دہشتگردی

بس حملے نے پاکستان میں چین کے خلاف بڑھتی ہوئی ناراضگی کو نمایاں کیا ہے

پاکستان فارورڈ اور اے ایف پی

خیبرپختونخوا کے علاقے بالائی کوہستان میں، 14 جولائی کو، بم دھماکے کے بعد بس کے کھائی میں گرنے کے بعد، پاکستانی امدادی کارکن اور تماشائی ملبے کے گرد جمع ہیں، اس واقعہ میں 9 چینی کارکنوں سمیت 12 افراد ہلاک ہو گئے۔ [سٹرنگر/ اے ایف پی]

خیبرپختونخوا کے علاقے بالائی کوہستان میں، 14 جولائی کو، بم دھماکے کے بعد بس کے کھائی میں گرنے کے بعد، پاکستانی امدادی کارکن اور تماشائی ملبے کے گرد جمع ہیں، اس واقعہ میں 9 چینی کارکنوں سمیت 12 افراد ہلاک ہو گئے۔ [سٹرنگر/ اے ایف پی]

بدھ (14 جولائی) کو خیبر پختونخوا (کے پی) میں چینی انجینئروں کو لے جانے والی بس پر حملہ، ملک میں چین کی تحکمانہ موجودگی اور بیجنگ کی طرف سے اپنائی جانے والی پالیسیوں کے خلاف، پاکستانیوں میں بڑھتی ہوئی عداوت کو اجاگر کر رہا ہے۔

بالائی کوہستان، کے پی میں بدھ کو داسو پن بجلی گھر کے قریب، کم از کم 12 افراد جن میں چین کے نو انجینئرز اور فرنٹئر کور کے دو اہلکار شامل تھے، ہلاک اور بہت سے دیگر زخمی ہو گئے۔

یہ بس 40 چینی انجینئرز، سرویئرز اور مکینیکل عملے کو، کے پی میں پن بجلی گھر کی جائے تعمیر پر لے جا رہی تھی جب بس میں ہونے والے دھماکے سے وہ کھائی میں گر گئی۔

جمعرات کو ڈان کے مطابق، ابتدائی تفتیش سے دھماکہ خیز مواد کی باقیات کی موجودگی کی تصدیق ہو گئی ہے۔

بجلی گھر بیجنگ کی انتہائی وسیع بیلٹ اینڈ روڈ پہلکاری کا حصہ ہے۔

چین کو مسترد کرنا

پاکستان میں چین کو مسترد کیے جانے میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

چین کی حکومت نے گزشتہ کچھ سالوں کے دوران، پاکستان کے ساتھ، کئی بلین ڈالر کے بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کے معاہدوں پر دستخط کیے ہیں، جس سے ملک میں چین کے اثر و رسوخ کے بارے میں تشویش پیدا ہو گئی ہے۔

صوبہ سندھ میں، بی آر آئی سے متعلقہ منصوبوں پر تھر صحرا کے علاقے کے شہریوں نے، تحقیق کے بعد ظاہر ہونے والے ان نتائج کے بعد کہ اس پروگرام کے تحت، کوئلے کی کان کنی کے منصوبوں سے جنوبی ایشیاء میں ہوا کی آلودگی میں قابلِ قدر اضافہ ہو گا اور مقامی آبادی کو صحت سے متعلق سنگین خطرات کا سامنا کرنا پڑے گا، احتجاج کیا۔

قانون سازوں اور مشاہدین کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں، گہرے پانی کی بندرگاہ کی تعمیر -- جو کہ گوادر میں چین کا فلیگ شپ پروجیکٹ ہے -- صوبہ میں سنگین بے چینی کو جنم دے رہی ہے کیونکہ بیجنگ مقامی افراد پر اثرات کے بارے میں کسی فکر یا پریشانی کے بغیر، مقامی وسائل کا استحصال کر رہا ہے۔

گوادر کی بندرگاہ کے بارے میں، چین کی فوج کے ارادوں بھی بہت سے سوالات اٹھائے گئے ہیں کیونکہ وہاں پر رازداری کی چادر تلے، بہت سی مشکوک عمارات تعمیر کی گئی ہیں ۔

گزشتہ ماہ، گوادر میں، مقامی بلوچ ماہی گیروں نے چین کی غیر قانونی ماہی گیری اور چینی ٹرالرز کو پرمٹ جاری کرنے کے بارے میں احتجاج کیا۔

اپریل میں، تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے کوئٹہ میں ایک ہلاکت خیز بم دھماکے کی ذمہ داری قبول کی۔ ٹی ٹی پی نے کہا کہ وہ پاکستان کے سیکورٹی کے اہلکاروں کو نشانہ بنا رہے تھے مگر مشاہدین نے نوٹ کیا کہ اس وقت ہوٹل میں چین کے سفیر قیام پذیر تھے۔ وہ زخمی نہیں ہوئے تھے۔

