معیشت

پاکستان کے مین لائن 1 منصوبے نے چینی قرضوں پر دوبارہ بحث چھیڑ دی

زرق خان

کراچی میں ریلوے ٹریک کو 12 نومبر کو لی گئی اس تصویر میں دیکھا جاسکتا ہے۔ ایم ایل -1 پروجیکٹ سی پی ای سی کا مہنگا ترین اقدام ہے۔ [زارک خان/پاکستان فارورڈ]

کراچی میں ریلوے ٹریک کو 12 نومبر کو لی گئی اس تصویر میں دیکھا جاسکتا ہے۔ ایم ایل -1 پروجیکٹ سی پی ای سی کا مہنگا ترین اقدام ہے۔ [زارک خان/پاکستان فارورڈ]

اسلام آباد – پاکستان میں ریل کی پٹڑی کے ایک بڑے منصوبے کی بڑھتی ہوئی لاگت نے ایک مرتبہ پھر چین کے بھاری قرضوں پر خدشات اٹھا دیے ہیں۔

چین پاکستان معاشی راہداری (سی پی ای سی) کے فیصلہ ساز ادارے، جائنٹ کوآرڈینیشن کمیٹی نے 27 اگست کو ایک ورچؤل اجلاس میں میں 9.85 بلین ڈالر لاگت کے مین لائن -1 (ایم ایل-1) منصوبہ، جس کا طویل عرصہ سے انتظار تھا، پر عمل درآمد پر اتفاق کیا۔

بیجنگ نے حالیہ برسوں میں حال ہی میں سی پی ای سی کے تحت چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹیو (بی آر آئی) کے ایک پاکستانی جزُ جسے ون بیلٹ ون روڈ (او بی او آر) بھی کہا جاتا ہے، کے لیے اسلام آباد کے ساتھ متعدد کثیر بلین ڈالر منصوبوں پر دستخط کیے۔

ایم ایل-1 منصوبے کا مقصد کراچی اور پشاور کے درمیان اور ٹیکسلا تا حویلیاں 1،872 کلومیٹر ریل کی پٹڑی کو دورویہ کرنا اور اس کی تجدید کرنا ہے۔

ایم ایل - ون اور کراچی سرکلر ریلوے منصوبوں سے بے گھر ہونے والے خاندان، 2019 میں احتجاج کر رہے ہیں۔ [زرق خان/پاکستان فارورڈ]

ایم ایل - ون اور کراچی سرکلر ریلوے منصوبوں سے بے گھر ہونے والے خاندان، 2019 میں احتجاج کر رہے ہیں۔ [زرق خان/پاکستان فارورڈ]

2 نومبر کو وزیرِ اعظم شہباز شریف بیجنگ میں چینی صدر ژی جن پنگ سے بات چیت کر رہے ہیں۔ (ٹویٹر/چین میں پاکستانی سفارتخانہ)

2 نومبر کو وزیرِ اعظم شہباز شریف بیجنگ میں چینی صدر ژی جن پنگ سے بات چیت کر رہے ہیں۔ (ٹویٹر/چین میں پاکستانی سفارتخانہ)

یہ لاگت کے حوالہ سے سی پی ای سی کا سب سے بڑے منصوبے کی نمائندگی کرتا ہے۔

ایم ایل-1 منصوبہ پر عملدرآمد متعدد وجوہات کی بنا پر، جن میں سے ایک بطورِ خاص لاگت میں اضافہ تھا، گزشتہ پانچ برس سے ایک حتمی فیصلہ کا منتظر تھا۔

اسلام آباد کے ایک عہدیدار نے اپنی شناخت خفیہ رکھی جانے کی شرط پر نیکؐی سے بات کرتے ہوئے کہا، "پاکستان نے چینی ہمسائے کے مطالبہ پر، جس نے گزشتہ لاگت کے اعداد کو غیر ایم ایل-1 کی لاگت میں اضافہ کرکے 6.8 بلین ڈالر سے 9.85 بلین ڈالر کرنے پر اتفاق کیا ہے۔"

بڑھتے ہوئے قرضے

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ افراطِ زر اور تباہ کن سیلابوں سے نبرآزما پاکستان کو – ریل کی پٹڑی کے منصوبہ پر عملدرآمد کے لیے چین کے ساتھ اپنے معاہدہ پر نظرِ ثانی کرنی چاہیئے۔

پاکستانی وزارتِ مالیات کے ساتھ کام کرنے والے ایک اسلام آباد اساسی معاشیات دان نے اپنی شناخت پوشیدہ رکھی جانے کی شرط پر بتایا، "سی پی ای سی سے منسلک تمام منصوبوں پر عملدرآمد کے لیے بیجنگ کی جانب سے دی گئی لاگت اور قرضہ کی مدت نہایت مہنگی، زیادہ استحصال کرنے والی اور حد سے زیادہ چین کے مفاد میں ہیں۔"

