نقل وحمل

اسلام آباد میں چینی سفارتخانے کے اطراف سڑکوں کی بندش پر غم و غصہ

از زرک خان

قائداعظم یونیورسٹی کے طلباء اکتوبر میں تھرڈ ایونیو کی بندش کے خلاف یونیورسٹی کے گیٹ کے قریب سراپا احتجاج ہیں۔ [قائداعظم یونیورسٹی کے طالب علم شمیم شاہ]

قائداعظم یونیورسٹی کے طلباء اکتوبر میں تھرڈ ایونیو کی بندش کے خلاف یونیورسٹی کے گیٹ کے قریب سراپا احتجاج ہیں۔ [قائداعظم یونیورسٹی کے طالب علم شمیم شاہ]

اسلام آباد -- پاکستانی حکام نے اسلام آباد میں چینی سفارت خانے کی طرف جانے والی ایک بڑی سڑک کو بند کر دیا ہے، جو مقامی لوگوں کے لیے مہینوں سے سفر میں رکاوٹ ہے۔

کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (اسلام آباد) کے ایک اہلکار کے مطابق، ملک بھر میں چینی مفادات کے خلاف حملوں کی طغیانی کے بعد سفارتخانے نے پاکستانی حکام پر تھرڈ ایونیو کو بند کرنے کے لیے دباؤ ڈالا تھا۔

یہ سڑک، جو گزشتہ کئی ماہ سے بند ہے، قائداعظم یونیورسٹی (کیو اے یو)، بری امام کے مزار اور مختلف رہائشی علاقوں تک براہِ راست رسائی فراہم کرتی ہے۔

طلباء اور مقامی لوگوں کے لیے متبادل راستے طویل اور خراب حالت میں ہیں۔

کیو اے یو میں پولیٹیکل سائنس کے ایک طالب علم، شمیم شاہ نے کہا، "سڑک بند ہونے کی وجہ سے ہم ہمیشہ اپنی کلاسوں یا امتحانات میں تاخیر سے پہنچتے ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ یہاں کے مکینوں کے لیے اپنے علاقوں تک رسائی کرنا اور لوگوں کا صوفی مزار پر جانا بھی مشکل ہو گیا ہے۔

شاہ نے کہا، "چینی سفارت خانے کو سیکیورٹی فراہم کرنے کے نام پر پاکستانی حکام نے ہزاروں زندگیاں اجیرن کر دی ہیں"۔

ایک سیاسی تجزیہ کار ڈاکٹر اشرف علی نے کہا کہ پولیس نے انہیں کیو اے یو تک رسائی کے لیے سڑک کا استعمال کرنے سے روک دیا کیونکہ چینی سفارتخانے کے اہلکاروں نے ان سے کہا ہے کہ وہ کسی کو نہ گزرنے دیں۔

علی نے 10 مئی کو اردو زبان کے روزنامہ مشرق میں ایک مضمون میں لکھا، "کیمپس تک پہنچنے کے لیے ایک منٹ [لگنے] کے بجائے، میں کھیتوں کے درمیان متبادل اور ٹوٹی ہوئی سڑکیں استعمال کرنے پر مجبور ہو گیا جس میں 18 سے 20 منٹ لگے"۔

انہوں نے کہا، "ہزاروں طلباء، مزارات کے پیروکار اور مقامی باشندے مشکلات کا شکار ہیں، لیکن حکومت میں سے کسی نے بھی سڑک کی بندش پر چینی سفارتخانے پر تنقید کرنے کی جرأت نہیں کی"۔

اسلام آباد میں شہری مسائل کی کوریج کرنے والے ایک صحافی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ کیو اے یو کے طلباء اور قریبی علاقوں کے رہائشیوں نے سڑک کی بندش پر چینی سفارتخانے کے خلاف کئی احتجاجی مظاہرے کیے ہیں، لیکن پاکستانی میڈیا نے خود سنسر شپ کی وجہ سے ان کی کوریج نہیں کی۔

صحافی نے کہا، "حکومتِ پاکستان نے ذرائع ابلاغ کو حکم دیا ہے کہ وہ ایسی رپورٹوں کو کور نہ کرے جو پاک چین تعلقات کو نقصان پہنچا سکتی ہیں"۔

پاکستانی بھگتتے ہیں

تھرڈ ایونیو کی بندش ان متعدد واقعات میں شامل ہے جن میں چینی منصوبوں نے پاکستانیوں کی رسائی کو منقطع کر دیا ہے۔

مین لائن-1 (ایم ایل-1) پر تعمیر، جو ایک بڑا پاکستانی ریل منصوبہ ہے، کراچی کے کم آمدنی والے علاقوں کے رہائشیوں کی نقل و حرکت کو محدود کر رہا ہے۔

ایم ایل-1 منصوبے کا مقصد کراچی اور پشاور کے درمیان اور ٹیکسلا اور حویلیاں کے درمیان 1,872 کلومیٹر ریلوے ٹریک کو دوگنا اور اپ گریڈ کرنا ہے۔

میگا ریلوے پراجیکٹ ان متعدد سودوں میں شامل ہے جن پر اسلام آباد نے چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک)، چین کی بیلٹ اینڈ روڈ پہل کاری (بی آر آئی) کا ایک پاکستانی جزو ، جسے ون بیلٹ ون روڈ (او بی او آر) بھی کہا جاتا ہے، کے تحت بیجنگ کے ساتھ دستخط کیے ہیں۔

کراچی کے متعدد مضافاتی علاقوں، جیسے کیماڑی اور شیریں جناح کالونی میں، پاکستانی حکام نے ایم ایل-1 منصوبے کی پٹریوں کے گرد دیواریں تعمیر کر رکھی ہیں جس کا مقصد چینی مالی اعانت سے چلنے والے منصوبے کو سبوتاژ ہونے سے بچانا ہے۔

تاہم، مقامی لوگوں اور فعالیت پسندوں کا کہنا ہے کہ دیواروں کی تعمیر نے 100,000 سے زیادہ رہائشیوں کی نقل و حرکت کو پیچیدہ اور محدود کر دیا ہے۔

چینی مفادات کے ارد گرد نقل و حمل کے راستوں کی رکاوٹ کو روکنے کی نظیر موجود ہے۔

جنوری 2021 میں، بلوچستان کی صوبائی عدالت نے پاکستانی حکام کو گوادر میں بندرگاہ کے ارد گرد خاردار باڑ لگانے سے روک دیا تھا، جس کا مقصد چینی کارکنوں کی حفاظت کرنا تھا، جب مقامی لوگوں نے احتجاج کیا کہ باڑ لگانے سے رہائشیوں کی نقل و حرکت میں رکاوٹ آئے گی اور ماہی گیروں کو سمندری رسائی کے مقامات تک پہنچنے سے روکا جائے گا۔

حالیہ برسوں میں، گوادر کے مقامی لوگوں نے "گوادر کو اس کا حق دو" مہم کے بینر تلے متعدد مظاہرے کیے ہیں ، جن میں مقامی اور چینی ٹرالروں کی جانب سے گہرے سمندر میں غیر قانونی ماہی گیری اور سی پیک منصوبوں کی طرف جانے والی سیکیورٹی چوکیوں پر مقامی لوگوں کو ہراساں کیے جانے کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار موجود ہیں اس لئے جہاں سیکیورٹی کی بات آئے ۔ مقامی اور وہ بھی پاکستانی دور دفعہ کر دو انہیں کیا پتہ کہ ہمارے بھی کوئی حقوق ہیں

جواب