیمور، چین کی طرف سے پاکستان کے لیے بنائے گئے چار قسم کے 054 اے/پی جنگی جہازوں میں سے دوسرا، 23 جون کو شنگھائی کے ہڈونگ -ژونگھوا شپ یارڈ میں تفویض کیا گیا ہے۔ [پاکستانی بحریہ]

اسلام آباد -- بیجنگ نے گزشتہ ہفتے پاک بحریہ کے لیے بنائے گئے چار متعدد کردار کے جنگی جہازوں میں سے دوسرے کو تفویض کیا، لیکن محققین نے فوری طور پر، چینی ساختہ پرانے جنگی جہازوں میں موجود بڑی بڑی خامیوں کی نشاندہی کی ہے۔

پی این ایس تیمور، جو ایک قسم کا 054 اے/پی جنگی جہاز ہے، 23 جون کو شنگھائی کے ہڈونگ-ژونگھوا شپ یارڈ میں تفویض کیا گیا۔

چین کے سرکاری خبر رساں ادارے گلوبل ٹائمز کے مطابق، پہلی قسم کا 054 اے/پی جنگی جہاز، پی این ایس طغرل جنوری میں پاک بحریہ کے بیڑے میں شامل ہوا تھا۔

باقی کے دو، اس وقت چین میں زیرِ تعمیر ہیں۔

ان جنگی جہازوں کو سطح سے سطح اور سطح سے ہوا میں مار کرنے والے میزائلوں کو طویل فاصلے پر فائر کرنے اور کثیر خطرے والے ماحول میں کام کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔

پی این ایس طغرل کی حوالگی کے دوران صدر عارف الرحمان علوی نے کہا کہ 054 اے/پی کی طرح کے جنگی جہاز پاکستان کے بحری علاقوں کے حفاظتی ڈھانچے کو تقویت دیں گے۔

انہوں نے کہا کہ بحری جہاز چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے سمندری راستوں کی حفاظت میں بھی مدد کریں گے، جو چین کے متنازعہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (بی آر آئی) کا ایک پاکستانی جزو ہے، جسے ون بیلٹ ون روڈ (او بی او آر) بھی کہا جاتا ہے۔

چیف آف نیول اسٹاف محمد امجد خان نیازی نے اس وقت کہا تھا کہ سی پیک کے آغاز اور اس سے منسلک بحری بنیادی ڈھانچے اور گوادر بندرگاہ کی ترقی کے بعد سے، پاک بحریہ کی ذمہ داریوں میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔

ناقص چینی فوجی سازوسامان

تاہم، دفاعی تھنک ٹینکس کے مطابق، پاکستان کو پہلے ہی 2009 میں چینی جہاز ساز اداروں کے تیار کردہ کم از کم چار جنگی جہازوں کے ساتھ سنگین میکانکی مسائل کا سامنا ہے۔

پاکستان کے چار چینی ساختہ ایف- 22 پی جنگی جہاز، "پاکستانی بحریہ کے ان افسران اور جوانوں کے لیے ڈراؤنے خواب کی طرح رہے ہیں جنہیں، ان کو بحیرہ عرب اور بحر ہند کے متلاطم پانیوں میں تیرتے رہنے کے قابل بنانے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے"۔ یہ بات ایک اطالوی تھنک ٹینک جیو پولیٹیکا ڈاٹ انفو کی 14 جون کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتائی گئی۔

جیو پولیٹیکا ڈاٹ انفو نے اسی رپورٹ میں کہا کہ تین جنگی جہاز بیجنگ میں قائم چائنا شپ بلڈنگ ٹریڈنگ کمپنی سے خریدے گئے تھے، جبکہ ایک کراچی میں ٹیکنالوجی کی منتقلی کے معاہدے کے تحت بنایا گیا تھا۔

یہ جنگی جہاز 2009 اور 2013 کے درمیان چین کے ساتھ 2005 میں طے پانے والے 750 ملین ڈالر کے معاہدے کے تحت پاکستان کو فراہم کیے گئے تھے۔

جیوپولیٹیکا ڈاٹ انفو نے خبر دی ہے کہ "جنگی جہازوں کی تفویض کے بعد، پاکستانی بحریہ کو پتہ چلا کہ ایف ایم 90 (این) میزائل سسٹم کا آن بورڈ امیجنگ ڈیوائس، ڈسپلے پر غلط اشارے کی وجہ سے خراب تھا۔

نظام کسی حدف کو تلاش کرنے میں ناکام تھا۔

تھنک ٹینک نے بتایا کہ اس کے علاوہ، بحری جہازوں کے سرچ اینڈ ٹریک ریڈار حسب منشا کام نہیں کر رہے تھے اور جنگی جہاز پر سنگل بیرل ایم ایم 76 گن نے خراب کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا۔

