جرم و انصاف

تحقیقاتی رپورٹس میں تصدیق ہوئی کہ کراچی کے بدنامِ زمانہ گینگ لیڈر نے ایران کے لیے جاسوسی کی

ضیاءالرّحمٰن

اپریل 2016 میں رینجرز کی جانب سے جاری کی گئی اس تصویر میں کالعدم عوامی امن کمیٹی کا سربراہ عزیر بلوچ زیرِ حراست دکھایا گیا ہے۔ [سندھ رینجرز]

اپریل 2016 میں رینجرز کی جانب سے جاری کی گئی اس تصویر میں کالعدم عوامی امن کمیٹی کا سربراہ عزیر بلوچ زیرِ حراست دکھایا گیا ہے۔ [سندھ رینجرز]

کراچی – حکومتِ سندھ کی جانب سے حال ہی میں جاری کی گئی ایک رپورٹ نے ان الزامات کی تصدیق کی ہے کہ کراچی کے ایک بدنامِ زمانہ گینگ لیڈر نے حکومتِ ایران کے لیے جاسوسی کی، جس سےپاکستان میں پرتشدد گروہوں کی حمایت کے لیےایران کی کوششوں پر خدشات اٹھنے لگے۔

ڈان نے خبر دی کہ سندھ کی وزارتِ داخلہ نے 6 جولائی کو عزیر بلوچ پر جائنٹ انوسٹیگیشن ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ شائع کی۔

کراچی میں حکام کی جانب سے گرفتار کیے جانے کے بعد جنوری 2016 سے اب تک کالعدم عوامی امن کمیٹی (پی اے سی) کا سربراہ، بلوچ پاکستان کی حراست میں ہے۔

2016 میں تشکیل دی گئی انٹیلی جنس اور نفاذِ قانون کی ایجنسیوں پر مشتمل ایک جے آئی ٹی نے معلوم کیا کہ بلوچ قتل، بھتہ خوری، اغوا اور منشیات اسمگلنگ کے ساتھ ساتھ پاکستان سے متعلق خفیہ معلومات ایران کو دینے کے درجنوں واقعات میں مجرم ہے۔

2012 کی اس فائل فوٹو میں دکھایا گیا ہے کہ عزیر بلوچ کی سربراہی میں موجود گینگسٹرز کے خلاف کراچی پولیس ایک آپریشن کر رہی ہے۔ [ضیاالرّحمٰن]

2012 کی اس فائل فوٹو میں دکھایا گیا ہے کہ عزیر بلوچ کی سربراہی میں موجود گینگسٹرز کے خلاف کراچی پولیس ایک آپریشن کر رہی ہے۔ [ضیاالرّحمٰن]

ایک تصویر جسے ایران نے پاکستانیوں کو زینبیون برگیڈ میں بھرتی کرنے کے لیے "عاشق قیام میں مرتے ہیں" کے نام سے ایک پراپیگنڈا فلم میں استعمال کیا۔ [فائل]

ایک تصویر جسے ایران نے پاکستانیوں کو زینبیون برگیڈ میں بھرتی کرنے کے لیے "عاشق قیام میں مرتے ہیں" کے نام سے ایک پراپیگنڈا فلم میں استعمال کیا۔ [فائل]

پاکستان کی وزارتِ داخلہ نے اکتوبر 2011 میں کراچی میں سرگرمیاں کرنے والے متعدد گینگز کے ایک اتحاد پی اے سی کو مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے پر کالعدم قرار دے دیا۔ بعد ازاں 2013 میں کراچی میں پرتشدد گروہوں کے خلاف ہونے والے ایک کریک ڈاؤن نے بلوچ کو ایران فرار ہونے پر مجبور کر دیا۔

جے آئی ٹی رپورٹ میں کہا گیا کہ بلوچ نے تفتیشی ٹیم کو بتایا کہ اس نے 2006 میں ایک ایرانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ حاصل کیا۔

اس رپورٹ میں تفصیلات بیان کی گئیں کہ کیسے بلوچ 2014 میں چاہ بہار، ایران میں حاجی ناصر نامی شخص سے ملا، جس نے بلوچ اور ایرانی انٹیلی جنس اہلکاروں کے درمیان ملاقات کا انتظام کرنے کی پیشکش کی۔

