تجزیہ

دو ہی برسوں میں افغان کئی دہائیوں کی ترقی سے محروم

از حمزہ

19 جولائی کو کابل کے شہرِ نو علاقے میں افغان خواتین ایک بیوٹی سیلون میں اپنے حقوق کے لیے سراپاء احتجاج ہیں۔ [اے ایف پی]

19 جولائی کو کابل کے شہرِ نو علاقے میں افغان خواتین ایک بیوٹی سیلون میں اپنے حقوق کے لیے سراپاء احتجاج ہیں۔ [اے ایف پی]

کابل -- مبصرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ 20 برسوں میں حاصل کردہ افغان اقتصادی، سیاسی اور تعلیمی کامیابیاں گزشتہ دو برسوں میں مٹ چکی ہیں۔

انتظامی سطح پر تزویراتی اقتصادی منصوبہ بندی کا فقدان غربت اور ملک سے مادی اور انسانی اثاثہ جات کے اخراج کا سبب بنا ہے، جس سے افغانستان مسلسل انسانی اور اقتصادی بحران کی حالت میں ہے۔

کابل میں مقیم ایک اقتصادی تجزیہ کار، شاکر یعقوبی نے سلام ٹائمز کو بتایا، "افغانستان میں گزشتہ دو برسوں میں -- خاص طور پر معاشی میدان میں -- مختلف شعبوں میں ترقی اور نشوونما میں گراوٹ اور اس کا تہہ و بالا ہونا دیکھا گیا ہے"۔

یعقوبی نے کہا، "معیشت کو کئی اشاریوں پر سکڑاؤ کا سامنا کرنا پڑا، جبکہ بھوک، غربت، اور بیروزگاری میں نمایاں اضافہ ہوا۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق 2 کروڑ اسی لاکھ سے زائد لوگوں کو انسانی امداد کی ضرورت ہے، اور 60 لاکھ سے زائد دیگر کو قحط کا سامنا ہے"۔

13 اپریل کو کابل میں رمضان کے مقدس مہینے کے دوران افغان خواتین ایک خیراتی ادارے سے مفت روٹی لیتے ہوئے۔ [وکیل کوہسار/اے ایف پی]

13 اپریل کو کابل میں رمضان کے مقدس مہینے کے دوران افغان خواتین ایک خیراتی ادارے سے مفت روٹی لیتے ہوئے۔ [وکیل کوہسار/اے ایف پی]

عالمی بینک کے اندازوں کے مطابق سنہ 2022 میں ملک کی کل آبادی 4 کروڑ 11 لاکھ تھی۔

انہوں نے کہا، "متعدد اقتصادی اور ترقیاتی منصوبے جن کا اطلاق بین الاقوامی برادری کی مالی امداد سے کیا جا رہا تھا ۔۔۔ بجٹ اور گنجائش کی کمی کی وجہ سے یا تو منسوخ یا معطل کر دیے گئے ہیں"۔

ملک کی نشوونما، ترقی اور معاشی بہتری کے لیے کوئی منصوبہ بندی نہیں ہے۔

انہوں نے کہا، "تزویراتی معاشی اور تجارتی پروگراموں کی کمی ۔۔۔ 97 فیصد سے زائد غربت کا باعث بنی ہے۔ سرمایہ کاری اور تجارت میں کمی آئی ہے اور کاروباری اداروں کو ملک سے باہر لے جانے اور بیرون ملک سرمایہ کاری کرنے پر مجبور کر دیا گیا ہے"۔

جرمنی میں مقیم افغانستان ایوانِ تجارت و سرمایہ کاری کے سابق رکن اور اقتصادی تجزیہ کار اضراخش حافظی نے کہا، "گزشتہ دو برسوں میں غربت اور بیروزگاری میں اضافہ ہوا ہے"۔

حافظی نے کہا، "ہم نے غذائیت اور بھوک کی بیمثال سطح دیکھی ہے۔۔۔ اپنے کنبے کا پیٹ پالنے کے لیے لوگوں کو اپنے گردے اور بچوں کو بھی بیچنا پڑا ہے۔ صورتحال اس سے زیادہ خراب نہیں ہو سکتی"۔

"اگر بین الاقوامی امداد نہ ہوتی تو ایک انسانی المیہ لاکھوں جانوں کے نقصان کی صورت [نتیجہ] میں ہو سکتا تھا"۔