انہوں نے کہا کہ بیجنگ ترقی پذیر ممالک کو صرف زیادہ سے زیادہ منافع کو یقنی بنانے کے لیے پیسہ دیتا ہے۔

چین کے بی آر آئی کے تحت ریل کے منصوبے ایشیا میں دیگر جگہوں پر بھی مسائل کا شکار ہیں۔

چین کو جنوب مشرقی ایشائی ممالک کی انجمن (اے ایس ای اے این) کی رکن ریاستوں سے ملانے کے لیے تھائی لینڈ اور لاؤس کو آپس میں لانے والی ایک ریل لائن، جو کہ بی آر آئی کے منصوبہ کا ایک حصہ ہے کا 2010 میں افتتاح ہوا، اور فراہمیؑ مالیات کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہے۔

وائس آف امریکہ نے 17 جولائی کو خبر دی کہ تھائی لینڈ نے کہا کہ وہ تاخیر کا شکار اس ریل منصوبے کے اپنے حصے کو 2028 تک مکمل کر لے گا، جس سے اس ملک کے عزم سے متعلق اور اس امر سے متعلق شبہات دوبارہ بھڑک اٹھے کہ آیا 12 بلین ڈالر کا یہ منصوبہ منفعت دے پائے گا یا نہیں۔

اسی طرح سے 2018 میں اس وقت کے ملائشیا کے وزیرِ اعظم مہاتیر محمد نے بھاری لاگت اور بدعنوانی کے الزامات کی وجہ سے چین کی جانب سے مالیات کے حامل ایسٹ کوسٹ ریل لنک منصوبے کو معطل کر دیا۔

ایک نئے معاہدے سے اس منصوبے کی لاگت 65.5 بلین ملائشیائی روپیہ (14.4 بلین ڈالر) سے 44 بلین ملائشیائی روپیہ (9.7 بلین ڈالر) پر آنے کے بعد اس منصوبے کو دوبارہ شروع کیا گیا۔

مشاہدین کا کہنا ہے کہ اسلام آباد اور بیجنگ کے درمیان قرض اور مالیاتی معاہدے پاکستان کے جاری معاشی بحران کے کلیدی عناصر ہیں۔

امریکہ کے ادارہ برائے امن کی جانب سے مئی 2021 میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق، "حالیہ برسوں میں پاکستان کی معیشت پر اثرانداز ہونے کی چین کی اہلیت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، جس کی بڑی وجہ یہ حقیقت ہے کہ بیجنگ اب اسلام آباد کا سب سے بڑا قرض دہندہ ہے۔"

پاکستان کے کل سرکاری اور سرکاری ضمانت کے حامل بیرونی قرضہ جات جون 2013 میں 44.35 بلین ڈالر تھے، جن میں سے صرف 9.3 فیصد چین سے تھے۔

اس رپورٹ میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ اپریل 2021 تک یہ بیرونی قرضہ پھیل کر 90.12 بلین ڈالر تک پہنچ گیا، جس میں سے 27.4 فیصد – 24.7 بلین ڈالر— کے لیے پاکستان چین کا مقروض ہے۔

حقوق کی خلاف ورزی

ایم ایل-1 معاہدہ کی وجہ سے انسانی حقوق کے گروہوں کے مابین چینی کمپنیوں کے مزدوروں سے متعلق معمولات، پاکستانیوں کی جبری منتقلی اور بعد ازاں ملک میں نتیجتاً پیدا ہونے والی بدامنی پر خدشات پیدا ہوئے ہیں۔

کراچی سے تعلق رکھنے والے حقوقِ انسانی فعالیت پسند جعفر خان نے کہا، "ایم ایل-1 اور بی آر آئی سے منسلک ایک دیگر ریلوے منصوبے کراچی سرکلر ریلوے کے راستے میں آنے والے--- ہزاروں خاندانوں کا جبری طور پر انخلاء کیا گیا ہے۔"

انہوں نے کہا حکام نے کراچی اور دیگر علاقوں میں خاندانوں کو معاوضہ یا متبادل رہائش دیے بغیر گھر گرا دیے ہیں۔

ماضی میں حقوق کی پامالی نے ملک بھر میں احتجاج بھڑکا دیے تھے ۔

نیدرلینڈز میں لیڈین یونیورسٹی کی جانب سے 2019 میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق، ایک واقعہ میں چینی سرمایہ کاری کے منصوبوں کے جزُ کے طور پر تعمیر ہونے والی 309 کلومیٹر طویل ایم4 موٹروے کی تعمیر کے دوران آجروں نے تعمیراتی کارکنان کے حقوق پامال کیے۔

