سلامتی

پاکستانی حکام اور تجزیہ نگار بلوچستان کے علیحدگی پسندوں کو ایرانی میں موجود پناہ گاہوں سے جوڑتے ہیں

زرق خان

فوجی اہلکار 4 فروری کو فیصل آباد میں ایک جنازے کی تقریب کے دوران، اس فوجی افسر کا تابوت اٹھائے ہوئے ہیں جو بلوچستان کے ضلع نوشکی میں ایک سکیورٹی کیمپ پر عسکریت پسندوں کے حملے میں مارا گیا تھا۔ [غضنفر مجید/اے ایف پی]

فوجی اہلکار 4 فروری کو فیصل آباد میں ایک جنازے کی تقریب کے دوران، اس فوجی افسر کا تابوت اٹھائے ہوئے ہیں جو بلوچستان کے ضلع نوشکی میں ایک سکیورٹی کیمپ پر عسکریت پسندوں کے حملے میں مارا گیا تھا۔ [غضنفر مجید/اے ایف پی]

اسلام آباد -- پاکستان کی وزارت داخلہ نے اس ہفتے خبردار کیا کہ بلوچ علیحدگی پسند، ایران میں محفوظ پناہ گاہوں کا فائدہ اٹھا کر، پاکستان میں حملے کر رہے ہیں۔

وزیرِ داخلہ شیخ رشید احمد نے پیر (28 مارچ) کو قومی اسمبلی کی طرف سے جمع کرائے گئے سوالات کے تحریری جواب میں تصدیق کی کہ کالعدم علیحدگی پسند گروہ، ایرانی صوبے سیستان اور بلوچستان کے راستے دوبارہ منظم ہو رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ نیشنل انٹیلی جنس کوآرڈینیشن کمیٹی (این آئی سی سی) تمام وفاقی اور صوبائی انٹیلی جنس کو مربوط کرنے، مؤثر بارڈر مینجمنٹ اور مغربی سرحد پر باڑ لگانے کا کام کر رہی ہے تاکہ خطے میں بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی کی لہر کو روکا جا سکے۔

رشید احمد نے مزید کہا کہ "دہشت گرد تنظیموں کو بے اثر کرنے کے لیے مسلسل انٹیلی جنس پر مبنی کارروائیاں کی جا رہی ہیں اور انسداد دہشت گردی کے ہتھیاروں کی عملیاتی صلاحیتوں کو بڑھایا جا رہا ہے۔"

فروری میں گاڑیاں تفتان، بلوچستان کے راستے پاکستان سے ایران میں داخل ہو رہی ہیں۔ [زرق خان]

فروری میں گاڑیاں تفتان، بلوچستان کے راستے پاکستان سے ایران میں داخل ہو رہی ہیں۔ [زرق خان]

بلوچ باغی گروپوں نے حالیہ مہینوں میں، خصوصی طور پر ایران کی سرحد سے متصل اضلاع میں،ہائی پروفائل حملے کیے ہیں۔

بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسندوں نے 2 فروری کو بلوچستان کی نوشکی اور پنجگور ڈسٹرکٹس میں،فوجی چوکیوں پر دو جڑاوں حملے کیے تھے ۔

پاکستانی سیکورٹی فورسز نے بالآخر دونوں حملوں کو پسپا کر دیا تھا۔

پاکستان اور امریکہ دونوں نے ہی بی ایل اے کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہوا ہے۔

بلوچ لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف)، ایک اور کالعدم علیحدگی پسند عسکریت پسند گروہ نے 25 جنوری کو ضلع کیچ میں 10 سیکیورٹی اہلکاروں کو ہلاک کر دیا تھا۔

واشنگٹن کے ایک تھنک ٹینک جیمسٹاؤن فاؤنڈیشن کے مطابق، بلوچ علیحدگی پسند گروپوں نے سیکورٹی فورسز پر حالیہ حملوں کی منصوبہ بندی، ایران میں رہتے ہوئے کی۔

25 مارچ کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بی ایل ایف کے علیحدگی پسند رہنما، ڈاکٹر اللہ نذر پر بھی ایران سے کام کرتے ہوئے، پاکستان کے خلاف کارروائی کرنے کا شبہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ "بی ایل اے اور بی ایل ایف ایران کی طرف سے ان کے ساتھ رکھے جانے والے نرم رویہ کا فائدہ اٹھا رہے ہیں کیونکہ ایرانی سیکورٹی فورسز نے انہیں اور دیگر بلوچ باغی گروپوں کو تحفظ اور پناہ دی ہے۔"

