سلامتی

پاکستانی عسکریت پسند گروہوں کا ایران میں تربیت یافتہ خواتین خودکش بمباروں کی طرف رجوع

از زرک خان

کوئٹہ میں پولیس گزشتہ اپریل میں ایک تربیتی تقریب میں حصہ لیتے ہوئے۔ [زرک خان]

کوئٹہ میں پولیس گزشتہ اپریل میں ایک تربیتی تقریب میں حصہ لیتے ہوئے۔ [زرک خان]

اسلام آباد -- پولیس حکام اور دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایران میں محفوظ ٹھکانے استعمال کرنے والے پاکستانی عسکریت پسند گروہ پاکستان کے اندر دہشت گرد حملے کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ خواتین خودکش بمباروں کا رخ کر رہے ہیں۔

صوبہ بلوچستان میں شعبۂ انسدادِ دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے حکام نے بدھ (22 مارچ) کے روز بتایا کہ افسران نے بلوچ لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) سے وابستہ ایک خودکش بمبار کو گرفتار کیا، جو ایک ایسا عسکریت پسند گروہ ہے جس کے قائدین مبینہ طور پر ایران میں صوبہ سیستان اور بلوچستان میں روپوش ہیں۔

وزیراعلیٰ بلوچستان کے ترجمان بابر یوسفزئی نے کوئٹہ میں ایک نیوز کانفرنس میں صحافیوں کو بتایا کہ قانون نافذ کرنے والے افسران نے 17 فروری کو کوئٹہ کے مضافات میں ملزمہ کو گرفتار کیا اور دو خودکش جیکٹیں ضبط کیں۔

حکام کے مطابق، مشتبہ خاتون، جس کی شناخت ماہل کے نام سے ہوئی ہے، کا تعلق ایرانی سرحد کے قریب بلوچستان کے دور افتادہ قصبے مند سے ہے۔

یوسفزئی نے کہا، "ماہل کے کچھ رشتے دار جو بی ایل ایف کے لیے کام کر رہے تھے، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کریک ڈاؤن میں شدت آنے کے بعد ایران فرار ہو گئے تھے۔" یوسفزئی نے مزید کہا کہ وہ وہاں سے گروپ کو منظم کرنے میں مدد کر رہے تھے۔

ڈیلی ٹائمز نے خبر دی کہ ماہل کے شوہر عزیز یوسف بلوچ کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس سے قبل دو دیگر خواتین کو ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا، انہوں نے مزید کہا کہ امن دشمن عناصر ایسی خواتین کا استحصال کر رہے ہیں، جو زیادہ تر غریب، ان پڑھ، بعض اوقات بیوہ اور قانون سے ناواقف ہیں۔

یوسفزئی نے کہا کہ تفتیش کے دوران ماہل نے اعتراف کیا کہ کالعدم تنظیمیں خواتین اور بچوں کو اپنے مذموم ریاست مخالف عزائم کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔

گزشتہ اپریل میں کراچی یونیورسٹی میں ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون خودکش بمبار کے تین چینی اساتذہ کے ساتھ ان کے مقامی ڈرائیور کی ہلاکت کے بعد پاکستانی حکام عسکریت پسندوں میں بھرتی ہونے والی خواتین پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔

بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے)، ایک اور کالعدم بلوچ گروہ نے ذمہ داری قبول کی۔

ایرانی معاونت

کئی بڑے دہشت گرد حملوں کے بعد، پاکستانی حکام نے کئی مہینوں سے تہران پر الزام عائد کیا ہے کہ اس نے پاکستانی عسکریت پسند گروہوں کو اپنی سرزمین میں محفوظ پناہ گاہوں سے کام کرنے کی اجازت دے رکھی ہے

گزشتہ اکتوبر میں، سی ٹی ڈی اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ضلع خاران میں ایک مشترکہ چھاپے میں شفقت اللہ جھلانزئی کو گرفتار کیا تھا، جو کہ بی ایل اے کا رکن اور بلوچستان ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس نور محمد مسکانزئی کے قتل کا بنیادی ملزم ہے۔

مسکانزئی کو اسی ماہ کے شروع میں بلوچستان کے شہر خاران میں ایک مسجد میں گولی مار کر شہید کر دیا گیا تھا۔

سی ٹی ڈی کی طرف سے جاری کردہ اور پاکستان فارورڈ کی جانب سے دیکھے گئے ایک ویڈیو بیان میں، جھلانزئی نے اعتراف کیا کہ اس نے صوبہ سیستان اور بلوچستان کے شہر سروان میں عسکریت پسند سرگرمیوں کی تربیت حاصل کی تھی۔