حافظی نے کہا، "افغانستان کی جی ڈی پی اور فی کس آمدنی بالترتیب [اگست 2021 سے] 35 اور 50 فیصد تک سکڑ گئی ہے"، حافظی نے مزید کہا کہ قوت خرید میں بھی کمی آئی ہے۔

گم گشتہ کامیابیاں

کابل میں یونیورسٹی کے پروفیسر فہیم چاکری نے سلام ٹائمز کو بتایا کہ اگست 2021 سے بیروزگاری بھی 50 فیصد سے بڑھ کر 74 فیصد ہو گئی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ زیادہ تر تعلیم یافتہ افغان ملک سے فرار ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ صرف گزشتہ دو برسوں میں یونیورسٹی کے چار سو پروفیسر ملک سے فرار ہو چکے ہیں۔

"بدقسمتی سے، آج افغانستان تیزی سے برین ڈرین کے درمیان اپنے مالی اور انسانی اثاثہ جات سے محروم ہو رہا ہے۔ آج کے برعکس، دو برس پہلے، یہ ماہرین افغانستان کی ترقی کے لیے بھرپور کوشش کر رہے تھے"۔

چاکری نے کہا، "ایک ملک نمو اور ترقی تب حاصل کر سکتا ہے جب اس کے پاس ترقیاتی بجٹ ہو۔ موجودہ حکومت کے پاس صرف عملی بجٹ ہے لیکن ترقیاتی منصوبوں کے لیے کوئی بجٹ نہیں ہے"۔

جرمنی میں مقیم ایک یونیورسٹی کے پروفیسر اور سیاسی تجزیہ کار اسحاق اتمر نے کہا کہ دو برس قبل، "سرکاری خدمات باقاعدگی سے فراہم کی جا رہی تھیں، اور ہر افغان مرد اور عورت کو جمہوری عمل میں منتخب ہونے اور منتخب ہونے کا حق حاصل تھا، اور حکومت جوابدہ تھی"۔

اتمر نے کہا، "بدقسمتی سے، آج ایسا نہیں رہا"۔

انہوں نے مزید کہا، "لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کے پاس اپنی تعلیم حاصل کرنے کے تاریخی اور سنہری مواقع تھے جہاں لاکھوں نوجوانوں نے سکولوں اور یونیورسٹیوں میں داخلہ لیا، جبکہ معاشرے کے پڑھے لکھے افراد کی تعداد میں زبردست اضافہ ہوا"۔

"ہمارے معاشرے میں ایک بیمثال اور تاریخی تبدیلی رونما ہوئی، لیکن آج ہم اسے الٹ جاتا ہوا دیکھ رہے ہیں، اور ہماری تمام تاریخی اور سنہری کامیابیاں ضائع ہو گئی ہیں"۔

سب سے زیادہ نقصان خواتین نے اٹھایا ہے۔

حقوقِ نسواں کی کارکن اور ترکی میں مقیم اعلیٰ تعلیم کی سابق نائب وزیر، ثریا پیکان، نے کہا، "پچھلی دو دہائیوں میں [اگست 2021 سے پہلے]، افغان خواتین کو پہلی بار اپنے فطری، انسانی اور اسلامی حقوق تک رسائی حاصل ہوئی تھی"۔

"افغان خواتین اور لڑکیوں کو تعلیم اور کام کا حق دیا گیا ۔۔۔ 1 کروڑ سے زائد لڑکے اور لڑکیاں سکول گئے، اور ہزاروں لڑکیاں یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہوئیں"۔

انہوں نے کہا، "افغان خواتین اور لڑکیوں کی معاشرے میں نمایاں موجودگی تھی اور انہیں وزیر، گورنر، میئر، نائب وزیر، ڈائریکٹر اور جج مقرر کیا گیا اور پارلیمنٹ کے لیے [منتخب] کیا گیا، لیکن بدقسمتی سے، گزشتہ دو برسوں میں تاریخ نے اپنے آپ کو دہرایا اور تمام خواتین کی کامیابیاں ضائع ہوگئیں"۔

پیکان نے کہا کہ آج، افغان لڑکیاں تعلیم کے حق سے محروم ہیں، انہیں گھر میں الگ تھلگ کر دیا اور پھنسا دیا گیا ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500