ٹیکنالوجی

چین کا نگرانی کا پھیلتا ہوا جال اتحادیوں اور تجارتی شراکت داروں کے مابین خدشات پیدا کر رہا ہے

پاکستان فارورڈ

16 دسمبر 2020 کو ایک کارکن بیجنگ میں کلوزڈ سرکٹ ٹی وی کیمراز نصب کر رہا ہے۔ [نوئل سیلِس/اے ایف پی]

16 دسمبر 2020 کو ایک کارکن بیجنگ میں کلوزڈ سرکٹ ٹی وی کیمراز نصب کر رہا ہے۔ [نوئل سیلِس/اے ایف پی]

بیجنگ کی بڑھتی ہوئی نگرانی، ڈیٹا کولیکشن اور اس کے ”سوشل کریڈٹ“ نظام کا نفاذ چین کے قریبی اتحادی ممالک، چین کے مقروض ممالک اور چین کی ٹیکنالوجی اور انفراسٹرکچر کے میزبان ممالک کے لیے خدشات پیدا کر رہے ہیں۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایک اندازے کے مطابق، نصف ملین نگران کیمروں، چہرے سے شناخت کے بڑھتے ہوئے استعمال اور وائس پرنٹ سافٹ وئیر، ہر جگہ موجود فون ٹریکنگ آلات، اور دنیا کی سب سے بڑی ڈی این اے ڈیٹا بیسز میں سے ایک کے ساتھ چین اپنے آمریت پسندانہ اقتدار کو بڑھانے کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال کر رہا ہے ۔

جب چین کی کمیونسٹ پارٹی (سی سی پی) نے پرائیویسی کی خلاف ورزی کو اپنی قومی پالیسی کا جزُ بنا لیا ہے تو، تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ، اسے دیگر ممالک میں یہ سب کرنے میں کوئی جھجک نہیں ہو سکتی۔

'لوگوں کو کنٹرول'

چین کی نگرانی کی استعداد کے ایک تفصیلی مطالعہ کے بعد جون میں نیویارک ٹائمز نے خبر دی کہ بیجنگ کا مقصد اپنی طاقت کے استعمال کے لیے کسی کی شناخت، سرگرمیوں اور معاشرتی روابط سے متعلق جو کچھ وہ جان سکتے ہیں اس میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کرنا ہے۔

3 مئی 2020 کو بیجگ میں وُوہان کا دورہ کرنے کے بعد قرنطینہ میں رکھے گئے ایک صحافی کے گھر کے باہر ایک چینی کارکن نگرانی کا ایک کیمرا درست کر رہا ہے۔ [لیو رامیریز/اے ایف پی]

3 مئی 2020 کو بیجگ میں وُوہان کا دورہ کرنے کے بعد قرنطینہ میں رکھے گئے ایک صحافی کے گھر کے باہر ایک چینی کارکن نگرانی کا ایک کیمرا درست کر رہا ہے۔ [لیو رامیریز/اے ایف پی]

چینی بحریہ کے ساتھ ایک جنگی بیڑے کا جزُ، میزائل سے مسلح بحری جہاز مسلسل جاری حالیہ بحری مشقوں کے دوران ایک فارمیشن میں محوِ سفر ہے۔ دنیا بھر میں چین کے زیرِ انتظام بندرگاہوں میں اور ان کے گرد نگرانی میں نمایاں اضافہ ہو رہا ہے۔ [چینی وزارتِ دفاع]

چینی بحریہ کے ساتھ ایک جنگی بیڑے کا جزُ، میزائل سے مسلح بحری جہاز مسلسل جاری حالیہ بحری مشقوں کے دوران ایک فارمیشن میں محوِ سفر ہے۔ دنیا بھر میں چین کے زیرِ انتظام بندرگاہوں میں اور ان کے گرد نگرانی میں نمایاں اضافہ ہو رہا ہے۔ [چینی وزارتِ دفاع]

ایشیا میں اس اخبار کی بصری تحقیقاتی ٹیم اور صحافیوں نے ایشیئن سوسائٹی کی جانب سے شائع کیے گئے ایک ڈیجیٹل جریدے، چائنہ فائل کے تالیف شدہ 100,000 سے زائد حکومتی بولی کی دستاویزات کا تجزیہ کرنے میں ایک برس سے زائد صرف کیا۔

