سفارتکاری

تہران کا پاکستان کی جانب دوستی کا ہاتھ گہری ہوتی ہوئی مشکلات کا ایک بہروپ

عبدالغنی کاکڑ

18 نومبر کو تہران میں پاکستانی چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ ایرانی صدر حسن روحانی سے مصافحہ کر رہے ہیں۔ [آئی ایس پی آر]

18 نومبر کو تہران میں پاکستانی چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ ایرانی صدر حسن روحانی سے مصافحہ کر رہے ہیں۔ [آئی ایس پی آر]

کوئٹہ – پاکستانی دفاعی اور انٹیلی جنس عہدیداران کا کہنا ہے کہ ایرانی حکومت خود کو پاکستان کا ایک اتحادی ظاہر کرنے کے لیے سرگرم ہے، تاہم عسکریت پسند گروہوں کی پشت پناہی کر کے ملک کی سلامتی کی بیخ کنی بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔

انٹرسروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) کے مطابق، پاکستانی چیف آف آرمی سٹاف (سی او اے ایس) جنرل قمر جاوید باجوہ نے 18 نومبر کو علاقائی امن و استحکام اور سرحدی سلامتی کے لیے پاکستان کی جاری کاوشوں کے جزُ کے طور پر تہران کا دورہ کیا۔

راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے وزارتِ خارجہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے اپنی شناخت پوشیدہ رکھے جانے کی شرط پر کہا، "پاکستان اپنے ہمسایہ ممالک سے تعلقات مستحکم کرنے کے لیے بھرپور طور پر کام کر رہا ہے، اور باجوہ کا حالیہ دورہٴ تہران بھی انہی کاوشوں کا جزُ تھا۔تاہم، پاکستان کے خلاف ایران کی سازشیں جاری ہیں

انہوں نے کہا، "ایران کے ساتھ ہماری سرحد نہایت قابلِ دراندازی اور حساس ہے، اور ہماری سرزمین پر دہشتگردی میں ملوث عسکریت پسند گروہوں کے لیے ایرانی سرزمین پر متعدد کمین گاہیں ہیں۔"

انہوں نے کہا کہ پاکستان اور ایران کے مابین تعلقات کو ایرانیوں کے دوغلے پن نے ہمیشہ داغدار کیا ہے، اور ایرانی افواج دوطرفہ تعلقات کے اصولوں کی سرِعام خلاف ورزی کر رہی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا، "ہم نے مختلف اوقات میں حکومتِ ایران کو اپنے تحفظات سے آگاہ کیا ہے، لیکن وہ پاکستان مخالف عناصر کے خاتمہ کے لیے کوئی اقدام نہیں کر رہے۔"

انہوں نے کہا، "بلوچ لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) سمیتایران اساسی پاکستان مخالف عسکریت پسند گروہ بڑے پیمانے پر سرحد پار دہشتگردی میں ملوث ہیں۔ حال ہی میں 19 نومبر کو بی ایل ایف کے عسکریت پسند بلوچستان کے ضلع تربت کے بلیدا کے علاقہ میں پاکستانی تعمراتی عملہ پر حملہ کرنے کے بعد واپس ایران کے سرحدی علاقہ میں فرار ہو گئے۔"

تربت سے تعلق رکھنے والے ایک سینیئر سیکیورٹی عہدیدار کاشف جاوید نے کہا، "صوبہ بلوچستان میں ایران سے منسلک عسکریت پسند گروہ اب ایک نام، بلوچ راجی اجوئی سانگڑ (بی آر اے ایس) کے تحت مشترکہ طور پر سرگرم ہیں۔ یہ نیا اتحادی گروہ مختلف کالعدم عسکریت پسند بلوچ تنظیموں کی نمائندگی کرتا ہے، اور اس نئے اتحاد کے تربیتی کیمپ ایران کے سرحدی علاقوں میں ہیں۔"

انہوں نے پاک چین معاشی راہداری کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، "بی آر اے ایس کا بنیادی ایجنڈا پاکستان میں غیرملکی سرمایہ کاری کو ناکام بنانا ہے، اور سی پی ای سی کے ذریعے گوادر اور بلوچستان کے دیگر ساحلی علاقوں میں ترقیاتی کام میں پیش رفت کے ساتھ ساتھ ہم نے اس عسکریت پسند گروہ کے حملوں میں اضافہ دیکھا ہے۔"

انہوں نے حوالہ دیا کہ جولائی میںبی آر اے ایس نے بلوچستان کے علاقہ تربت میں بسوں پر سفر کرنے والے پاک بحریہ اور کوسٹ گارڈز اہلکاروں کو نشانہ بنایا ۔

انہوں نے کہا، "ہماری نفاذِ قانون کی ایجنسیاں عسکریت پسندوں کے امن مخالف ایجنڈا کی انسداد کے لیے ہر ممکن اقدام کر رہی ہیں۔ بلوچستان کے شورش زدہ علاقوں میں انسدادِ شورش حملوں میں اب تک کلیدی کمانڈروں سمیت عسکریت پسندوں کی ایک بڑی تعداد ماری جا چکی ہے۔"