ایرانی عسکریت پسند گروہ جیش العدل کے ترجمان حسین بلوچ نے گزشتہ نومبر میں برطانیہ میں قائم دفاعی تھنک ٹینک، مڈ سٹون سینٹر فار انٹرنیشنل افیئرز (ایم سی آئی اے) کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ایرانی حکومت پاکستانی عسکریت پسند گروہوں کی سرپرستی کر رہی ہے اور انہیں پاکستان کے اندر دہشت گرد حملے کرنے کے لیے ایرانی سرزمین پر محفوظ ٹھکانے فراہم کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستانی بلوچ عسکریت پسند گروہ جنہوں نے ملک میں فوجی کارروائیوں سے فرار ہونے کے بعد ایران میں پناہ لی ہے، " ایرانی حکومت اور آئی آر جی سی [سپاہِ پاسدارانِ اسلامی انقلاب]کے جال میں پھنس چکے ہیں " اور "اس حکومت کے آلۂ کار" بن چکے ہیں۔

بلوچ نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ اس تحفظ کے بدلے میں، آئی آر جی سی پاکستانی عسکریت پسند گروہوں، جیسے کہ بی ایل ایف اور بلوچستان ریپبلکن آرمی (بی آر اے) کو ایرانی سنی بلوچ گروہوں کے رہنماؤں اور اراکین پر حملے اور قتل کرنے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔

بلوچ نے جون 2021 کے "آئی آر جی سی فورسز کے تعاون سے، [پاکستانی بلوچ عسکریت پسندوں کی طرف سے] ایک مربوط مشترکہ حملے" کا حوالہ دیا، یہ کہے بغیر کہ یہ اڈہ پاکستان میں تھا یا ایران میں۔

انہوں نے ایران کے بام پشت میں جیش العدل فورسز پر بی ایل ایف اور بی آر اے کے سنہ 2017 کا حملہ بھی یاد دلایا۔

صبر ختم ہونا

دیگر بین الاقوامی تھنک ٹینکس نے بلوچ کے الزامات کی تصدیق کی ہے۔

واشنگٹن میں قائم ایک تھنک ٹینک جیمزٹاؤن فاؤنڈیشن کے مطابق، بلوچ عسکریت پسند گروہوں نے ایران سے پاکستانی سکیورٹی فورسز پر حملوں کی منصوبہ بندی کی۔

گزشتہ مارچ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ بی ایل ایف کے سربراہ اللہ نذر پر بھی ایران سے پاکستان کے خلاف کارروائی کرنے کا شبہ ہے۔

انہوں نے کہا، "بی ایل اے اور بی ایل ایف ایران کے ان کے ساتھ نرم رویئے کا فائدہ اٹھا رہی ہیں کیونکہ ایرانی سیکورٹی فورسز نے انہیں اور دیگر بلوچ باغی گروہوں کو تحفظ اور پناہ دی ہوئی ہے"۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ پاکستانی گروہوں نے اس تحفظ کو جیش العدل پر حملہ کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔

پاکستان نے متعدد بار ایران کے ساتھ بلوچ عسکریت پسند گروہوں کی بڑھتی ہوئی موجودگی کا مسئلہ اٹھایا ہے۔

لیکن حالیہ برسوں میں سرحد پار سے عسکریت پسندی اور اس کے معاملات میں ایرانی مداخلت کی وجہ سے تہران کے ساتھ اسلام آباد کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا ہے۔

سنہ 2014 سے، زینبیون بریگیڈ، آئی آر جی سی کی تشکیل کردہ پاکستانیوں پر مشتمل ملیشیاء، شام میں بشار الاسد کی حکومت کی حمایت میں لڑ رہی ہے۔

گزشتہ جولائی میں، پاکستانی حکومت نے باضابطہ طور پر زینبیون بریگیڈ کو پاکستان کے اندر دہشت گردی کی سرگرمیوں، خاص طور پر حریف فرقوں کے علماء کے قتل کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔

اگرچہ زینبیون بریگیڈ پر ابھی تک پاکستان میں پابندی عائد نہیں کی گئی ہے، حکومت نے دو غیر معروف شیعہ تنظیموں، انصار الحسین (2016 میں) اور اس کی شاخ، خاتم الانبیاء (2020 میں) کو شام کی جنگ میں بھرتی کے ساتھ ان کے روابط کی وجہ سے، سنہ 1997 کے انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت کالعدم قرار دے دیا تھا۔

فروری 2022 میں ایک سیکیورٹی کریک ڈاؤن میں، پاکستانی حکام نے پاکستانی منی لانڈررز اور ایرانی انٹیلی جنس کے درمیان روابط کا سراغ لگایا تھا.

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500