جون 2020 میں، بلوچ عسکریت پسندوں نے، صوبہ سندھ کے شہر کراچی میں، پاکستان اسٹاک ایکسچینج کو نشانہ بنایا جو جزوی طور پر چین کے اداروں کی ملکیت ہے۔

مئی 2019 میں، علیحدگی پسند بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے گوادر میں ایک پرتعیش ہوٹل پر حملہ کیا اور اسے محاصرے میں لے لیا۔ سیکورٹی فورسز کی طرف سے ہلاک کیے جانے سے پہلے، مسلح افراد نے پانچ لوگوں کو ہلاک کر دیا۔ بی بی سی کے مطابق، بی ایل اے نے کہا کہ وہ چینی اور دیگر سرمایہ کاروں کو نشانہ بنا رہی تھی۔

پاکستان میں، چین مخالف جذبات میں مسلسل اضافہ، بیجنگ کی طرف سے ایغور اور مسلمانوں کے دیگر نسلی اقلیتی گروہوں سے کیا جانے والا سلوک اور چین کے اداروں کی طرف سے اسلام کی توہین سے بھی ہو رہا ہے۔

بیجنگ کو سنکیانگ کے علاقے میں گزشتہ چند سالوں کے دوران، مسلمان اقلیتوں سے کیے جانے والے "سفاک اور باضابطہ استحصال" پر بھی بڑھتے ہوئے دباؤ کا سامنا ہے۔

کووڈ-19 کی میراث

کشیدگی میں اضافے کی ایک اور وجہ کووڈ- 19 کے خلاف جنگ کے گرد گھومتی ہے۔

عالمی وباء کے آغاز کے بارے میں چین کے جھوٹ بولنے کے علاوہ، اس نے دنیا بھر کو، جس میں پاکستان بھی شامل ہے، غیر معیاری ویکسین اور ذاتی حفاظتی سامان (پی پی ای) بھیجا۔

چین کی طرف سے عطیہ کردہ ویکسین کے موثر اور محفوظ ہونے کے بارے میں خدشات نے بھی مظاہروں کو جنم دیا اور پاکستان میں مظاہرین کرونا وائرس کے خلاف مغرب میں تیار کردہ ٹیکوں کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

پاکستان کی حکومت کی طرف سے فروری میں شروع کی جانے والی، ویکیسن لگانے کی مہم کے حصہ کے طور پر، پاکستان اپنے شہریوں کو زیادہ تر چین کی تیار کردہ ویکسین -- سائنوفارم، سائنوویک اور کینسائنوبائو -- ہی لگا رہا ہے۔

مگر چین کے بیماریوں کے انسداد کے سرکردہ حکام نے، چین کی طرف سے بنائے جانے والے ٹیکوں کے موثر ہونے کے بارے میں تشویش کو عوامی طور پر تسلیم کیا ہے اور ملک کی کرونا وائرس کی ویکسین کی اہلیت کو بڑھانے کا ایک ممکنہ منصوبہ بنایا ہے۔

مقامی ذرائع ابلاغ نے خبر دی ہے کہ ایجنسی کے ڈائریکٹر گاو فو نے 10 اپریل کو چینگدو میں ایک کانفرنس میں کہا کہ"امراض کی روک تھام اور انسداد کے چینی مرکز" اس مسئلے کو حل کرنے کے طریقوں پر غور کر رہا تھا کہ موجودہ ویکسین کی افادیت زیادہ نہیں ہے

بیجنگ کی طرف سے، ناقص کووڈ - 19 کی ٹیسٹ کٹس، ناقص وینٹیلیٹرز اور جعلی ماسک اور دیگر ذاتی حفاظتی سامان (پی پی ای) کی برآمد ایک اور انتباہ کا باعث بنی ہے۔

گزشتہ سال وبائی بیماری کے عروج کے دوران، پاکستانی اسپتالوں نے، کووڈ -19 کے مریضوں کا علاج کرنے والے طبی کارکنوں میں انفیکشن اور اموات کے بعد، چین میں بنائے گئے پی پی ای کا استعمال بند کر دیا تھا۔

پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے سکریٹری ڈاکٹر عمر جواد نے گذشتہ اپریل میں کہا کہ " چین سے درآمد شدہ خراب پی پی ای کی وجہ سے 1,000 سے زیادہ ڈاکٹروں، پیرا میڈیکس اور نرسوں کا وائرس کے لیے ٹیسٹ کا نتیجہ مثبت آیا ہے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500