ہرات، افغانستان -- افغانستان میں گزشتہ ایک سال کے دوران بڑھتی ہوئی غربت اور بھوک کے دوران، اقوام متحدہ (یو این) کا ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) ان افغان خاندانوں کی مدد کر رہا ہے جنہیں سنگین حالات کا سامنا ہے۔
متعدد ممالک اور بین الاقوامی امدادی تنظیموں کی مدد سے، ڈبلیو ایف پی نے گزشتہ اگست سے اب تک افغانستان کے مغربی علاقے میں 2.5 ملین غریب افراد کو نقد رقم اور خوراک کی امداد فراہم کی ہے۔
مغربی علاقے میں ڈبلیو ایف پی کے دفتر کے ڈائریکٹر عبدالقدیر عاصمی، نے کہا کہ "ہماری امداد جاری رہے گی، اور غریب خاندانوں کو ماہانہ نقد رقم اور خوراک کی امداد اس وقت تک ملتی رہے گی جب تک انہیں ضرورت ہو گی"۔
"ہماری ٹیمیں غریب خاندانوں کی نشاندہی کرنے اور انہیں ہمارے پروگرام میں شامل کرنے کے لیے فیلڈ میں کام کرتی ہیں۔"
انہوں نے کہا کہ "ہم تو اگلے موسم سرما کے لیے بھی تیار ہیں۔ ہزاروں ٹن کھانے پینے کی اشیاء کو وقت سے پہلے ہی ان علاقوں میں منتقل اور ذخیرہ کر لیا گیا ہے جو برف اور بارش کی وجہ سے موسم سرما میں ناقابل رسائی ہو جاتے ہیں۔"
ڈبلیو ایف پی 2021 کے آغاز سے افغانستان کے 15 ملین ضرورت مند باشندوں میں نقد رقم اور خوراک کی امداد تقسیم کر رہا ہے، جن میں 500,000 سے زیادہ حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین اور 5 سال سے کم عمر کے 10 لاکھ سے زیادہ ایسے بچے شامل ہیں جو غذائی قلت کا شکار ہیں یا اس کے خطرے میں ہیں۔
امریکہ، کینیڈا، یورپی یونین، آسٹریلیا، جاپان، جنوبی کوریا، فرانس، سوئٹزرلینڈ، ناروے اور نیدرلینڈز ڈبلیو ایف پی کے ذریعے افغانستان کو امداد بھیج رہے ہیں، جو کہ گزشتہ چھ دہائیوں سے ملک میں کام کر رہا ہے اور اس کے شہریوں کو خوراک کی امداد فراہم کر رہا ہے۔
ڈبلیو ایف پی کے امدادی بنڈلوں میں وٹامن سے بھرپور آٹا اور تیل، چنے اور نمک شامل ہیں۔ دودھ پلانے والی خواتین اور ان کے بچوں کو اضافی غذائیت سے بھرپور خوراک بھی فراہم کی جاتی ہے۔
زندگی بچانے والی امداد
افغانستان سے تعلق رکھنے والے بہت سے ضرورت مند خاندانوں کا کہنا ہے کہ ڈبلیو ایف پی سے ملنے والی ماہانہ خوراک کی امداد سے انہیں معمول کی زندگی کی طرف واپس آنے میں مدد ملی ہے۔
چار بچوں کی ماں 40 سالہ شیریں گل صوفی زادہ دو سال قبل ہرات شہر میں ایک دھماکے میں اپنے شوہر سے محروم ہوگئیں۔ وہ اس وقت ہرات شہر میں ایک سرکاری دفتر میں کام کرتی تھیں لیکن گزشتہ اگست سے وہ بے روزگار ہیں۔
صوفی زادہ جنہوں نے 24 جولائی کو ہرات شہر میں ڈبلیو ایف پی کے دفتر سے امداد حاصل کی کہا کہ "میں بے روزگار ہوں اور مدد پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہوں۔"
انہوں نے کہا کہ "میں نہیں جانتی کہ اگر یہ امداد نہ ہوتی تو میں اپنے چار بچوں کے ساتھ کیسے زندہ رہتی۔ مجھے وقت پر امداد ملتی ہے اور یہ مجھے بھوک سے بچاتی ہے۔"
انہوں نے کہا کہ مجھے امداد ملنے سے پہلے، میرے بچے خالی پیٹ سوتے تھے اور وہ اکثر رات کو روتے تھے۔ ہمارے پاس کھانے کو کچھ نہیں تھا اور ہمارے پڑوسی بھی ماضی کی طرح مدد نہیں کر سکتے تھے۔"
دیہاڑی دار مزدو محمد طاہر عثمانی جن کی عمر 35 سال ہے، ایک سال سے ڈبلیو ایف پی کی امداد وصول کرنے والے ہیں اور ہر دو ماہ بعد خوراک کی امداد وصول کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وہ سات افراد پر مشتمل خاندان کے واحد کفیل ہیں اور یہ امداد ان کے خاندان کا پیٹ پالنے کے لیے کافی ہے۔