رپورٹ میں کہا گیا، "ملزم کی مرضی سے، حاجی ناصر نے ایرانی انٹیلی جنس اہلکاروں کے ساتھ ایک ملاقات کا انتظام کیا جس میں ملزم کو [پاکستانی] مسلح افواج کے اہلکاوں سے متعلق مخصوص معلومات فراہم کرنے کا کہا گیا۔"

اس میں کہا گیا، "ملزم [بلوچ] عسکری تنصیبات اور عہدیداران سے متعلق خفیہ معلومات/خاکے غیرملکی ایجنٹوں [ایرانی انٹیلی جنس عہدیداران] کو فراہم کرتے ہوئے جاسوسی کی سرگرمیوں میں ملوث پایا گیا۔"

اس رپورٹ کے مطابق، ایران کے لیے جاسوسی کرنے کا اقرار کرنے کے بعد بلوچ کو "پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت جاسوسی کی سرگرمیوں میں ملوث ہونے پر، جو کہ آفیشل سیکریٹس ایکٹ 1923 کے تحت آتا ہے" مقدمہ کی کاروائی کے لیے پاکستانی فوج کے حوالہ کر دیا گیا۔

12 اپریل 2017 کو پاک فوج نے ایک ٹویٹ میں اعلان کیا کہ اس نے "جاسوسی (غیر ملکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو حساس سیکیورٹی معلومات لیک کرنا) کے الزامات پر" پاکستان آرمی ایکٹ کے مطابق حراست میں لیا۔

تہران کی پاکستان میں عسکریت پسندی کی حمایت

بڑھتے ہوئے شواہد بتاتے ہیں کہ حکومتِ ایران پاکستان میں پرتشدد گروہوں کی حمایت کرتے ہوئے حکام اور مشاہدین کوایرانی انٹیلی جنس سرگرمیوںسے پیدا ہونے والے بڑھتے ہوئے خطرات پر خدشات اٹھانے کی تحریک دے رہی ہے۔

ماضی میں پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے ایرانی رسوخ کا شکار بننے اور تہران کی پشت پناہی کے حامل عراق اور شام میں لڑنے والے تنخواہ دار گروہوں میں بھرتی ہونے والے شعیہ زائرین پر خدشات اٹھائے ہیں۔

فروری میں کراچی پولیس کے شعبہٴ انسدادِ دہشتگردی (سی ٹی ڈی) نے سیمنز چورنگی کے قریب ایک انٹیلی جنس آپریشن کے دوران دو ملزمان کو حراست میں لیا۔

ان ملزمان میں سے ایک – سید کامران حیدر زیدی، المعروف کامی—شام میں صدر بشار الاسد کی حکومت کے حق میں لڑنے کے لیے بھیجے جانے والے پاکستانیوں پر مشتمل ایک ملشیازینبیون برگیڈسے منسلک تھا۔

پاکستانی جنگجوؤں کے لیے بنیادی بھرتی کنندگان، مالیات فراہم کنندگان، اور ان کا نظم و نسق چلانے والے سپاہِ پاسدارانِ انقلابِ اسلامیٴ ایران (آئی آر جی سی) اور اس کی قدس فورس ہیں۔

حکام کا کہنا ہے کہ حکومتِ ایران بھی پاکستانی سرحد کے قریب اپنی سرزمین پر عسکریت پسندوں کی کمین گاہوں سے آنکھیں بند کیے ہوئے ہے، جس سے دہشتگرد بلوچستان کے راستے ملک میں آزادانہ آ کر حملے کرتے ہیں۔

پنجگور سے تعلق رکھنے والے ایک پاکستانی سیکیورٹی عہدیدار نے فروری میں کہا، "میرجاوا اور بلوچستان کی مکران کی پٹی سے ملحقہ دیگر ایرانی سرحدی علاقوں میں میں پاک ایران سرحد پر عسکریت پسندوں کی متعدد کمین گاہیں ہیں۔"

انہوں نے کہا، "ہم انٹیلی جنس کے تبادلہ کے ذریعے ایرانی بارڈر سیکیورٹی حکام کو عسکریت پسندوں کی کمین گاہوں کی متواتر نشاندہی کرتے رہتے ہیں، لیکن وہ دوطرفہ تعلق کے ضوابط کی خلاف ورزی کر رہے ہیں اور اس معاملہ میں مجرمانہ غفلت دکھا رہے ہیں۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500