معیشت

کیا چین کی عالمی قرضوں کے بحران کو روکنے کے لیے کوششیں کافی ہیں؟

از پاکستان فارورڈ

شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے سربراہی اجلاس کے لیے 15 ستمبر کو سمرقند، ازبکستان میں صحافی چینی صدر شی جن پنگ کی آمد کی براہِ راست نشریات دیکھتے ہوئے۔ [الیگزینڈر نیمینوف/اے ایف پی]

شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے سربراہی اجلاس کے لیے 15 ستمبر کو سمرقند، ازبکستان میں صحافی چینی صدر شی جن پنگ کی آمد کی براہِ راست نشریات دیکھتے ہوئے۔ [الیگزینڈر نیمینوف/اے ایف پی]

واشنگٹن – امریکی خزانہ کے ایک اعلیٰ اہلکار نے اس ہفتے کہا ہے کہ بطور دنیا کے باضابطہ طور پر سب سے بڑے سرکاری قرض دہندہ، چین کی ذمہ داری ہے کہ وہ یوکرین میں روس کی جنگ سے پیدا ہونے والے نئے بین الاقوامی قرضوں کے بحران کو روکے۔

برنٹ نیمن، جو کہ امریکی وزیر خزانہ جینٹ ییلن کے مشیر ہیں، نے منگل (20 ستمبر) کے روز واشنگٹن ڈی سی میں پیٹرسن انسٹیٹیوٹ فار انٹرنیشنل اکنامکس میں کہا کہ کوویڈ-19 کی عالمی وباء کے بعد اپنی اجتماعی پیداوار میں 2 فیصد کمی کے بعد، ترقی پذیر اور ابھرتی ہوئی منڈیاں سال کے آغاز میں پہلے ہی مشکلات کا سامنا کر رہی تھیں۔

وزارتِ خزانہ کے ایک بیان کے مطابق، انہوں نے کہا، "حکومتوں نے دھچکے سے نمٹنے اور بیماری کے خلاف لڑنے کے لیے مناسب طریقے سے قرض لیا اور خرچ کیا۔ ان کے قرض کی سطح کوویڈ سے پہلے جی ڈی پی کے 54 فیصد سے پچھلے سال کے آخر تک 64 فیصد تک بڑھ گئی"۔

نیمن نے کہا، "اور پھر، اس بڑے خطرے کے وقت، روس نے یوکرین کے خلاف اپنی وحشیانہ اور بلاجواز جنگ شروع کی۔ جنگ کی وجہ سے خوراک اور توانائی کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے اور پوری دنیا میں مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے"۔

انہوں نے کہا کہ یہ حالات بلاشبہ کئی ممالک میں "قرض کی پریشانی" کا باعث بنیں گے۔

انہوں نے سری لنکا کی مثال دی، جو جزوی طور پر چینی قرضوں اور بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کی خرابی کی وجہ سے ایک بڑے سیاسی اور اقتصادی بحران سے گزر رہا ہے.

تجزیہ کار خبردار کرتے ہیں کہ سری لنکا میں سیکھے گئے اسباق چینی قرضے لینے والوں اور چینی بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کے وصول کنندگان کے لیے ایک احتیاطی کہانی فراہم کرتے ہیں -- خاص طور پر وہ جو بیلٹ اینڈ روڈ پہل کاری (بی آر آئی) سے وابستہ ہیں، جسے ون بیلٹ، ون روڈ (او بی او آر) بھی کہا جاتا ہے۔

نیمن نے کہا کہ دنیا کے باضابطہ طو پر سب سے بڑے دو طرفہ قرض دہندہ ہونے کے باوجود، چین نے قرض لینے کے بوجھ کو کم کرنے کے لیے کثیر القومی کوششوں میں شرکت کرنے میں تاخیر کی ہے یا ناکام رہا ہے۔

انہوں نے زور دے کر کہا کہ "قرض دہندہ کے طور پر چین کے بڑے پیمانے کا مطلب ہے کہ اس کی شرکت ضروری ہے۔"

انہوں نے کہا، "ایک حالیہ مطالعے میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ اب تقریباً 44 ممالک چینی قرض دہندگان کو اپنی جی ڈی پی کے 10 فیصد سے زیادہ کے برابر قرض ادا کر رہے ہیں"۔