انہوں نے کہا کہ "میں روزانہ مزدوری کے لیے مقررہ علاقے میں جاتا ہوں، لیکن وہاں کوئی کام نہیں ہوتا۔ میں نے پچھلے سال میں ایک ہفتہ بھی کام نہیں کیا ہے۔ میں اس مدد کے بغیر گزر بسر نہ کر پاتا"۔
عثمانی نے کہا کہ "ہم چاہتے ہیں کہ بین الاقوامی امداد جاری رہے۔ افغانستان میں کوئی کام نہیں ہے اور معیشت دن بدن خراب ہوتی جا رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے امدادی بنڈلوں کے بغیر، لوگوں کی اکثریت اپنی جانیں گنوا بیٹھے گی۔"
سیما گل جن کی عمر 40 سال ہے، کے شوہر بھی دیہاڑی دار مزدور ہیں۔ وہ پانچ بچوں کی ماں ہیں، جن میں سے دو فالج کا شکار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان کا شوہر کام کی تلاش میں روزانہ شہر جاتا ہے لیکن خالی ہاتھ واپس آتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ ایک سال کے دوران انہیں پانچ بار خوراک کی امداد ملی ہے اور اس امداد نے ان کی جانیں بچائی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم یہ امداد حاصل کرنے سے پہلے ہفتے میں ایک بار بھی کھانا نہیں پکاتے تھے۔ "کچھ راتوں میں، میں اپنے بچوں کو چائے کے ساتھ روٹی کھلاتی اور کچھ راتیں وہ بھوکے سوتے تھے۔"
اہم انسانی امداد
اقوام متحدہ کے ریزیڈنٹ اور انسانی ہمدردی کی امداد کے کوآرڈینیٹر اور افغانستان کے لیے نائب خصوصی نمائندے رمیز الکباروف نے مارچ میں کہا کہ حیرت انگیز طور پر 95 فیصد افغانوں کو کھانے کے لیے کافی نہیں مل رہا ہے اور وہ "مایوس کن " اقدامات اٹھانے پر مجبور ہیں تاکہ اپنے خاندان کو کھانا مہیا کر سکیں۔
خواتین کی زیرِکفالت چلنے والے گھرانوں کے لیے، یہ تعداد تقریباً 100 فیصد ہے۔
افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن (یو این اے ایم اے) کے نائب سربراہ کے طور پر کام کرنے والے الاکبروف نے کہا کہ "یہ اعداد و شمار اتنے زیادہ ہیں کہ انہیں سمجھنا تقریباً ناممکن ہے۔ پھر بھی، تباہ کن طور پر، یہ ایک تلخ حقیقت ہے۔"
اگرچہ مزید امداد کی ضرورت ہے مگر ڈبلیو ایف پی کی امداد نے لاکھوں لوگوں کو شدید بھوک سے بچایا ہے۔
ہرات کی شوریٰ کونسل کے چیئرمین محمد رفیق شہیر نے کہا کہ بین الاقوامی برادری کی انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مہیا کی جانے والی امداد کے بغیر، لاکھوں افغان ہمسایہ ممالک کی طرف ہجرت کر جانے پر مجبور ہو چکے ہوتے۔
انہوں نے کہا کہ "معاشی بحران کے علاوہ، خشک سالی نے اضلاع اور دیہاتوں میں لاکھوں افراد کو متاثر کیا ہے۔ ہزاروں افغان اپنی ملازمتوں سے محروم ہو چکے ہیں، ان کے پاس کوئی آمدنی نہیں ہے اور وہ بین الاقوامی امداد پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں۔"
انہوں نے کہا کہ انسانی ہمددری کی بنیاد پر فراہم کی جانے والی بین الاقوامی امداد انتہائی دور دراز علاقوں میں ضرورت مندوں تک پہنچتی ہے اور انہیں نقل مکانی سے بچنے میں مدد دیتی ہے۔ اگر ایسی امداد فراہم نہ کی گئی تو ہزاروں دیہاتی خشک سالی کی وجہ سے چھوڑ کر شہروں میں چلے جائیں گے۔"
شہیر نے کہا کہ بین الاقوامی برادری کی طرف سے مہیا کی جانے والی نقد اور خوراک کی امداد کی اشد ضرورت ہے اور اسے جاری رہنا چاہیے۔
ہرات میں انسانی حقوق کے ایک کارکن عبدالقادر رحیمی نے کہا کہ افغانستان میں سیاسی اور اقتصادی بحران نے باشندوں کو ان کے خوراک کے حق سے محروم کر دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ "اس وقت سرکاری خدمات تقریباً نہ ہونے کے برابر ہیں اور افغان شہری نے اپنی آمدنی کا ذرائع سے محروم ہو چکے ہیں۔ اس بحران کے دوران، بین الاقوامی امداد نے واقعی ان کی جان بچائی ہے۔"