سلامتی

تھنک ٹینک کا کہنا ہے کہ تہران بلوچستان میں عسکریت پسندی کی پشت پناہی کر رہا ہے

از جاوید محمود

ایرانی سیکیورٹی افسران اپریل میں "تازہ ترین عسکری کامیابیوں" پر تبادلۂ خیال کرنے کے لیے جمع ہیں۔ [ڈی ای ایف اے پریس]

ایرانی سیکیورٹی افسران اپریل میں "تازہ ترین عسکری کامیابیوں" پر تبادلۂ خیال کرنے کے لیے جمع ہیں۔ [ڈی ای ایف اے پریس]

اسلام آباد -- اسلام آباد کے مقامی پاکستان انسٹیٹیوٹ آف کانفلکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز (پی آئی سی ایس ایس) کے انتظامی ڈائریکٹر، عبداللہ خان کے مطابق، بڑھتے ہوئے ثبوت بتاتے ہیں کہ ایرانی حکومت صوبہ بلوچستان میں باغیانہ فساد کی حمایت کر رہی ہے۔

28 جون کو ایک انٹرویو میں خان کا کہنا تھا، "ایرانی حکومت بلوچ باغیوں اور دیگر پاکستان مخالف عناصر کی حمایت کرتے ہوئے صوبہ بلوچستان میں عسکریت پسندی کو ہوا دے رہی ہے۔"

انہوں نے کہا کہ بلوچ باغی جنہوں نے اپریل میں مکران کوسٹل ہائی وے پر ایک دہشت گرد حملے میں، بحریہ کے نو اہلکاروں سمیت، 14 پاکستانیوں کو شہید کر دیا تھا وہ ایران سے آئے تھے، انہوں نے مزید کہا کہ شدت پسند بعد ازاں واپس ایران فرار ہو گئے تھے۔

خان نے کہا کہ پاکستان نے باغیوں کی دراندازی کے معاملے پر ایرانی حکومت سے احتجاج کیا ہے۔ پاکستان کے دفترِ خارجہ نے مجرموں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے، ایرانی حکام کے ساتھ قابلِ کارروائی ثبوت کا تبادلہ کیا ہے۔

17 مارچ کو لی گئی اس فائل فوٹو میں، صوبہ بلوچستان میں کوئٹہ کے جنوب مشرق میں 311 کلومیٹر دور نصیر آباد میں ایک ریلوے لائن پر ہونے والے ریموٹ کنٹرول بم دھماکے کے بعد پاکستانی مسافر اور دیہاتی جمع ہیں۔ [فدا حسین/اے ایف پی]

17 مارچ کو لی گئی اس فائل فوٹو میں، صوبہ بلوچستان میں کوئٹہ کے جنوب مشرق میں 311 کلومیٹر دور نصیر آباد میں ایک ریلوے لائن پر ہونے والے ریموٹ کنٹرول بم دھماکے کے بعد پاکستانی مسافر اور دیہاتی جمع ہیں۔ [فدا حسین/اے ایف پی]

بلوچستان ریپبلکن آرمی (بی آر اے)، ایک کالعدم تنظیم، کو ایران کے اندر سے تربیت اور تزویراتی معاونت مل رہی ہے، ڈان کے مطابق، یہ بات پاکستانی وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے 20 اپریل کو ایک نیوز کانفرنس کے دوران کہی تھی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان نے ایرانی حکام کے ساتھ ایران کے اندر بی آر اے کے کیمپوں کے محلِ وقوع پر معلومات کا تبادلہ کیا ہے۔

تاہم، تہران کی ان عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کرنے کے رضامندی ایک دوسرا معاملہ ہے۔

پشاور کے مقامی دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر (ر) محمود شاہ نے ایک انٹرویو میں کہا، "ایرانی خفیہ ادارہ ان عسکریت پسندوں کو پاسپورٹ اور دیگر معاونت فراہم کر رہا ہے جو بلوچستان میں خونریزی کر رہے ہیں۔"

انہوں نے کہا کہ ایرانی خفیہ ادارہ پاکستانی علاقے، خصوصاً بلوچستان میں دہشت گردی کی معاونت کرتا رہا ہے۔

شاہ نے کہا، "ایک بات بہت واضح ہے: پاکستان کے خلاف عسکریت پسندی کے لیے ایرانی سرزمین استعمال کی جا رہی ہے، اور یہ پہلا موقع ہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت نے پاکستانیوں کو ہدف بنانے والے دہشت گردوں کے لیے ایرانی معاونت پر بھرپور احتجاج کیا ہے۔"

انہوں نے کہا کہ پاکستانی حکومت پر لازم ہے کہ عسکریت پسندوں کی دراندازی اور ان کی معاونت کی حوصلہ شکنی کرنے کے لیے تہران پر مزید دباؤ ڈالے۔

