سلامتی

ایرانی پشت پناہی سے پاکستان میں عسکریت پسندی جاری جس میں سے کچھ افغانستان بھی منتقل

از زرک خان

سنہ 2019 میں ایران کی سپاہِ اسلامی پاسدارانِ انقلاب (آئی آر جی سی) کی جانب سے شام میں جنگ لڑتے ہوئے مارے جانے والے ایک پاکستانی کے ایران میں جنازے کے دوران، جنازے میں شریک افراد زینبیون بریگیڈ کا پرچم اٹھائے ہوئے ہیں۔ [ایرانی وزارتِ دفاع]

سنہ 2019 میں ایران کی سپاہِ اسلامی پاسدارانِ انقلاب (آئی آر جی سی) کی جانب سے شام میں جنگ لڑتے ہوئے مارے جانے والے ایک پاکستانی کے ایران میں جنازے کے دوران، جنازے میں شریک افراد زینبیون بریگیڈ کا پرچم اٹھائے ہوئے ہیں۔ [ایرانی وزارتِ دفاع]

کراچی -- کراچی میں تہران کی پشت پناہی کی حامل ایک دہشت گرد تنظیم کے ساتھ منسلک ایک ملزم دہشت گرد کی حالیہ گرفتاری تازہ ترین ثبوت ہے کہ ایران پاکستان میں اپنی تخریبی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔

کراچی پولیس کے شعبۂ انسدادِ دہشت گردی (سی ٹی ڈی) نے 5 اگست کو ایک مضافاتی علاقے عائشہ منزل میں، سید علی رضا نقوی کی گرفتاری کا اعلان کیا، جو کہ مبینہ طور پر سپاہِ محمد پاکستان (ایس ایم پی)کا رکن ہے۔

ایس ایم پی ایک شیعہ دہشت گرد تنظیم ہے جسے ایرانی حکومت کی جانب سے مدد اور پیسہ ملتا ہے۔

سی ٹی ڈی کے ایک افسر، اسرار اعوان کے مطابق، نقوی گزشتہ تین دہائیوں سے کراچی میں مخالف سُنی فرقے کے علمائے دین اور ارکان کے قتلوں میں ملوث رہا ہے۔

5 اگست کو کراچی پولیس نے کالعدم قرار دی گئی ایران کے ساتھ منسلک ایک دہشت گرد شیعہ تنظیم، سپاہِ محمد پاکستان کے ایک گرفتار شدہ مشتبہ رکن کی تصویر جاری کی، جو مبینہ طور پر مخالف فرقوں کے افراد کے قتلوں میں ملوث تھا۔ [کراچی پولیس]

5 اگست کو کراچی پولیس نے کالعدم قرار دی گئی ایران کے ساتھ منسلک ایک دہشت گرد شیعہ تنظیم، سپاہِ محمد پاکستان کے ایک گرفتار شدہ مشتبہ رکن کی تصویر جاری کی، جو مبینہ طور پر مخالف فرقوں کے افراد کے قتلوں میں ملوث تھا۔ [کراچی پولیس]

8 اگست کو پولیس کی کاریں کراچی کی سڑکوں پر گشت کرتے ہوئے۔ بین الاقوامی اتحادی افواج کے افغانستان سے انخلاء پر ممکنہ دفاعی خطرات سے نمٹنے کی ایک کوشش کے جزو کے طور پر، پاکستانی حکام دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کارروائیوں میں اضافہ کر رہے ہیں۔ [زرک خان/پاکستان فارورڈ]

8 اگست کو پولیس کی کاریں کراچی کی سڑکوں پر گشت کرتے ہوئے۔ بین الاقوامی اتحادی افواج کے افغانستان سے انخلاء پر ممکنہ دفاعی خطرات سے نمٹنے کی ایک کوشش کے جزو کے طور پر، پاکستانی حکام دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کارروائیوں میں اضافہ کر رہے ہیں۔ [زرک خان/پاکستان فارورڈ]

ان کا کہنا تھا کہ فروری 1995 میں ہونے والے ایک حملے میں، نقوی اور اس کے ساتھی دہشت گردوں نے کراچی کے علاقے خواجہ اجمیر نگری میں باب الاسلام مسجد میں نمازِ مغرب ادا کر رہے نمازیوں پر فائر کھول دیا تھا جس سے نو افراد جاں بحق اور ایک درجن سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔

اعوان کا کہنا تھا، "گرفتار دہشت گرد ایک کالعدم تنظیم ایس ایم پی کے ساتھ منسلک ہے اور بشار الاسد کی حکومت کی جانب سے شام میں لڑنے کے لیے بھیجے گئے پاکستانیوں پر مشتمل ایک ملیشیا، زینبیون بریگیڈ کے جنگجوؤں کے ساتھ رابطے میں رہا ہے۔

جنوری میں امریکی وزارتِ خزانہ نے "ان غیر قانونی حلقوں، جنہیں [ایرانی] حکومت پوری دنیا میں دہشت گردی اور بدامنی پھیلانے کے لیے استعمال کرتی ہے، کو بند کرنے" کی کوششوں کے جزو کے طور پر زینبیون بریگیڈ کے خلاف پابندیاں عائد کر دی تھیں۔

اعوان نے مزید کہا کہا نقوی ماضی میں کئی ممالک بشمول ایران، عراق اور شام کا سفر کر چکا ہے۔

