دہشتگردی

'تاج کے ہیرے'، گوادر میں شہری سی پی ای سی کے 10 برس سے مایوس

زرق خان

جون میں گوادر کے باشندوں نے بنیادی شہری حقوق کے لیے ایک احتجاج میں شرکت کی۔ ]زرق خان/پاکستان فارورڈ[

جون میں گوادر کے باشندوں نے بنیادی شہری حقوق کے لیے ایک احتجاج میں شرکت کی۔ ]زرق خان/پاکستان فارورڈ[

اسلام آباد – گزشتہ دہائی میں چین پاکستان معاشی راہداری (سی پی ای سی) کے مرہونِ منت بڑھتے ہوئے چینی رسوخ نے وسیع پیمانے پر مقامی غم و غصہ کو اشتعال دلایا ہے، جس سے بلوچستان میں نسلی شورش میں اضافہ ہوا ہے اور یہ خدشات بھڑک اٹھے ہیں کہ عسکریت پسند گروہ خطے میں تشدد پیدا کریں گے۔

بلوچستان، کہ جس کا مرکزی ساحلی شہر گوادر ہے، اپنے قدرتی وسائل کی فراوانی کے باوجود ملک کا سب سے بڑا مگر سب سے کم ترقی یافتہ خطہ ہے، اور یہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹیو (بی آر آئی) کے پاکستانی جزُ سی پی ای سی کے تحت ملک میں چینی معاشی مفادات کا مرکز ہے۔

اس صوبے کی آبادی چینی کمپنیوں کے بڑھتے ہوئے رسوخ سے نالاں ہے ، جو کہ خصوصی طور پر مقامی وسائل کے استحصال میں دلچسپی رکھتی ہیں جبکہ مقامی ضرورتوں کو خال ہی توجہ دیتے ہیں۔

کالعدم بلوچ عسکریت پسند گروہوں، بطورِ خاص بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) اور بلوچ لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) ان جذبات کا استعمال کرتے ہیں کہ سی پی ای سی کے تحت چینی سرمایہ کاری نے مقامی افراد کو کوئی فائدہ نہیں پہنچایا۔

انہوں نے حالیہ برسوں میں بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں اور پاکستان میں چینی کارکانان کو متعدد مرتبہ حملے کا نشانہ بنایا۔

اپنی شناخت پوشیدہ رکھی جانے کی درخواست کرنے والے، ایک کوئٹہ اساسی سیکیورٹی عہدیدار نے کہا کہ کالعدم بلوچ عسکریت پسند گروہوں، بطورِ خاص بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) اور بلوچ لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) چین مخالف جذبات کا استحصال کرتے ہیں اور چینی اور پاکستانی مفادات پر پرتشدد حملے کرنے کے لیے آسانی سے نوجوانوں کو بھرتی کر لیتے ہیں۔

انہوں نے کہا، ”بلوچستان میں 2004 میں نسلی شورش کا آغاز ہوا، تاہم یہ بدتر ہو گئی اور 10 برس قبل سی پی ای سی کی آمد کے بعد مزید مہلک ہو گئی۔“

بی ایل اے اور بی ایل ایف بھی بلوچستان اور سندھ سے متعدد عسکریت پسند گروہوں کے ایک مصروفِ کار اتحاد، بلوچ راجی اجوئی سانگڑ (بی آر اے ایس) کا جزُ ہیں، جن کے قیام کا بنیادی مقصد چینی مفادات پر حملے کرنا ہے۔

رواں برس جون میں، بی ایل اے نے ایک عورت کی جانب سے تربت شہر، بلوچستان میں ایک پولیس وین پر ایک خود کش حملہ کیے جانے کی ذمہ داری قبول کی، جس میں ایک پولیس اہلکار شہید اور دو دیگر زخمی ہو گئے۔

بی ایل اے کی جانب سے اپریل 2022 میں کراچی میں ایک خودکش بم حملے میں تین چینی اساتذہ کے قتل کے بعد، بی ایل اے کے ترجمان جییاند بلوچ نے ایک بیان میں بیجنگ کو دھمکی دی کہ اگر ہمسایہ ملک”استحصال کے منصوبوں“ اور ”ریاستِ پاکستان پر قبضہ کے عمل“ کو بند نہیں کرتا تو ”شدید تر“ حملے ہوں گے۔

کراچی میں بی ایل اے نے 2018 میں چینی کونسل خانے اور 2020 میں پاکستان سٹاک ایکسچینج (پی ایس ای) کی عمارت کو نشانہ بنایا۔ چینی کمپنیوں کا ایک کنسورشم پی ایس ای کے 40 فیصد کا مالک ہے۔

وسائل کا بے دریغ استعمال

بیجنگ کے لیے خاص اہمیت کا حامل یہ امر ہے کہ، سی پی ای سی نے چین کے بعید مشرقی زنجیانگ خطے کو بحیرۂ عرب میں تضویری محلِ وقوع کی حامل گہرے پانی کی پاکستانی بندرگاہ گوادر سے ملانے کے لیے تجارتی راستہ تعمیر کیا ہے۔

گوادر کو اکثر سی پی ای سی کے ”تاج کا ہیرہ“ کہا جاتا ہے۔

تاہم، ایک دہائی پر محیط پاک چین اشتراک کے باوجود، باشندوں اور فعالیت پسندوں کا کہنا ہے کہ گوادر میں بنیادی عوامی مسائل ، جیسا کہ معیاری نگہداشت صحت اور تعلیم، اور پانی و بجلی کی قلت بھی حل نہیں ہو سکے۔

دسمبر میں پاکستانی حکام نے— مقامی افراد کے مطابق، بیجنگ کی ایما پر – گوادر میں احتجاجی تحریک پر کریک ڈاؤن کیا جو کہ باشندوں کے ۔

نومبر کے وسط میں ایک احتجاج کے دوران باشندوں نے چین کے زیرِ انتظام اس بندرگاہ کو جانے والی ایکسپریس وے کو مسدود کر دیا .

درایں اثنا، پاکستان میں چینی کمپنیاں مسلسل بے لگام چل رہی ہیں، کیوںکہ پاکستانی حکام دیکھ رہے ہیں کہ ان کے ہاتھ بندھے ہیں۔

ایک مقامی قانون ساز، محمد عارف محمد حسنی نے فروری میں صوبائی پارلیمان کو آگاہ کیا کہ چینی ریاست کے زیرِ انتظام ایک کمپنی نے ضلع چاغی، بلوچستان میں سینڈک تانبے-سونے کی کان کے منصوبے سے 7 بلین پاکستانی روپے (26 بلین ڈالر) سے زائد کا غبن کیا ہے ۔

حسنی نے صوبائی اسمبلی کے ایک اجلاس کے دوران کہا، ”حکومتِ بلوچستان چینی کمپنیوں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کرتی کیوںکہ اسے خوف ہے کہ بیجنگ ناراض ہو گا اور اس سے پاک چین تعلقات متاثر ہوں گے۔“

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500