یہ دستاویزات حکومت کی جانب سے نگرانی کی ٹیکنالوجی کی فراہمی کے ٹھیکوں پر بولی دینے کے لیے کمپنیوں کو دعوت دیتے ہیں اور بعض واقعات میں ان خریداریوں کے پیچھے تضویری سوچ کو بھی تفصیلی طور پر بیان کرنے کا کہا جاتا ہے۔

چند دستاویزات میں، پولیس نے کہا کہ انہیں کھانے، سفر، خریداری یا تفریخ کے لیے مختص عوامی مقامات – کے ساتھ ساتھ رہائشی عمارات، کراوکی لاؤنجز اور ہوٹلز – پر چہرے کی شناخت کے سافٹ ویئر کے حامل نگران کیمراز درکار ہیں۔

ان کے اپنے الفاظ میں، — تائیوان سے خلیج کے پار واقع— صوبہ فوجیان میں پولیس نے کہا کہ نگرانی کے نطام کو اپگریڈ کرنے کی حکمتِ عملی ”لوگوں کے کنٹرول اور انتظام“ کا حتمی مقصد حاصل کرنا تھا۔

دی ٹائمز کی تحقیقات میں پتہ چلا کہ چین میں پولیس چہرے کی شناخت کے حامل کیمروں کے ساتھ نصب ساؤنڈ ریکارڈرز کا استعمال کرتے ہوئے ”وائس پرنٹس“ بھی جمع کر رہی ہے۔

ہانگ کانگسے تقریباً 87 کلومیٹر دورصوبہ گوانڈونگ، ژونگشان سے بولی ک ایک دستاویز میں پولیس نے کہا کہ انہیں ایسے آلات درکار ہیں جو کیمرا کے کم از کم 92 میٹر کے نصف قطر سے آواز ریکارڈ کر سکیں۔

درایں اثناء، چینی پولیس بڑے پیمانے پر آنکھ کی پتلی کا سکین اور ڈی این اے ڈیٹابیس بنانے کے لیے آلات خرید رہی ہے۔

ٱنکھ کی پتلی کی پہلی علاقائی ڈیٹابیس 2017 کے قریب سنکیانگ خطے میں بنائی گئی، جہاں کم از کم ایک ملین اویغور اور دیگر ترک الزبان، جن میں سے زیادہ تر مسلم اقلیتیں ہیں، کو ”سیاسی تعلیمِ نو“ کیمپوں میں رکھا گیا ہے۔

دی ٹائمز نے خبر دی کہ اس ڈیٹابیس میں 30 ملین لوگوں تک کی ٱنکھ کی پتلی کے نمونے رکھے جانے کی گنجائش ہے۔ جس کمپنی نے یہ ٹھیکہ جیتا، اسی نے بعد ازاں چین بھر میں بڑی ڈیٹابیسز بنانے کے دیگر سرکاری ٹھیکے بھی جیتے۔

بولی کی دیگر دستاویزات مردوں کے ڈی این اے کی بڑی ڈیٹابیسز بنانے اور موبائل فونز سے معلومات جمع کرنے کے لیے ”وائی فائی سنفرز“ اور ”آئی ایم ایس آئی [انٹرنیشنل موبائل سبسکرائبر آئیڈینٹٹی] کیچرز“ کے استعمال کی چین کو کوششوں کو ظاہر کرتی ہیں۔

ایک واقعہ میں گوانگڈونگ میں ایک کاؤنٹی سے پولیس نے اس امید پر فون ٹریکر خریدے کہ ایک اویغور سے چائینیز ڈکشنری ایپ کا پتہ چلایا جا سکے، جو ممکنہ طور پر شدید دباؤ کا شکار اقلیت کے ارکان کے فونز تک رہنمائی کرتی۔

سوشل کریڈٹ

طبعی اور ڈیجیٹل نگرانی کے ساتھ ساتھ، چین میں حکام کا نجی اور حکومت کے زیرِ انتظام ”سوشل کریڈٹ“ سسٹمز کے نیٹ ورک پر انحصار بڑھ رہا ہے۔

سوشل کریڈٹ افراد کی متعدد عناصر کی بنیاد پر درجہ بندی کرتا ہے جس مین لاپروائی سے چلنا، ریل پر نہایت بلند آواز میں موسیقی سننا، قرضوں کی نادہندگی یا ٹیکسی کھڑی رکھنا شامل ہو سکتے ہیں۔

بزنس انسائڈر نے گزشتہ دسمبر میں خبر دی کہ دیگر خلاف ورزیوں میں تمباکو نوشی کی ممانعت کے مقامات پر تمباکو نوشی کرنا، بہت زیادہ ویڈیو گیمز خریدنا، ویڈیو گیمز پر بہت زیادہ وقت صرف کرنا، لغو اشیاء خریدنے پر پیسہ ضائع کرنا اور سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنا شامل ہیں۔