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی گروہوں نے اس تحفظ کو جیش العدل، ایک ایسا ایرانی عسکریت پسند گروہ جو تہران کی جانب سے سیستان اور بلوچستان میں بلوچ نسلی برادری پر مبینہ ظلم و جبر کی مخالفت کرتا ہے، پر حملہ کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔

اس میں مزید کہا کہ پاکستان نے ایران کے سامنے بلوچ علیحدگی پسند گروہوں کی بڑھتی ہوئی موجودگی کا مسئلہ کئی بار اٹھایا ہے۔

ایرانی مداخلت

حالیہ برسوں میں، سرحد پار سے عسکریت پسندی اور اپنے معاملات میں ایرانی مداخلت کی وجہ سے، تہران کے ساتھ اسلام آباد کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا ہے۔

فروری میں کیے جانے والے ایک سیکورٹی کریک ڈاؤن میں، پاکستانی حکام نے منی لانڈرنگ کرنے والے پاکستانی شہریوں اور ایرنی انٹیلیجنس کے درمیان تعلقات دریافت کیے تھے۔

وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے 9 فروری کو کراچی میں قائم ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن، جو کہ گھروں کے لیے سرمایہ فراہم کرنے والا اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا ذیلی ادارہ ہے، کے ایک سینئر اہلکار کو گرفتار کیا۔

ڈان نے خبر دی ہے کہ اہلکار کو "ایرانی انٹیلی جنس کے ساتھ ہنڈی اور حوالہ کے کاروبار میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے الزام میں حراست میں لیا گیا تھا۔"

کراچی میں ایف آئی اے کے ایک اہلکار کے مطابق، یہ گرفتاری اس وقت عمل میں آئی جب حکام نے کراچی میں حوالہ اور ہنڈی کے کاروبار کے ایک گروہ کا پردہ فاش کیا جس میں 13 مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا اور کروڑوں روپے کے برابر غیر ملکی اور مقامی کرنسی ضبط کی گئی۔

اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ "کئی پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسیاں پاکستان کی داخلی سلامتی کے معاملات میں تہران کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے بارے میں معلومات کا اشتراک کر رہی ہیں۔"

اہلکار نے کہا کہ ابتدائی خبروں سے لگتا ہے کہ ایرانی انٹیلیجنس ایجنسی، تہران سے منسلک عسکریت پسند گروہوں جیسے کہ زینبیون بریگیڈ اور سپاہِ محمد پاکستان (ایس ایم پی) کو سرمایہ فراہم کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔

ایران کی سپاہِ پاسدارانِ انقلابِ اسلامی (آئی آر جی ایس) نے زینبیون برگیڈ کو بنایا تھا جو کہ ایسی ملیشیاء ہے جو ان پاکستانیوں پر مشتمل ہے جنہیں بشار الاسد کی حکومت کی مدد کے لیے لڑنے کے لیے شام بھیجا گیا تھا۔

ایرانی حکومت نے مبینہ طور پر شیعہ دہشت گرد تنظیم، کالعدم ایس ایم پی کو مدد اور سرمایہ بھی فراہم کیا ہے۔

بلوچستان کے انسدادِ دہشت گردی کے حکام نے، بلوچستان کی تربت ڈسٹرکٹ میں انٹیلیجنس کی بنیاد پر کیے جانے والے آپریشن میں، گزشتہ سال 24 ستمبر کو ایک ایسے دہشت گردانہ سیل کے تین ارکان کی گرفتاری کا اعلان کیا تھا جن کے ایران کے ساتھ مبینہ تعلقات تھے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس طرح کی مداخلت پاکستان کے لیے اچھی نہیں ہے۔

سیکیورٹی تجزیہ کار اور بلوچستان حکومت کے سابق مشیر جان اچکزئی نے کہا کہ "ایران نے اپنے سیاسی، اقتصادی اور پراکسی ہتھیاروں کے ذریعے پاکستان، خاص طور پر بلوچستان میں اپنی نرم طاقت کی حکمت عملی کو وسعت دی ہے۔"

انہوں نے 7 فروری کو گلوبل ولیج سپیس میگزین میں لکھا کہ "تہران نے متعدد سطحوں پر اپنا [اثر و رسوخ] استعمال کرنا شروع کر دیا ہے... اور یہ اثر و رسوخ یقینی طور پر پاکستان کے لیے پریشانی کا باعث بن رہا ہے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500