ایرانی انٹیلیجنس

ایرانی داؤ پیچ کا واضح ثبوتماضی میں بھی پاکستان میں سامنے آ چکا ہے۔ عزیر بلوچ، لیاری سے تعلق رکھنے والا مبینہ پاکستانی-ایرانی گینگسٹر، ایسا ہی ایک معاملہ ہے۔

ڈان کے مطابق، بلوچ جنوری 2016 کے بعد سے پاکستانی حراست میں رہا ہے، جب حکام نے اسے کراچی سے گرفتار کیا تھا، اور پاکستانی فوجی عدالت میں اس پر مقدمہ چل رہا ہے۔

پی آئی سی ایس ایس کے ڈائریکٹر، خان نے کہا کہ جب کراچی کے گینگز کے خلاف ہونے والی ایک سخت کارروائی نے بلوچ کو سنہ 2013 میں ایران فرار ہونے پر مجبور کیا، تو ایرانی خفیہ اداروں نے اسے پاکستانی حکام کے حوالے کرنے کی بجائے تحفظ فراہم کیا، انہوں نے مزید کہا کہ بلوچ نے ایرانیوں کی حساس معلومات فراہم کی ہیں۔

اس وقت ڈیلی ٹریبیون نے خبر دی تھی کہ اکتوبر 2017 میں صوبہ سندھ میں ایک سماعت کے دوران بلوچ نے اعتراف کیا تھا کہ ایک ایرانی خفیہ ادارے کے ایک اہلکار نے ایران فرار ہونے میں اس کی مدد کی تھی۔

اس نے اعتراف کیا تھا کہ ایران میں، اس نے تحفظ کے عوض ایرانی خفیہ ادارے کے حکام کے ساتھ بہت قیمتی معلومات کا تبادلہ کیا تھا۔

معلومات پاکستانی فوج، انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) اور عسکری انٹیلیجنس کے اہم عہدیداروں کے ناموں پر مشتمل تھی۔

اس نے پاکستانی فوج اور بحریہ کی مختلف تنصیبات کے نقشے اور تصاویر اور ان میں داخلے اور اخراج کے راستوں کے متعلق معلومات فراہم کرنے کا بھی اعتراف کیا تھا۔

پاکستانی شیعوں کی بھرتی

تجزیہ کار، شاہ کے مطابق، ایران کے اسلامی پاسدارانِ انقلاب دستے (آئی آر جی سی) پاکستانی شیعہ نوجوانوں کو بھرتی بھی کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا، "ایرانی سرحد کے قریب رہنے والے پاکستانی شیعوں کو آئی آر جی سی میں بھرتی کیا جا رہا ہے"۔ بھرتی ہونے والے پاکستانی کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈز (سی این آئی سیز) کے حامل بھی ہیں اور ایرانی شہریت بھی رکھتے ہیں جس کا انتظام آئی آر جی سی نے ان کے لیے کیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اسلام آباد کو چاہیئے کہ اس دفاعی خطرے پر ایرانی حکومت سے بات چیت کرے اور ان پاکستانی نوجوانوں کی شناخت اور نگرانی کرے جنہیں آئی آر جی سی نے بلوچستان میں عسکریت پسندی کو ہوا دینے کے لیے بھرتی کیا ہے۔

شاہ کے مطابق، اگرچہ ایرانی حکومت نے کھل کر پاکستان کے خلاف جارحیت کا ارتکاب نہیں کیا ہے، وہ عسکریت پسند جن کی یہ پشت پناہی کرتی ہے انہوں نے برسوں سے ایرانی سرزمین کو پاکستان کے خلاف ایک چھاؤنی کے طور پر استعمال کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایرانی حکومت پر لازم ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے یہ پالیسی ترک کرے اور پاکستان کے ساتھ ہاتھ ملائے۔

ایک دفاعی تجزیہ کار اور کراچی میں ایک ملٹی نیشنل بینک پر سیکیورٹی کے ڈائریکٹر، کرنل (ر) محمد صباح الدین چودھری نے کہا، "پاکستانی حکومت اور فوج کو چاہیئے کہ ایرانی علاقے سے ہونے والی دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک حکمتِ عملی تیار کریں۔"

چودھری کے مطابق، پاکستان کو چاہیئے کہ وہ 909 کلومیٹر طویل سرحد پر باڑ لگانے کی پاکستانی تجویز پر عمل کروانے کے لیے ایرانی حکومت سے بات چیت کرے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی درخواست پر، تہران نے اصولی طور پر سرحد پر باڑ لگانےپر اتفاق کیا ہے، مگر عملی طور پر کچھ بھی نہیں کیا گیا ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

پاکستان میں عسکریت پسند کی حمایت میں ایران کا کیا مفاد ہے؟

جواب