2015 کی سرکاری دستاویز کے مطابق، 2014 میں پہلی مرتبہ اعلان کیے جانے والے سوشل کریڈٹ سسٹم کا مقصد اس نظریہ کو نافذ کرنا ہے کہ ”اعتماد برقرار رکھنا معزز ہے اور اعتماد کھو دینا موجبِ رسوائی“۔

سوشل کریڈٹ سسٹم اخلاقیات پر مبنی ہے: حکام ٹریفک خلاف ورزیوں جیسے برے روئیے پر پوائنٹ کاٹ لیتے ہیں اور خیرات کرنے جیسے اچھے روئیے پر پوائنٹ بڑھا دیتے ہیں۔

اعتماد اور ٹیکنالوجی میں مہارت رکھنے والی ایک مصنفہ ریچل بوٹسمین کے مطابق، اگرچہ درست اصولیات ایک راز ہیں، تاہم، کم سوشل کریڈٹ درجات کے حامل چینیوں کو ”سست انٹرنیٹ رفتار؛ ریستورانوں، نائیٹ کلبز یا گالف کورسز تک محدود رسائی؛ آزادانہ طور پر بیرونِ ملک سفر کرنے کے حق کی تلفی کا سامنا ہو گا۔“

انہوں نے 2017 میں شائع ہونے والی اپنی ایک کتاب ”آپ کس پر اعتماد کر سکتے ہیں“ میں لکھا، ”یہ شمار کسی شخص کی کرائے داری، ان کی بیمہ، یا قرض اور یہاں تک کہ سوشل سیکیورٹی فوائد حاصل کرنے کی استعداد پر بھی اثرانداز ہوں گے۔“

سی سی پی کی دنیا میں سوشل کریڈٹ سسٹم ”قابلِ اعتبار لوگوں کو آسمان تلے کہیں بھی پھرنے کی اجازت دے گا جبکہ بے اعتبار لوگوں کو ایک قدم اٹھانا بھی مشکل ہو گا۔“

کم سوشل کریڈٹ والوں کے لیے روزگار اور تعلیم کے مواقع بھی خطرہ کی زد میں ہوں گے۔

بیجنگ نیوز نے خبر دی 2017 میں عسکری خدمات سرانجام دینے سے منع کرنے والے سترہ مردوں کو اعلیٰ تعلیم میں داخل ہونے، ہائی سکول کے لیے درخواست دینے یا اپنی تعلیم جاری رکھنے سے روک دیا گیا۔

ریاستی نشریاتی ادارے چائنہ گلوبل ٹیلی ویژن نیٹ ورک نے خبر دی کہ 2018 میں ایک چینی جامعہ نے ایک داخل طالبِ علیم کو اس وجہ سے اس کا مقام دینے سے انکار کر دیا کیوںکہ اس کے والد کا بینک کا قرض واپس نہ کر پانے کی وجہ سے بری سوشل کریڈٹ سکور تھا۔

یہ سوشل کریڈٹ سسٹم کاوباریوں کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی افراد پر بھی لاگو ہوتا ہے۔

'بڑے بھائی' کے خدشات

سی سی پی کی نیشنل سیکیورٹی پالیسیاں ظاہر کرتی ہیں کہ بیجنگ اپنی طاقت کو یقینی بنانے کے لیے بیرونِ ملک میں بڑھتے ہوئے متجاوز نگرانی اور ڈیٹا کلکشن کا استعمال کرنے سے نہیں ہچکچائے گا۔

گزشتہ چند برسوں سے قازقستان موثر طور پر سمارٹ سٹی منصوبے کا نفاذ کر رہا ہے، جس میں امنِ عامہ اور ٹریفک قوانین پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لیے شہر کی سڑکوں پر نگران کیمراز نصب کرنا شامل ہے۔

تاہم، قازقستان میں چینی ساختہ نگران کیمراز کا پھیلاؤ اس امر سے متعلق خدشات پیدا کر رہا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ چینی حکام ان تک رسائی رکھتے ہوں۔

اس منصوبے پر کام کرنے والی چینی کمپنیوں میں سے دو – داہوا ٹیکنالوجیز اور ہائیکویژن – چینی مسلم اقلیتوں کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تسہیل کاری کی وجہ سے امریکہ کی جانب سے پابندیوں کا شکار ہیں۔