جہازوں کے ڈیزل سے چلنے والے انجن، ٹربو چارجر ایگزاسٹ کے شدید درجہ حرارت کی وجہ سے زیادہ رفتار سے نہیں چل پاتے تھے۔

جیوپولیٹیکا ڈاٹ انفو نے نتیجہ اخذ کرتے ہوئے کہا کہ "ناقص اہم اجزاء اور چینی تیارکنندگان کی ناقص سروس نے پاکستانی بحریہ کو، ان چار جنگی جہازوں کو، جن کی عملیاتی صلاحیتں ناقص تھیں چلانے پر مجبور کیا جن سے مہمات کے کچھ ایسے اہم مقاصد پر سمجھوتا کرنا پڑا جن کے لیے ان جہازوں کو اتنی مہنگی قیمت پر خریدا گیا تھا"۔

کمتر ہتھیار

پاکستان کو طویل عرصے سے چینی ساختہ فوجی ساز و سامان کے ساتھ مسائل کا سامنا رہا ہے۔

اکنامک ٹائمز آف انڈیا نے اس وقت نامعلوم ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے خبر دی تھی کہ فروری میں، پاکستانی فوج کو وی ٹی 4، ایک اہم جنگی ٹینک جو چائنا نارتھ انڈسٹریز کارپوریشن (نورینکو) نے بیرون ملک برآمد کے لیے بنایا تھا، کے ساتھ معیار اور سقاحت کے مسائل کا پتہ چلا۔

پاکستان کو چین سے درآمد کی گئی 203 ایم ایم کے بھاری توپ خانے سے بھی مشکلات کا سامنا ہے۔

دفاعی تجزیہ کاروں نے خاص طور پر چینی ساختہ جنگی جہازوں کی خرابی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

اسلام آباد میں مقیم ایک سینئر دفاعی تجزیہ کار، جنہوں نے اسلام آباد اور بیجنگ کے درمیان تعلقات کی حساسیت کی وجہ سے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی ہے، نے کہا کہ "پاکستان نے چین سے جنگی جہاز خریدے تاکہ سمندری سرحدوں کے دفاع میں اپنی بحریہ کی صلاحیتوں کو مضبوط کیا جا سکے۔"

تجزیہ کار نے کہا کہ "یہ ملک کی سلامتی کا مسئلہ ہے اور میں تجویز کرتا ہوں کہ پاکستان کو ملک کے دفاع کو بہتر بنانے کے لیے چین کے بجائے امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو بحال کرنا چاہیے۔"

الیگزینڈر ووونگ، جو ہونولولو، ہوائی میںڈینیئل کے انیوئے ایشیا پیسیفک سینٹر فار سیکیورٹی اسٹڈیز کے پروفیسر ہیں نے جون میں یورو ایشین ٹائمز کو بتایا کہ "چین کے تیار کردہ ہتھیار صرف تکنیکی طور پر ہی کمتر نہیں ہیں بلکہ امریکہ اور اس کے بہت سے اتحادیوں کے ہتھیاروں کے برعکس ان کا ابھی تک میدانِ جنگ میں استعمال کرنے کا تجربہ بھی نہیں ہوا ہے

انہوں نے کہا کہ چینی فوجی سازوسامان کے بہت سے خریداروں کے لیے، اہم عوامل "قیمت اور سیاست ہیں، جس میں بدعنوانی نمایاں کردار ادا کر رہی ہے"۔

"مثال کے طور پر، چین کم قیمت پر ہتھیاروں کی پیشکش کر سکتا ہے، جس میں خریداری کے ذمہ دار اہلکاروں اور درمیان کے افراد کو بھاری رعایت یا رشوت دی جاتی ہے۔"

غیر مطمئن صارفین

پاکستان ایسا پہلا ملک نہیں ہے جس پر چین کے ناقص فوجی ساز و سامان اور جنگی جہازوں کا بوجھ پڑا ہو۔

مثال کے طور پر، گلوبل ڈیفنس کارپوریشن کی ویب سائٹ نے مارچ 2021 میں خبر دی تھی کہ الجزائر میں چند مہینوں میں تین چینی ساختہ سی ایچ- 4 بی جنگی ڈرون گر کر تباہ ہو چکے ہیں۔

نیدرلینڈ کی اوریکس ملٹری نیوز سائٹ نے جنوری میں خبر دی تھی کہ اردن کی شاہی فضائیہ نے 2019 میں اپنے سی ایچ- 4 بی کو، انہیں خریدنے کے صرف تین سال بعد، فروخت کر دیا تھا۔ سعودی عرب ممکنہ خریدار تھا، مگر ان کی آخری منزل کی اطلاع نہیں دی گئی ہے۔