اس تحقیق میں کارکنان کے فیلڈ انٹرویوز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا، "اجرتوں، جس پر اکثر نے اتفاق کیا کہ کم تھی، کی ادائگی میں مسائل تھے؛ کچھ کی تنخواہوں میں کٹوتی ہوتی یا دیر سے دی جاتیں۔"

اس میں مزید کہا گیا، "کارکنان نے بتایا کہ انہیں کوئی حفاظتی آلات یا تربیت نہیں دی جاتی۔"

لاہور میں بی آر آئی ہی کا ایک جزُ اورنج لائن میٹرو ٹرین (او ایل ایم ٹی) پر الزامات کی پوچھاڑ ہوئی کہ اس ریلوے کو تعمیر کرنے والی چینی فرم نے کارکنان کے حقوق کی خلاف ورزی کی اور تعمیری مقامات پر حفاظتی تدابیر کو نظرانداز کیا، جس کے نتیجہ میں چند مزدوروں کی اموات ہوئیں۔

2020 میں حکومتِ پاکستان کے عہدیداران کی جانب سے فراہم کی گئی دستاویزات کے مطابق، او ایل ایم ٹی پر کام کرنے والے عملہ کی اجرتوں کی فہرستوں سے انکشاف ہوا کہ عملہ کے چینی ارکان کو اپنے پاکستانی ہم منصبوں کی نسبت کہیں زیادہ تنخواہیں ملتیں۔

چینی عملہ کے صفحہ پر یوان میں ماہانہ تنخواہیں دی گئی تھیں۔ وہ 1.2 ملین پاکستانی روپے (5,460 ڈالر) سے 3.6 ملین پاکستانی روپے (16,382 ڈالر) تک تھیں۔

پاکستانی کارکنان کی ماہانہ تنخواہ 30,000 پاکستانی روپے (136 ڈالر) سے 625,000 روپے تک تھی۔

حال ہی میں کراچی میں پورٹ قاسم میں چین کی جانب سے تعمیر شدہ کوئلہ سے چلنے والے پاور پلانٹ کو چلانے والی چینی کمپنی ضلع چاغی، صوبہ بلوچستان میں سینڈک میں تانبہ اور سونے کی کان میں اپنے پاکستانی کارکنان پر COVID-19 پر صفر برداشت مسلط کی جا رہی ہے۔

ایک تازہ ترین تفتیش میں کہا گیا ان اقدامات میں جبری لاک ڈاؤن اور خاندانوں سے علیحدہ رکھے جانا شامل ہیں.

چینی رسوخ

اسلام آباد کے ساتھ بیجنگ کے کثیر بلین ڈالر کے بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کے خود غرضانہ معاہدے اور مقامی ملازمین کے ساتھ بدسلوکی نے پاکستان میں احتجاج اور ناراضگی کو بھڑکایا ۔

پاکستان، بطورِ خاص بلوچستان اور سندھ کے صوبوں میں چینی رسوخ میں تیزی سے اضافہ—اور اس کے ساتھ ساتھ چینی کمپنیوں کی جانب سے مقامی افراد پر اثرات کی پروا یا فکر کیے بغیر مقامی وسائل کے استحصال – نے صوبے میں شدید بدامنی پیدا کی ہے۔

بلوچستان میں بڑھتے ہوئے چینی رسوخ پر غم و غصہ نے بلوچ اور سندھی عسکریت پسند تنظیموں کو ایک دوسرے سے اتحاد بنانے کے لیے محرک کیا ہے، جس سے ان خدشات کو ہوا مل رہی ہے کہ یہ متحدہ گروہ خطے میں پرتشدد سرگرمیاں کرے گا ۔

پولیس نے کہا کہ 28 ستمبر کو کراچی میں ایک بندوق بردار نے ایک حملے میں ایک شخص کو قتل کر دیا اور دو دیگر چینیوں کو زخمی کر دیا۔

اپریل کے اواخر میں کراچی میں ریاست کے زیرِ انتظام ایک جامعہ میں ایک خود حملے میں بلوچ راجیہ اجوئی سانگر (بی آر اے ایس) کے ایک جزُ بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے چار افراد کے قتل کی ذمہ داری قبول کی۔

بی ایل اے کے عسکریت پسندوں نے فروری میں بلوچستان کے اضلاع پنجگور اور نوشکی میں فوجی چوکیوں پر دہرے حملے کیے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 2

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

پاکستانی حکومت کو ML-1 ریل پراجیکٹ بنانے سے خود کو دور رکھنا چاہیے۔ یہ بہت پرخطر منصوبہ ہے۔ پاکستان پہلے ہی قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔

جواب

یک طرفہ کہانی، بیکار ہے

جواب