سلامتی

'ایران سے منصوبہ بندی کردہ' حملے میں بلوچ جنگجوؤں نے 5 پاکستانی سپاہیوں کو ہلاک کر دیا

از عبدالغنی کاکڑ

براس کی جانب سے فروری 19 میں جاری کردہ اس فوٹو میں بلوچ جنگجوؤں کو سرحد پار سے ایک حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ کرنے کے جزو کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے جس میں پانچ پاکستانی سپاہی جاں بحق ہوئے تھے۔ [تصویر بشکریہ عبدالغنی کاکڑ]

براس کی جانب سے فروری 19 میں جاری کردہ اس فوٹو میں بلوچ جنگجوؤں کو سرحد پار سے ایک حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ کرنے کے جزو کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے جس میں پانچ پاکستانی سپاہی جاں بحق ہوئے تھے۔ [تصویر بشکریہ عبدالغنی کاکڑ]

کوئٹہ -- منگل (18 فروری) کی شام کو بلوچستان کے ضلع تربیت میں ایک نیم عسکری کیمپ پر بلوچ جنگجوؤں نے حملہ کیا، جس میں کم از کم پانچ دفاعی اہلکار جاں بحق اور دیگر تین زخمی ہو گئے۔

بلوچ راجی آجوئی سانگر(براس)، جو کہ جنگجوؤں کا ایک حفاظتی گروہ ہے، نے اس کی ذمہ داری قبول کی۔

تربت کے مقامی ایک اعلیٰ دفاعی اہلکار، سہیل انجم نے کہا، "10 سے زائد حملہ آوروں نے جدید ترین ہتھیاروں سے دو مختلف اطراف سے کیمپ کو نشانہ بنایا۔"

ان کا کہنا تھا کہ اس کے بعد، جنگجو "جائے وقوعہ سے ایران کے ساتھ ملحقہ علاقے کی طرف فرار ہو گئے"، ان کا مزید کہنا تھا کہ فوج نے تلاش کا ایک آپریشن شروع کر دیا ہے۔

انجم نے کہا، "تربت بلوچستان کا بہت زیادہ شورش زدہ علاقہ ہے، اور ہمارے پاس اطلاعات ہیں کہ اس حملے میں ایران کی پشت پناہی شامل تھی اور یہ کہ حملہ آوروں کو مقامی افراد نے ایران کے ساتھ ملحقہ علاقے میں دیکھا تھا۔"

انجم کے مطابق، حکام نے تربیت میں حفاظتی انتظامات سخت کر دیئے ہیں اور مکران ڈویژن میں تمام داخلی اور خارجی راستوں پر اضافی نفری تعینات کر دی ہے۔

انہوں نے مزید کہا، "جنگجو گروپ براس بلوچستان میں ترقی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو سبوتاژ کرنا چاہتا ہے"۔

براس چار کالعدم تنظیموں -- بلوچستان لبریشن آرمی، بلوچ لبریشن فرنٹ، بلوچ ریپبلکن آرمی اور بلوچ ریپبلکن گارڈز -- پر مشتمل ہے۔

یہ گروہ گزشتہ اپریل میں ضلع گوادر کے علاقے ارمارا میں ایک بس پر حملےکا ذمہ دار تھا جس میں پاکستانی بحریہ اور کوسٹ گارڈ کے 14 اہلکار جاں بحق ہو گئے تھے۔

ایرانی معاونت

پاکستانی دفاعی اور خفیہ اداروں کے اہلکاروں کا کہنا ہے کہ ایرانی حکومت خود کو پاکستان کا اتحادی ظاہر کرنے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے مگر جنگجو گروہوں کی پشت پناہی کرتے ہوئے ملک کی سلامتی کو خطرے میں ڈالناجاری رکھے ہوئے ہے۔

کوئٹہ کے مقامی سیاسی امور کے ایک سینیئر تجزیہ کار، عبدالقیوم وکیل نے کہا کہ ایرانی حکومت اپنے تزویراتی مفادات کے لیے بلوچستان میں عسکریت پسندی کو ہوا دے رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا، "ایران دو طرفہ مشغولیت کی شرائط کی کھلے عام خلاف ورزی کر رہا ہے، اور ایسے سرحد پار سے حملے ہماری قومی سلامتی کے خلاف ایران کے منصوبوں کو مزید ننگا کر رہے ہیں۔"

انہوں نے کہا کہ ایرانی اور دیگر جارحانہ حکومتوں کے ساتھ منسلک جنگجو بلوچستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری پر حملوں کی پشت پر ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا، "مقامی معاونت کے بغیر، جنگجو ہمارے سرحدی علاقوں کے شورش زدہ حصوں میں ایسا کوئی حملہ نہیں کر سکتے تھے۔۔۔ مقتدر حلقوں کے لیے یہ وقت کی ضرورت ہے کہ بلوچستان میں قوم پرست جماعتوں کے غیر ملکی سرمایہ کاری پر تحفظات پر توجہ دیں"۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان کی صورتحال روز بروز خراب ہو رہی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا، "اہم ترین بات یہ کہ، امن کو اس وقت تک یقینی نہیں بنایا جا سکتا جب تک کہ حکومت صوبے میں زمینی حقائق کی بنیاد پر مؤثر اقدامات نہیں کرتی"۔

کوئٹہ کے مقامی، وزارتِ داخلہ کے ایک اعلیٰ اہلکار، ظہور عابد نے کہا، "بلوچستان میں حالیہ حملے صوبے میں دہشت گردی کی ایک نئی لہر کا جزو ہیں۔۔۔ امن دشمن عناصر نے اپنا عملی منصوبہ تبدیل کر لیا ہے"۔

انہوں نے سرحد کو محفوظ بنانے اور سرحد پار سے آنے والے دہشت گردوں کو بلوچستان میں کارروائیاں کرنے سے روکنے کے لیے پاکستان جیسے ٹھوس اقدامات نہ کرنے کے لیے موردِ الزام ٹھہرایا۔

انہوں نے کہا، "صوبائی حکومت صوبے میں حفاظتی نظام پر نظرِثانی کر رہی ہے اورحساس علاقوں میں سیف سٹی منصوبےبھی آخری مرحلے پر ہیں۔ ہمیں بہت زیادہ یقین ہے کہ سیف سٹی منصوبوں تکمیل سے ہمارے جامع حفاظتی منصوبے کو بہت زیادہ فائدہ ہو گا۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500