مجموعی طور پر بقایا چینی سرکاری قرضوں کا تخمینہ – جبکہ شفافیت کی کمی کی وجہ سے غیر یقینی -- تقریباً 500 بلین ڈالر سے لے کر 1 ٹریلین ڈالر تک ہے۔

نیمن نے کہا، "ان قرضوں پر عمل کرنے میں ناکامی کا مطلب ہو سکتا ہے کہ قرضوں کی ادائیگی اور کم سرمایہ کاری اور کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں کم ترقی کے ساتھ جاری مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے"۔

نیمن نے بیجنگ سے مطالبہ کیا کہ وہ امداد فراہم کرنے کی بین الاقوامی کوششوں میں حصہ لینے میں "زبردست تاخیروں" کو ختم کرے۔

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) اور ورلڈ بینک نے بھی ایسی ہی درخواستیں کی ہیں، اب تک کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

پوشیدہ قرضے

جب نیمن کے تبصرے کے متعلق پوچھا گیا تو چینی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وینبن نے الزام کو مسترد کر دیا.

رائٹرز کے مطابق، انہوں کہا، "حالیہ برسوں میں، ترقی پذیر ممالک کے بڑھتے ہوئے قرضے بنیادی طور پر مغربی تجارتی قرض دہندگان اور کثیر الجہت اداروں سے آئے ہیں، اور ترقی پذیر ممالک کے طویل المعیاد قرضوں کی ادائیگی بنیادی طور پر مغربی تجارتی قرض دہندگان اور کثیر الجہت اداروں کو ہوئی ہے"۔

گزشتہ نومبر میں جرنل آف انٹرنیشنل اکنامکس میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق، چین عالمی بینک اور آئی ایم ایف کو پیچھے چھوڑتے ہوئے سنہ 2017 میں دنیا کا سب سے بڑا باضابطہ قرض دہندہ بن گیا تھا۔

محققین نے میکرو اکنامک استحکام کے لیے ان "پوشیدہ قرضوں" کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔

انہوں نے کہا، "چینی حکومت اپنے باضابطہ بین الاقوامی قرضوں کے متعلق نہیں بتاتی اور نہ ہی بقایا بیرون ملک قرضوں کے دعووں کے بارے میں کوئی اعداد و شمار شائع کرتی ہے"۔ ان کا مزید کہنا تھا، "ترقی پذیر ممالک کو چین کے باضابطہ قرضوں کا 50 فیصد سب سے زیادہ استعمال ہونے والے قرضوں کے سرکاری اعداد و شمار میں نہیں بتایا جاتا"۔

عالمی بینک کے مطابق، چین کے سب سے زیادہ قرض خواہ ممالک بنیادی طور پر افریقہ میں واقع ہیں بلکہ وسطی ایشیا، جنوب مشرقی ایشیا اور بحرالکاہل میں بھی ہیں۔

تجزیہ کار بی آر آئی کو شریک ممالک کے لیے چین کے لیے قرض کا ایک بڑا ذریعہ قرار دیتے ہیں۔

فوربز اور سٹیٹسٹا نے اگست میں خبر دی کہ حصہ لینے والے 97 ممالک جن کے سنہ 2020 میں اعداد و شمار دستیاب تھے، میں سے جن پر چین کا سب سے زیادہ قرضہ تھا وہ تمام ممالک بی آر آئی میں شامل تھے۔

مثال کے طور پر پاکستان پر چین کا 77.3 بلین ڈالر کا بیرونی قرضہ تھا، اس کے بعد انگولا (36.3 بلین ڈالر)، ایتھوپیا (7.9 بلین ڈالر)، کینیا (7.4 بلین ڈالر) اور سری لنکا پر 6.8 بلین ڈالر کا چینی قرضہ تھا۔

جبوتی -- بی آر آئی کا ایک بڑا مرکز اور چین کے بیرونِ ملک چند فوجی اڈوں میں سے ایک -- پر مجموعی قومی آمدنی کے فیصد کے طور پر چین کا سب سے زیادہ بیرونی قرضوں کا بوجھ ہے جو کہ 43 فیصد ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500