معیشت

غربت، ذہانت کا انخلاء افغانستان کے لیے سنگین مسائل کا سبب

از سلیمان

4 جنوری کو کابل میں شدید برف باری کے دوران ایک شخص ایک بچے کو پکڑے ہوئے ہے جبکہ ایک بازار میں دکاندار گاہکوں کے انتظار میں ہیں۔ [محمد رسفان/اے ایف پی]

4 جنوری کو کابل میں شدید برف باری کے دوران ایک شخص ایک بچے کو پکڑے ہوئے ہے جبکہ ایک بازار میں دکاندار گاہکوں کے انتظار میں ہیں۔ [محمد رسفان/اے ایف پی]

کابل -- بیروزگاری، غربت اور غیر یقینی حالات تعلیم یافتہ اور پیشہ ور افغانوں -- جو اقتصادی اور سماجی ترقی کی ریڑھ کی ہڈی ہیں -- کو ملک چھوڑنے پر مجبور کر رہے ہیں۔

منگل (4 جنوری) کو اقوام متحدہ (یو این) نے خبردار کیا ہے کہ افغانستان میں سخت سردی پہلے ہی ملک بھر میں لاکھوں افراد کو درپیش سنگین حالات کو مزید خراب کر رہی ہے۔

ایک بیان میں اقوام متحدہ کا کہنا تھا کہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد فراہم کرنے والے ساتھی امداد اور اشیائے ضروریات فراہم کرنے کے لیے وقت کے ساتھ دوڑ لگا رہے ہیں۔

اقوام متحدہ کے ترجمان اسٹیفن دوجیرک نے کہا، "دسمبر کے دوران، ہمارے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کام کرنے والے ساتھی ملک بھر میں امدادی اشیائے خوردونوش لے کر سات ملین افراد تک پہنچ چکے ہیں"۔

23 دسمبر کو قندھار میں افغان باشندے عالمی خوراک پروگرام (ڈبلیو ایف پی) کے ارکان کی جانب سے ضرورت مند خاندانوں میں تقسیم کیے جانے والے کھانے کے پیکٹوں کے ساتھ بیٹھے ہیں۔ [جاوید تنویر/اے ایف پی]

23 دسمبر کو قندھار میں افغان باشندے عالمی خوراک پروگرام (ڈبلیو ایف پی) کے ارکان کی جانب سے ضرورت مند خاندانوں میں تقسیم کیے جانے والے کھانے کے پیکٹوں کے ساتھ بیٹھے ہیں۔ [جاوید تنویر/اے ایف پی]

ان کا کہنا تھا، "ملک کے مختلف حصوں میں نقدی اور غیر-غذائی اشیاء سمیت سرمائی امداد کی فراہمی بھی جاری ہے۔"

یہاں تک کہ سردیوں کے آغاز سے قبل ہی اقوام متحدہ کے حکام نے افغانستان میں 23 ملین افراد کو بھوک کا سامنا کرنے کے بارے میں خبردار کیا تھا جو کہ آبادی کا نصف سے زیادہ حصہ بنتا ہے۔

کابل میں یونیورسٹی کے پروفیسر اور سیاسی تجزیہ کار ڈاکٹر فہیم چکری نے سلام ٹائمز کو بتایا، "عالمی خوراک پروگرام (ڈبلیو ایف پی) کے مطابق، 98 فیصد افغانوں کے پاس کھانے کے لیے کافی خوراک نہیں ہے اور انہیں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کی اشد ضرورت ہے۔"

"اقوام متحدہ کے مختلف اداروں اور مخیر ممالک نے مختلف صوبوں میں لوگوں میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد تقسیم کی ہے، جو کہ اچھی بات ہے لیکن یہ کافی نہیں ہے اور یہ صرف قلیل مدتی حل فراہم کرتی ہے۔"

چکری نے کہا، "اقوام متحدہ اور دیگر مخیر اداروں اور ممالک سے ہماری درخواست ہے کہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد میں اضافہ کریں... فوری اقدام کے طور پر، اور پھر بیروزگاری اور غربت کے طویل مدتی حل تلاش کرنے کی کوشش کریں۔"

روزگار کی تلاش میں

ایسی مشکلات کا مطلب یہ ہے کہ تعلیم یافتہ افغان ملک چھوڑنے کے خواہاں ہیں۔

45 سالہ مراد نوری کئی سال تک حکومت میں کام کرنے کے بعد اگست میں اپنی ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

انہوں نے سلام ٹائمز کو بتایا، "میں اپنے آٹھ نفوش پر مشتمل کنبے کا واحد کفیل ہوں۔ لیکن بدقسمتی سے، میں اپنی ملازمت -- جو میری آمدنی کا واحد ذریعہ ہے -- سے محروم ہو گیا ہوں اور آج میں اپنے خاندان کے لیے روٹی کا ایک لقمہ بھی نہیں خرید سکتا۔"