سی ایچ -4 بی کو چائنا ایرو اسپیس سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کارپوریشن نے تیار کیا ہے۔

انڈیا کی Timesnownews.com نیوز سائٹ نے گزشتہ نومبر میں خبر دی تھی کہ بنگلہ دیشی فضائیہ کو پتہ چلا کہ 23 نانچانگ پی ٹی-6 بنیادی تربیتی طیارہ جو اس نے چائنا نیشنل ایرو-ٹیکنالوجی امپورٹ اینڈ ایکسپورٹ کارپوریشن سے حاصل کیا تھا وہ خراب تھا۔

دریں اثنا، 2016 میں، کینیا نے ڈیوٹی کے دوران فوجیوں کی حفاظت کے لیے چین سے آرمرڈ پرسنل کیریئرز (اے پی سیز) خریدے۔

نیروبی کی ایک خبروں کی ویب سائٹ ٹوکو نے اگست 2018 میں خبر دی تھی کہ کینیا کی حکومت کا یہ اعتماد کہ گاڑیاں دھماکوں کا مقابلہ کر سکتی ہیں اور جانیں بچا سکتی ہیں، کھوکھلا ثابت ہوا ہے۔

ٹوکو نے رپورٹ کیا کہ دہشت گرد گروہ، الشباب کی طرف سے سڑک کے کنارے نصب کیے گئے بم، بار بار چینی اے پی سی میں سوار کینیا کے فوجیوں کو ہلاک کر چکے ہیں۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 11

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

کم از کم کوئی قابل اعتماد ذریعہ دیں تاکہ جھوٹ تھوڑا سا قابل اعتبار ہو۔ تمام چین مخالف ذرائع؟؟

جواب

کسی متعصبی انڈین مصنف کی تحریر لگ رہی ہے

جواب

دنیا کا سب سے بڑا جھوٹے میڈیا انڈیا کے ہیں۔اور خود انڈیا دہشگرد ملک ھے۔یہ ملک ہندو انتہا پسند دہشتگردوں اور جاہلوں کا اڈہ ھے۔۔یہ اور چین کا مقابلہ۔۔۔یہ سارا خبر من گھڑت بکواسات اور خیالی پلاؤ ھے۔۔۔ پاک فوج زندہ باد پاکستان زندہ باد۔ پاک چین دوستی زندہ باد۔۔۔۔۔⁦⁦

جواب

انڈین اسرائیل پروپیگنڈا چینل

جواب

امریکہ کبھی بھی پاکستان کے ساتھ مخلص نہیں رہا۔ انڈیا کے ساتھ جنگ کی صورت میں بہانے بنا کر سپئر پارٹس اور ضروری اسلحہ کی فراہمی روک لیتا ھے۔ ہمیں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا چاہیئے ۔

جواب

تبصرے کی ضرورت ھی نہیں کیونکہ انڈین میڈیا سے ایسی ھی بونگیوں کی توقع ھوتی ھے

جواب

زبردست لیکن اپ نے جن تنک ٹنک کا حوالہ دیا ہے عالمی سطح پر یہ تمام چاینہ کے خلاف ہیں اور ضروروہ ممالک ایسے پراپیگنڈے کرتے رہنگے جہاں تک امریکہ کے ساتھ تعلقات اور امریکہ سے دفاعی سازوسامان خریدنے کا سوال ہیں تو امریکہ ایک تو اپنا سودا بیجتا ہیں اور دوسرا اس سودا کو وہ لازم کیسی نہ کیسی چیز سے مشروط کردیتے ہیں اسلئے امریکی سودا پاکستان کیلئے درد سر بن جاتا ہیں

جواب

آپ کے تجزیے نے چائنہ کی ٹیکنالوجی کو بلکل زیرو قرار دے دیا ہے ۔جو کہ بلکل غلط ہے ۔F22 P پاکستان نیوی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں ۔اور بھرپور جنگ کی صلاحیتوں کے حامل جہاز ہے

جواب

F17 be China or pak banaya how's hay chand mulko he khareed leye han or but see mulko ke demand hay

جواب

Abhi jf 17 thunder ka show india daikh chuka hay jo balakot wali side pr hua tha

جواب

چین کون سا زبردستی دیتا ہے ہر ملک اپنے وسائل اور مسائل کے مطابق ہی فیصلے لیتا ہے۔ ویسے چینی ٹیکنالوجی اتنی بری بھی نہیں ۔۔

جواب