دہشتگردی

بلوچستان میں ایران سے منسلک دہشتگرد ملزمان معاشی سبوتاژ میں ملوث

عبدالغنی کاکڑ

20 اگست کو گوادر کے ساحلی شہر میں رہائشی ایک خودکش حملے میں جاںبحق ہونے والے فرد کی نمازِ جنازہ ادا کر رہے ہیں۔ [اے ایف پی]

20 اگست کو گوادر کے ساحلی شہر میں رہائشی ایک خودکش حملے میں جاںبحق ہونے والے فرد کی نمازِ جنازہ ادا کر رہے ہیں۔ [اے ایف پی]

کوئٹہ – حکام کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں دہشتگردوں کی حالیہ گرفتاریوں سے پاکستان میں خود کش حملوں اور عدم استحکام کی سرگرمیوں میں ایران کے ملوث ہونے کا انکشاف ہوا۔

انسدادِ دہشتگردی کے حکام نے جمعہ (24 ستمبر) کو ایران کے ساتھ روابط کے حامل ایک دہشتگرد سیل کے تین ملزم ارکان کی گرفتاری کا اعلان کیا۔

یہ گرفتاریاں گزشتہ ماہ ہونے والے ایک خودکش حملہ کی تحقیقات کے جزُ کے طور پر ضلع تربت، صوبہ بلوچستان میں انٹیلی جنس پر مبنی ایک آپریشن کے دوران پیش آئیں۔

گوادر سے تعلق رکھنے والے ایک سنیئر انٹیلی جنس عہدیدار نے اپنی شناخت پوشیدہ رکھی جانے کی شرط پر کہا، "20 اگست کو پاکستان کے ساحلی شہر گوادر میں چینی عہدیدار پر خودکش حملے میں ملوث خود کش بمبار ایران کے علاقہ رامِن سے لایا گیا تھا۔"

وزیرِ داخلہ شیخ رشید احمد نے حملے کے وقت اسے ایک نوجوان خودکش بمبار سے منسوب کیا، جس نے چینی شہریوں کو لے جانے والی گاڑی کے قریب اپنا دھماکہ خیز مواد اس وقت اڑا لیا جب وہ مچھیروں کی بستی کے قریب پہنچی۔

پاکستانی حکام کے مطابق، اس دھماکے میں چار بچے جاںبحق اور ایک چینی شہری زخمی ہو گیا۔

انٹیلی جنس عہدیدار نے کہا، "24 ستمبر کو تربت کے نواح میں تحقیقات کے بعد، پہلے ہماری انٹیلی جنس ٹیم نے عارف المعروف نادر نامی ایک دہشتگرد کو گرفتار کیا۔"

انہوں نے کہا کہ عارف سے حاصل ہونے والی معلومات کی بنیاد پر بلوچستان کے شعبہٴ انسدادِ دہشتگردی (سی ٹی ڈی) حکام نے ایک احاطے پر چھاپہ مار کر اس گروہ کے دو دیگر ارکان کو گرفتار کر لیا۔ انہوں نے بھاری اسلحہ اور دھماکہ خیز مواد بھی ضبط کیا۔

عہدیدار نے کہا، "پاکستان میں خودکش حملوں کی حالیہ لہر میں ملوث ایرانی گروہ کا سربراہ رسول بخش نامی ایک شخص ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ شیران چاہ بہار کا رہائشی ہے۔"

انہوں نے مزید کہا کہ یہ گروہ مئی 2019 میں گوادر میں پرل کانٹیننٹل ہوٹل پر ہونے والے حملے کا بھی ذمہ دار تھا۔ اس حملے میں ہوٹل کے چار ملازمین اور پاک بحریہ کا ایک سپاہی جانبحق ہوئے اور تین دہشتگرد ہلاک ہوئے۔

ایرانی سازشیں

انٹیلی جنس عہدیدار نے کہا کہ حالیہ گرفتاریوں میں سے، "یہ ایک اہم پیش رفت ہے جو ہمارے خطے میں غیر ملکی سرمایہ کاری کے خلاف جاری سازشوں کے ضمن میں منظرِ عام پر آئی ہے۔"

انہوں نے کہا، "انٹیلی جنس پر مبنی ٹارگٹڈ آپریشن تاحال جاری ہیں اور ہمیں اس معاملہ میں مزید کامیابیوں کی توقع ہے۔"

کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے سنیئر سیکیورٹی عہدیدار محمّد بلال نے کہا، "ہماری سیکیورٹی ایجنسیاں دشمن کے ارادوں کو خاک میں ملانے کے لیے جانفشانی سے کام کر رہی ہیں اور صوبے بھر میں ٹارگٹڈ آپریشنز کا ایک سلسلہ جاری ہے۔"

انہوں نے کہا، "ایران کو اس امر کو یقینی بنانا ہو گا کہ اس کا علاقہٴ عملداری دہشتگرد گروہوں کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ نہ ہو۔"

