انتخابات

گوادر میں چین مخالف تحریک کے عروج سے ناکام وعدے نمایاں

از زرک خان

گوادر کی مقامی حقوق کی تحریک کے حامی بلدیاتی انتخابات سے ایک دن قبل 28 مئی کو جمع ہیں۔ [مولانا ہدایت الرحمان/ٹوئٹر]

گوادر کی مقامی حقوق کی تحریک کے حامی بلدیاتی انتخابات سے ایک دن قبل 28 مئی کو جمع ہیں۔ [مولانا ہدایت الرحمان/ٹوئٹر]

مقامی باشندوں کے ذریعۂ معاش اور ان کی روزمرہ کی زندگیوں پر چینی اثر و رسوخ پر تشویش کا اظہار کرنے کے لیے گوادر میں شروع کی گئی ایک احتجاجی تحریک کو اتوار (29 مئی) کے روز ہونے والے مقامی حکومتی انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل ہوئی۔

خوشحالی اور منافع بخش ترقی کے چینی وعدے بلوچستان کی بندرگاہ کے ووٹروں کو قائل کرنے میں واضح طور پر ناکام رہے ہیں۔

توقع ہے کہ گوادر چین کی بیلٹ اینڈ روڈ پہل کاری (بی آر آئی) کا ایک بڑا حصہ بنے گا، جس سے پاکستان کو تجارت اور ترقیاتی منصوبوں کے لیے کھولا جائے گا جنہیں بہت سے پاکستانی اپنے ملک کے لیے نقصان دہ اور چین کے لیے فائدہ مند سمجھتے ہیں۔

نومبر سے، بندرگاہی شہر کے رہائشیوں نے "گوادر کو اس کا حق دو" مہم میں حصہ لیا ہے، جس میں مقامی اور چینی ٹرالروں کی جانب سے ماہی گیروں کے روزگار کو تباہ کرنے والی گہرے سمندر میں غیر قانونی ماہی گیری کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

اپریل میں گوادر میں ماہی گیری کی کشتیوں کی فائل فوٹو۔ [زرک خان]

اپریل میں گوادر میں ماہی گیری کی کشتیوں کی فائل فوٹو۔ [زرک خان]

اس مہم میں بی آر آئی منصوبوں کی حفاظت کرنے والی حفاظتی چوکیوں پر مقامی لوگوں کو ہراساں کرنے کو بھی ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

ایک مقامی عالم مولانا ہدایت الرحمان اس مہم کی قیادت کر رہے ہیں، جنہوں نے اتوار کے روز مقامی حکومتوں کے انتخابات کے لیے اپنے امیدوار کھڑے کیے تھے۔

عظیم عروج

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حقوق کی تحریک کی انتخابی جیت ووٹروں کی زندگیوں اور معاش پر بیجنگ کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ پر ان کے خدشات کو واضح کرتی ہے۔

کالعدم بلوچ علیحدگی پسند گروپوں کی جانب سے چینی شہریوں اور منصوبوں پر حملوں میں اضافے کے بعد، پاکستانی حکام نے گوادر بندرگاہ پر کام کرنے والے چینی شہریوں کی حفاظت کے لیے درجنوں حفاظتی چوکیاں قائم کی ہیں۔

تاہم، چوکیوں نے ضلع گوادر کے 300,000 سے زائد باشندوں کی نقل و حرکت میں رکاوٹ ڈالی ہے، جس سے مقامی آبادی میں شدید ردِعمل پیدا ہوا جو حقوق کی مہم میں تبدیل ہو گیا۔

گوادر میں ماہی گیروں کے ایک رہنما، بشیر ہوت نے کہا، "ایک ماہ سے زائد عرصے تک احتجاج منظم کرنے کے بعد، تحریک اپنے کچھ مطالبات کو پورا کرنے کے لیے حکومت پر دباؤ ڈالنے میں کامیاب ہو گئی ہے، جن میں چوکیوں میں نرمی اور ٹرالروں پر ماہی گیری کو روکنا شامل ہے۔"

انہوں نے کہا کہ گوادر اور بلوچستان کے دیگر حصوں میں چینیوں کی موجودگی کی وجہ سے مقامی باشندے غیر یقینی صورتحال کا شکار ہیں۔

جنوری 2021 میں، ایک صوبائی عدالت نے پاکستانی حکام کو گوادر کی بندرگاہ کے ارد گرد خاردار تار سے باڑ لگانے سے روک دیا تھا جس کے بارے میں مقامی لوگوں کا کہنا تھا کہ اس سے مقامی باشندوں کی نقل و حرکت میں رکاوٹ آئے گی اور ماہی گیروں کو سمندری رسائی کے مقامات تک پہنچنے سے روکا جائے گا۔

چین کے ساتھ کم خوشحال

مقامی لوگوں نے کہا کہ بی آر آئی سے منسلک منصوبے گوادر کے رہائشیوں کی زندگیوں میں بہتری نہیں لائے اور نہ ہی ان سے پانی اور بجلی کی عرصۂ دراز سے قلت کو حل کرنے میں مدد ملی۔

گوادر میں ایک طالب علم، اشرف علی نے کہا، "گوادر کو کاروبار اور تجارت کا مرکز بنانے اور رہائشیوں کے لیے ترقیاتی منصوبے [تخلیق کرنے] کی بجائے، چین پاکستانی حکام کو بندرگاہی شہر کو حفاظتی زون بنانے اور رہائشیوں کی نقل و حرکت محدود کرنے پر مجبور کرتا رہا ہے۔

انہوں نے کہا، "گوادر کے لوگ اب بھی 2,500 پاکستانی روپے (12.50 امریکی ڈالر) فی ٹینکر کے حساب سے پینے کا پانی خریدنے پر مجبور ہیں۔"

عوام کی رضامندی کے بغیر بلوچستان میں چینی سرمایہ کاری گوادر اور ملک کے دیگر حصوں میں امن و امان کی مجموعی صورتحال کو مزید خراب کر رہی ہے۔

بلوچستان میں بڑھتے ہوئے چینی اثر و رسوخ پر غصے نے بلوچ اور سندھی عسکریت پسند تنظیموں کو ایک دوسرے کے ساتھ اتحاد کرنے کی ترغیب دی ہے، جس سے اس تشویش کو ہوا ملی ہے کہ مشترکہ گروپ خطے میں پُرتشدد سرگرمیوں میں اضافہ کرے گا۔

اپریل کے آخر میں، بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے)، جو بلوچ راجی آجوئی سانگر (براس) کا ایک جزو ہے، نے کراچی میں ایک سرکاری یونیورسٹی کے اندر خودکش حملے میں تین چینی اساتذہ سمیت چار افراد کو ہلاک کرنے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

فروری میں بی ایل اے کے علیحدگی پسندوں نے بلوچستان میں, نوشکی اور پنجگور کے اضلاع میں فوجی چوکیوں پر بھی جڑواں حملے کیے تھے.

اُس وقت پنجگور میں مقیم ایک سیاسی کارکن مجتبیٰ بلوچ نے کہا، "2 فروری کے حملے، وزیر اعظم عمران خان کے دورہ چین سے چند گھنٹے قبل، بیجنگ کے ساتھ [بلوچستان کے] قدرتی وسائل کے استحصال پر بلوچ آبادی کی شکایات سے منسلک تھے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500