انہوں نے مزید کہا، "ہماری تحقیقات میں تصدیق ہوئی کہ گزشتہ چند برسوں میں ہماری سرزمین پر ہونے والے متعدد بڑے حملوں کی تسہیل کاری براہِ راست ایران سے کی گئی۔ مختلف آپریشنز کے دواران یہاں گرفتار کیے گئے چند ملزمان نے انکشاف کیا کہ انہیں سرحد کی ایرانی جانب سے اسلحہ اور دیگر رسد ملتی تھی۔"

پاکستان کی ترقی کی مخالفت

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے ایک سینیئر دفاعی تجزیہ کار میجر (ریٹائرڈ) عمر فاروق کے مطابق، ایرانی حکومت اور دیگر پاکستان مخالف عناصر سی پی ای سی کو اپنے تدبیری مفادات کے لیے ناموافق خیال کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا، "گوادر، پاکستان اور چاہ بہار، ایران کی جڑواں بندرگاہیں بلوچ سرزمین پر ہیں، اور [بلوچ عسکریت پسندوں] کے ان منصوبوں سے متعلق متعدد تحفظات ہیں۔ پاکستان مخالف عناصر گوادر بندرگاہ پر ترقیاتی کام کو نقصان پہنچانے کے لیے بلوچ عسکریت پسندوں کو استعمال کر رہے ہیں۔"

انہوں نے کہا، "پاکستان اور ایران کے درمیان سرحد 900 کلومیٹر سے زائد طویل ہے، اور اس سرحد کے ایک وسیع بنجر صحرائی علاقہ میں کوئی آبادی نہیں۔ پاکستان ایران کے ساتھ اپنی سرحد پر باڑ لگا رہا ہے، لیکن ایرانی حکام اپنی سرحد کی سلامتی کے لیے کافی اقدامات نہیں کر رہے۔"

انہوں نے کہا کہ ایرانی حکومت کو ہمسایہ ممالک کے مسائل میں دخل اندازی کرنے کے بجائے اپنے مسائل حل کرنے چاہیئں۔

فاروق نے حوالہ دیا، "حکومتِ ایران اور چند ایرانی بلوچ رہنماؤں کے درمیان تنازعات ہیں، اور یہ کہ علاقائی مسئلہ کا پاکستان سے کچھ لینا دینا نہیں۔"

فاروق کے مطابق، چند ماہ قبل پاکستان نے ایرانی حکام کے ساتھ خفیہ معلومات کا تبادلہ بھی کیا، جس میں سرحد پار پاکستان مخالف تربیتی مراکز کی نشاندہی کی گئی۔ تاہم، ایرانی افوج نے کوئی کاروائی نہ کی۔

کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے ایک سیکیورٹی تجزیہ کار ندیم احمد نے کہا، "میری رائے میں پاک-ایران تعلقات کو پاک-سعودی تعلقات کے تناظر میں بھی دیکھا جانا چاہیئے، کیوں کہ ہمارے ملک میں سعودی سرمایہ کاری میں اضافہ ہو رہا ہے اور اس کی مطابقت سے ہم ایران سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔"

انہوں نے کہا، "پاکستان کے داخلی امور میں ایران کے ملوث ہونے سے دونوں ملکوں کے درمیان ایک عدم اعتماد کی فضا پیدا ہو رہی ہے، اور گزشتہ چند برسوں میں پاکستان کی جانب سے دوطرفہ تعلقات کو مستحکم کرنے کے لیے کیے جانے والے اقدامات کے جواب میں ایران نے کچھ نہیں کیا۔"

انہوں نے کہا کہ پاکستان-ایران رقابت اس خطے کو ایک نئے تنازع میں دھکیل سکتی ہے؛ لہٰذا، دونوں ملکوں کو اس امر کو یقینی بنانا چاہیئے کہ ان کی سرزمین ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہ ہو۔

انہوں نے کہا، "بلوچستان آزادی کا حدف رکھنے والے مختلف بلوچ عسکریت پسند گروہوں کی جانب سے ایک طویل شورش کا گڑھ ہے، اور ایران اس عنصر کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 6

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

میرا چھوٹا بھائی آئس کا عادی ہے اور میں اسے درست کرنا چاہتا ہوں.

جواب

میں متفق ہوں! ایرانی نظریہٴ سازش اسی طریق پر کام کرتا ہے۔

جواب

مجھے لگتا ہے یہ مضمون ففتھ جنریشن وار کا ایک حصہ ہے۔ نفرت نہ پھیلاو۔مہربانی ہو گی۔

جواب

ناقص اور منفی سوچ

جواب

متعصب رائے

جواب

بجا فرمایا ۔۔۔۔ایران کو پاکستان سمیت کسی بھی اسلامی ملک میں امن و خوشحالی ایک نظر بھی نئی بھاتی اور ایران کی کوشش ہیکہ پآکستآن و بقیہ اسلامی ممالک شورش میں مبتلا رہیں

جواب