تہران کی زیرِ کفالت دہشت گردی

تازہ ترین گرفتاریاں اس وقت سامنے آئی ہیں جب پاکستانی حکام نے ہمسایہ ملک افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلاء سے پیدا ہونے والے ممکنہ دفاعی خطرات سے نمٹنے کی ایک کوشش کے جزو کے طور پر دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کارروائیوں میں اضافہ کیا ہے۔

کریک ڈاؤن میں سُنی دہشت گرد گروہوں -- جیسے کہ تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، القاعدہ اور "دولتِ اسلامیہ عراق و شام" (داعش) -- اور شیعہ دہشت گرد گروہوں جیسے کہ سپاہِ محمد پاکستان اور زینبیون بریگیڈ، دونوں کے ارکان گرفتار ہوئے ہیں۔

پاکستانی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مطابق، ایسی دہشت گرد شیعہ تنظیموں کو خطے میں ایرانی اثر و رسوخ کو وسیع کرنے کی ایک کوشش کے جزو کے طور پر تہران کی پشت پناہی حاصل ہے۔

جون میں سی ٹی ڈی نے اپنی کی تجدیدی شکل شائع کی تھی، جس میں مطلوب دہشت گردوں اور عسکریت پسند ملزمان کی فہرست ہے، اس میں سپاہِ محمد پاکستان کے 24 ارکان اور زینبیون بریگیڈ کے چار عسکریت پسندوں کے نام شامل ہیں۔

جنوری کے آخر میں، ایک چھاپے کے دوران کراچی کی سی ٹی ڈی نے عباس جعفری کو گرفتار کیا تھا، جو کہ زینبیون بریگیڈ کا "انتہائی مطلوب" ملزم عسکریت پسند

پولیس کا کہنا ہے کہ جعفری، کراچی میں دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے جاسوسی کرنے کے علاوہ، مبینہ طور پر شیعہ نوجوانوں کو بھرتی کرنے اور انہیں سپاہِ اسلامی پاسدارانِ انقلاب (آئی آر جی سی) کی ہدایات کے مطابق جنگوں میں لڑنے کے لیے بیرونِ ملک بھیجنے میں بھی ملوث تھا۔

دسمبر کے اوائل میں، سی ٹی ڈی نے اعلان کیا تھا کہ اس نے کراچی میں زینبیون بریگیڈ کے دو اور مشتبہ ارکان کو گرفتار کیا ہے جن کا تعلق گزشتہ چھ برسوں سے میں ہونے والے قتلوں کے سلسلے سے ہے۔

اگست 2020 میں، حکومتِ پاکستان نے ایک کم معروف شیعہ تنظیم خاتم الانبیاء(کے یو اے) پر پابندی عائد کی تھی جس پر پاکستان میں فرقہ واریت کو ہوا دینے اور نوجوانوں کو لڑنے کے لیے ملک سے باہر بھیجنے کا الزام تھا۔

ایران-طالبان گٹھ جوڑ

ہمسایہ ملک افغانستان میں، ایران کا غیر ملکی افواج کے انخلاء پر اپنی مداخلت میں اضافہ کرنا اور طالبان کی پرتشدد کارروائیوں میں اضافہ ہونا متوقع ہے.

افغان قانون سازوں کے مطابق، ایرانی حکومت نے طالبان کو وسیع عسکری معاونت فراہم کی تھی جس نے انہیں جون میں ایرانی سرحد سے متصل تین اضلاع پر قبضہ کرنے کے قابل بنایا۔

بدلے میں، طالبان افغانستان کے اندر اپنے قبضے میں موجود علاقوں میں ایرانی دہشت گرد تنظیم جیش العدل کے ارکان کو ہلاک کرنے میں تہران کی مدد کر رہے ہیں۔

سنہ 2021 میں بننے والی، جیش العدل ایک سُنی تنظیم ہے جس نے جنوبی صوبے سیستان و بلوچستان میں ایرانی ایلیٹ دستوں کو اغواء کرنے اور وہاں بم دھماکے کرنے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ وہ سُنی مسلمانوں اور نسلی بلوچوں کے خلاف ایرانی امتیاز کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے.

جولائی 2019 میں امریکہ نے جیش العدلکو بطور ایک دہشت گرد گروہ کالعدم قرار دے دیا تھا۔

جیش العدل کے ایک رہنماء نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ گزشتہ ہفتے، طالبان نے پاکستان اور ایران کے ساتھ متصل افغانی صوبے ہلمند کے ایک علاقے میں گروپ کے پانچ افراد کو ہلاک کر دیا تھا، جن میں ایک اہم رہنماء حاجی زاہد ناروزئی بھی شامل تھا۔

جیش العدل کے ارکان کی ایک ٹیم، عمیر ناروزئی کی سربراہی میں، 6 اگست کو کچھ عرصہ قبل طالبان کے ہاتھوں گرفتار ہونے والے تنظیم کے دو ارکان کی رہائی کے لیے مقامی طالبان رہنماؤں کے ساتھ گفت و شنید کرنے کے لیے افغانستان میں ایک سرحدی شہر کو جا رہی تھی۔

جیش العدل کے رہنماء نے کہا، لیکن اپنی منزل پر پہنچنے سے کچھ ہی دیر پہلے، طالبان نے ان پر فائر کھول دیا جس سے عمیر سمیت پانچوں ارکان ہلاک ہو گئے۔

ان کا کہنا تھا، "طالبان افغانستان میں علاقہ حاصل کرنے میں حالیہ تعاون کے بعد محض تہران کی خوشنودی کے لیے جیش العدل کے ارکان کو مار رہے ہیں۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500