المتے میں قازقستان بین الاقوامی دفتر برائے حقوقِ انسانی و بالا دستیٔ قانون کے ایک ترجمان آندرے گرشن نے 2019 میں کاروان سرائے کو بتایا، ”ان دنوں چین سے آنے والی ہر شئے خدشات پیدا کر رہی ہے۔“

”جسے ہم باضابطہ طور پر سیکیورٹی خدشہ قرار دے رہے ہیں وہ حد پار کر کے ذاتی خلوت پر حملہ ہو رہا ہے۔“

انہوں نے کہا، ”جس بات کی تنبیہ سائنس فکشن نے – 'بڑے بھائی' کی جانب سے نگرانی پر مبنی ہمہ گیر معاشروں کے طور پر بیان کرتے ہوئے— قریب 50 سے 100 برس قبل کی تھی، وہ اب درست ثابت ہو چکی ہے۔“

”میں بھی ہرگز نہیں چاہتا کہ یہ وہشت ناک کہانی ہمارے لیے ایک حقیقت بن جائے۔“

عسکری مقاصد

ایک اور کمپنی جس پر نظر رکھی جانی چاہیئے، نیوک ٹیک ہے، جس کے چین کی عسکری اور سیاسی اشرافیہ کے ساتھ گہرے تعلقات ہیں۔

نیوک ٹیک دنیا کے چند حساس ترین ایئرپورٹس، سرحدوں اور سفارتی تقاریب میں سیکیورٹی سکریننگ کی ذمہ دار ہے، جس سے پرائیویسی اور اعداد کے ممکنہ غلط استعمال کے خدشات پیدا ہو رہے ہیں۔

ان ایکس رے سکینرز کے ساتھ ساتھ، جن سے مسافر اور سامان ایئر پورٹس پر گزرتے ہیں، یہ کمپنی دھماکہ خیز مواد کا پتہ لگانے کے آلات اور متعلقہ آلات بناتی ہے جو آئی ڈی کارڈ یا ٹکٹ شناخت، جسم کے درجہ حرارت کی پیمائش اور چہرے کی شناخت کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

امریکہ، کینیڈا اور متعدد دیگر مغربی حکومتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد نے قومی سلامتی کے خدشات کی وجہ سے نیوک ٹیک کو مسترد کر دیا ہے۔

دی پرنٹ نے جون میں خبر دی کہ چین پاکستان میں گوادر شہر میں 500 سے زائد نگران کیمرے نصب کر رہا ہے جس سے پرائیویسی سے متعلق خدشات اور افواہیں بھڑک رہی ہیں کہ یہ کبھی بھی ایک تجارتی بندرگاہ نہیں بننی تھی۔

متوقع ہے کہ بحیرۂ عرب کی یہ بندرگاہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ اقدام (بی آر آئی) ، جو ون بیلٹ، ون روڈ (او بی او آر) کے نام سے بھی معروف ہے کا جزُ بنے گی، تاہم مشاہدین نے خدشات کا اظہار کیا ہے کہ حکومتِ چین اس بندرگاہ کے ترقیاتی کام کو پاکستان میں ایک بحری چھاؤنی کی تشکیل کو چھپانے کے لیے استعمال کرے گی۔

بیجنگ پر متحدہ عرب امارات (یو اے ای)، کمبوڈیا اور ایکویٹوریل گوینا میں خفیہ عسکری چھاؤنیاں – یا ”دہرے استعمال“ کی بندرگاہیں – بنانے کا الزام ہے۔

بی آر آئی کے تحت، چین کلیدی علاقوں میں تجارتی بندرگاہیں تعمیر کر رہا ہے جو کہ دیگر کے ساتھ ساتھ بشمول مصر، ایران اور سری لنکا میں اس کی تیزی سے پھیلتی ہوئی بحریہ کے زیرِ استعمال آ سکتی ہیں۔

2019 کی ایک رپورٹ میں امریکہ-چین معاشی و سلامتی جائزہ کمیشن نے حوالہ دیا کہ بیجنگ کی جانب سے بی آر آئی حوصلہ افزائی کا مقصد ”عسکری معاونت میں اضافہ اور اسکی سنسر شپ اور نگرانی کی ٹیکنالوجیز کی برآمد ہے۔“

اس میں مزید کہا گیا، ”چین کی بی آر آئی پیپلز لبریشن آرمی کی بیرونِ ملک بڑھتی ہوئی موجودگی کے پیچھے شفاف ترین انتظامی تصور کے طور پر سامنے آئی ہے۔“

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500