انہوں نے کہا، "پاکستان نے بارہا ایرانی حکام کو پاک ایران سرحد سے ملحقہ علاقوں میں دہشتگردوں کے ٹھکانوں کی نشاندہی کی ہے، لیکن اس ضمن میں تاحال کوئی قابلِ ذکر پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔"

انہوں نے کہا، "دوطرفہ تعلقات کے حوالے سے یہ معاملہ نہایت اہم ہے،" انہوں نے مزید کہا کہ ایرانی حکام کو "طویل اور غیر محفوظ سوراخ دار سرحد کے متوازی ان غیر قانونی راستوں [کو محفوظ بنانے کے لیے] مؤثر اقدامات کرنے ہوں گے جو ہمارے خطے میں سلامتی کی بطورِ کل صورتِ حال کو متاثر کرتے ہیں۔"

انہوں نے کہا کہ پاکستان نے ہمیشہ امن کے لیے جدوجہد کی ہے اور ایران کے ساتھ سرحد کو محفوظ بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی ہے۔

انہوں نے مزید کہا، "ایران کے اندر عسکریت پسند کیمپوں سے پتہ چلتا ہے کہ ایرانی افواج نے ہمسایہ ممالک میں سبوتاژ کی کاروائیوں میں ملوث امن مخالف عناصر کو عنانِ اختیار دے رکھا ہے۔"

اسلام آباد اساسی تجزیہ کار اور اسلام آباد ادارہ برائے تضویری علوم کے ڈائریکٹر برائے پاکستان چین تعلیمی مرکز، طلعت شبّیر نے کہا، "دشمن پاکستان کی معاشی ترقی کی راہ میں رکاوٹ حائل کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہا ہے؛ یہی وجہ ہے کہ ۔۔۔ امن کے عمل کے خلاف سازشیں بُنی جا رہی ہیں۔"

انہوں نے کہا، "خطے کی بدلتی صورتِ حال کے تناظر میں، یہ پاکستان کے لیے درست وقت ہے کہ اپنی پالیسیوں پر نظرِ ثانی کرے، کیوں کہ قومی مفاد کا تحفظ ناگزیر ہے اور دہشتگردی کی بلا سے نمٹنے کے لیے دانشمندانہ اقدامات کی ضرورت ہے۔"

افغانستان سے بڑھتے ہوئے چیلنجز

انہوں نے کہا کہ افغانستان پر طالبان کے تسلط کے بعد سےپاکستان کے لیے چیلنجز بڑھ رہے ہیں۔

"پاکستان کی داخلی پالیسی بنتی صورتِ حال کے مطابق ہونی چاہیئے، کیوںکہ دشمن نے ہمیشہ ملک میں عدم استحکام سے فائدہ اٹھایا ہے۔"

کوئٹہ سے سینیٹر کامران خان مرتضیٰ نے کہا، "بلوچستان تضویری طور پر اس خطے کا ایک نہایت اہم جزُ رہا ہے اور ہمیشہ ان ضمنیوں کی وجہ سے عدم استحکام کا شکار رہا ہے جو پاکستان مخالف قوتوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔"

انہوں نے کہا، "اگر بلوچستان میں صورتِ حال ابتر ہوتی ہے تو پورے ملک پر اس کا براہِ راست اثر ہو گا۔ امن مخالف عناصر یہاں بدامنی پھیلا کر پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے کوشاں ہیں، جس کے تدارک کے لیے حکومت اور ملک کی سیاسی قیادت کو کردار ادا کرنا ہو گا۔"

انہوں نے کہا، "حالیہ بحران پر قابو پانے کے لیے سنجیدہ اور دوررس اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔"

انہوں نے مزید کہا، "حکومت کو خارجی مداخلت کے انسداد کے لیے اپنے تمام تر وسائل بروئے کار لانے چاہیئں۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

یہ مضمون سو فیصد درست تجزئیے پر مبنی ہے ایران واقعی پاکستانی ازلی دشمن ہے اور جب سے افغانستان میں پنجشیر پر طالبان قابض ہوئے ہیں پاکستان مخالف ایرانی ایجنڈہ کھل کر سامنے ایا ہے۔ اج بھی میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ ایرانی دہشت گردوں نے تربت کے علاقے مند میں پاکستانی چیک پوسٹ کو نشانہ بنایا ہے جس سے ایک اہلکار ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے ہیں ۔ میرے خیال میں پاکستان کو یہ معاملہ سفارتی سطح پر سختی کے ساتھ اٹھانا چاہیے کہ ایرانی سرزمین کیوں پاکستان مخالف سرگرمیوں کے لئے ائے روز استمعال ہوتی جا رہی ہے ۔ ایران دوستی کے لبادے می پاکستان کو سانپ کی طرح ڈس رہا ہے ۔ ازخواجہ منظر حسین ، راولپنڈی

جواب