نوری، جس نے تجارتی انتظام میں ماسٹرز کیا ہے نے کہا، "میں نے 18 سال تعلیم حاصل کرتے ہوئے گزار دیئے۔ مجھے سرکاری اداروں میں کام کرنے کا کئی دہائیوں کا تجربہ ہے۔ میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ایک دن مجھے اتنی غربت اور معاشی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا یا میں ملک سے فرار ہونے کا ارادہ کروں گا"۔

انہوں نے کہا، "بیروزگاری، غربت، بھوک اور معاشی مسائل نے اب مجھے ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا ہے۔ میں اپنے خاندان کے لیے روزی روٹی کی تلاش میں پاکستان، ایران یا کسی اور ملک جانے کا ارادہ رکھتا ہوں۔"

نوری نے مزید کہا، "میں جانتا ہوں کہ میرے ملک کو مجھ جیسے لوگوں کی ضرورت ہے، لیکن مجھے غربت اور بھوک سے بچنے کے لیے یہاں سے لازمی جانا ہو گا۔"

33 سالہ ناصر عمر پیشے کے لحاظ سے صحافی ہیں۔ حال ہی میں وہ اپنی ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور اب وہ کابل میں گلیوں گلیوں پھر کر اشیاء فروخت کرتے ہیں۔

عمر نے سلام ٹائمز کو بتایا، "میں نے پولیٹیکل سائنس میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی ہوئی ہے اور سنہ 2009 سے لے کر چند ماہ قبل تک افغانستان میں مختلف خبر رساں اداروں کے لیے بطور رپورٹر کام کیا ہے۔ اب میرے پاس نوکری نہیں ہے اور مجھے اپنے خاندان کے لیے روزی کمانے کی خاطر کابل کی سڑکوں پر سامان بیچنا پڑتا ہے۔"

انہوں نے کہا، "تقریباً 85 فیصد صحافی اپنی ملازمتوں سے محروم ہو چکے ہیں اور معاشی مشکلات کا شکار ہیں۔"

"کچھ رپورٹوں کی بنیاد پر، 5,000 سے 6,000 افغان صحافی اور ذرائع ابلاغ کے ملازمین اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور ان کی کوئی آمدن نہیں ہے۔"

انہوں نے مزید کہا کہ اگر بین الاقوامی برادری نے افغانستان کی مدد نہ کی تو یہاں ایک بیمثال انسانی بحران دیکھنے کو ملے گا۔

ذہانت کا انخلاء

کابل میں ایک اقتصادی تجزیہ کار محمد شبیر بشیری نے کہا، "ملک میں حالیہ پیشرفت کی وجہ سے لاتعداد افغانوں نے اپنی ملازمتیں کھو دی ہیں، جس سے لاکھوں لوگوں کو غربت اور بھوک کی طرف دھکیل دیا گیا ہے۔"

بشیری نے کہا کہ نقل مکانی اور ذہین لوگوں کا انخلاء ملک میں بیروزگاری کے خطرناک، منفی نتائج میں سے ہیں۔

"بدقسمتی سے، افغانستان اپنے دانشورانہ اثاثوں کو کھو رہا ہے۔ جب تک غربت اور ذہانت کے انخلاء کے رجحان کو تیزی سے تبدیل نہیں کیا جاتا، ہم انسانی وسائل کے بحران اور مزید معاشی بدحالی دیکھیں گے۔"

"بعض ذرائع کے مطابق، افغانستان میں غربت کی شرح 97 فیصد تک پہنچ گئی ہے، جو انسانی بحران کی گہرائی کو نمایاں کرتی ہے۔"

انہوں نے مزید کہا کہ "اگر عالمی برادری فوری طور پر انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد فراہم نہیں کرتی تو بہت سے افغان بھوک سے مر جائیں گے۔"

سوئٹزرلینڈ میں مقیم افغان یونیورسٹی کے پروفیسر جاوید سنگدل نے سلام ٹائمز کو بتایا، "ترقی یافتہ ممالک اپنی کامیابیوں کا سہرا اپنی اشرافیہ کی محنت اور کوششوں کے سر باندھتے ہیں۔"

"ان ممالک اور ان کے عوام نے آج جو خوشحالی اور معاشی کامیابی حاصل کی ہے وہ ان کے تعلیم یافتہ طبقے اور دیگر پیشہ ور افراد کی محنت کا نتیجہ ہے۔"

سنگدل نے کہا، "لیکن بدقسمتی سے، افغانستان کے موجودہ حالات نے تعلیم یافتہ نوجوانوں اور اشرافیہ کو ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا ہے، جس کے افغانستان کے لیے منفی نتائج برآمد ہوں گے۔"

تعلیم یافتہ افراد باالخصوص نوجوان فکری اثاثے، سماجی ترقی کی ریڑھ کی ہڈی اور معاشی ترقی کے اہم محرک ہیں۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان سے ان کی مسلسل روانگی سے ملک کی معیشت اور ترقی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔

سنگدل نے مزید کہا، "دائمی بیروزگاری اور غربت بیروزگار اور غریب نوجوانوں کو دہشت گرد اور جرائم پیشہ گروہوں میں شامل ہونے پر مجبور کر دے گی، جو مستقبل میں افغانستان کی سلامتی اور استحکام کے لیے خطرہ ہوں گے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500