سلامتی

اورکزئی، کراچی میں حملوں کے بعد پاکستانی دہشت گردی کے خلاف متحد کھڑے ہیں

محمد آحل

سرگرم کارکن 23 نومبر کو پشاور پریس کلب کے باہر، کلایہ، اورکزئی ڈسٹرکٹ میں داعش کی دعوی کردہ ہلاکت خیز بم دھماکوں کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ ]شہباز بٹ[

سرگرم کارکن 23 نومبر کو پشاور پریس کلب کے باہر، کلایہ، اورکزئی ڈسٹرکٹ میں داعش کی دعوی کردہ ہلاکت خیز بم دھماکوں کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ ]شہباز بٹ[

پشاور -- گزشتہ ہفتے کے دو ہلاکت خیز حملوں کے بعد، ملک بھر میں ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے پاکستانی شہریوں نے دہشت گردی کے خلاف متحد ہونے کا عہد کیا ہے۔

جمعہ (23 نومبر) کو ایک خودکش بمبار نے کلایہ، اورکزئی ایجنسی میں ایک بازار کو نشانہ بنایا جس سے کم از کم 33 افراد ہلاک اور دیگر درجنوں زخمی ہو گئے۔ "دولتِ اسلامیہ" (داعش) نے اس کی ذمہ داری قبول کی ہے۔

علاوہ ازیں، مسلح افراد نے اسی دن کراچی، صوبہ سندھ میں چین کے قونصل خانے کے باہر چار افراد کو ہلاک کر دیا۔ بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) جو کہ ایک مسلح تنظم ہے، نے اس کی ذمہ دار قبول کی ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے 23 نومبر کو ٹوئٹ کیا کہ "مجھے مکمل یقین ہے کہ یہ دونوں حملے ان لوگوں کی طرف سے ملک میں بے چینی پیدا کرنے کے منصوبے کا حصہ ہیں جو پاکستان کو ترقی کرتا ہوا نہیں دیکھنا چاہتے"۔

سرگرم کارکن 23 نومبر کو پشاور پریس کلب کے باہر، کلایہ، اورکزئی ڈسٹرکٹ میں داعش کی دعوی کردہ ہلاکت خیز بم دھماکوں کے خلاف احتجاج میں ٹائروں کو آگ لگا رہے ہیں۔ ]شہباز بٹ[

سرگرم کارکن 23 نومبر کو پشاور پریس کلب کے باہر، کلایہ، اورکزئی ڈسٹرکٹ میں داعش کی دعوی کردہ ہلاکت خیز بم دھماکوں کے خلاف احتجاج میں ٹائروں کو آگ لگا رہے ہیں۔ ]شہباز بٹ[

پاکستانی فوجی، 23 نومبر کو ایک دہشت گردانہ حملے کے بعد، کراچی، صوبہ سندھ میں چین کے قونصل خانے کے باہر گشت کر رہے ہیں۔ ]آصف حسن/ اے ایف پی[

پاکستانی فوجی، 23 نومبر کو ایک دہشت گردانہ حملے کے بعد، کراچی، صوبہ سندھ میں چین کے قونصل خانے کے باہر گشت کر رہے ہیں۔ ]آصف حسن/ اے ایف پی[

"کسی بھی شخص کے ذہن میں اس بارے میں شبہ نہیں رہنا چاہیے کہ ہم ان دہشت گردوں کو ہر قمیت پر کچل کر رکھ دیں گے"۔

چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ کچھ عناصر دانستہ یا نہ دانستہ طور پر ملک کو واپس تصادم کی طرف واپس کھینچنے کی کوشش کر رہے ہیں"۔

انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق، انہوں نے 23 نومبر کو ملتان چھاونی کا دورہ کرتے ہوئے کہا کہ "حکومت کو انہیں ایسا کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے خواہ یہ مذہب، قومیت یا کسی اور بہانے سے ہو"۔

باجوہ نے کہا کہ "حرکیاتی مہمات کے بعد، اب ہم استحکام کی مہمات کے مرحلے میں ہیں۔ دہشت گردی اور عسکریت پسندی کے خلاف جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی ہے"۔

'قاتلوں کے لیے کوئی رحمدلی نہیں'

خیبر پختونخواہ (کے پی) کے گورنر شاہ فرمان نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ کلایہ اور کراچی کے حملے آپس میں جڑے ہوئے ہیں اور دہشت گرد عوام کو دہشت زدہ کرنا چاہتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی غیر ملکی سرمایے کو پاکستان آنے سے روکنا چاہتے ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ "ہمارا ان کے لیے ایک بہت واضح پیغام ہے: تمام اور متفرق دہشت گردوں کو پکڑا جائے گا -- بے گناہ پاکستانیوں کے قاتلوں کے لیے کوئی رحم نہیں ہے"۔

کور کمانڈر پشاور لیفٹینٹ جنرل شاہین مظہر نے متاثرہ خاندانوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا اور کہا کہ فوج قبائلی علاقوں سے دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کا عزم رکھتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ تلاش اس وقت تک جاری رہے گی جب تک کہ آخری دہشت گرد کا خاتمہ نہیں ہو جاتا۔

کے پی کے وزیرِ اعلی محمود خان نے بھی کلایہ میں بم دھماکوں کی مذمت کی اور کہا کہ دشمن کے پی میں امن کو ہضم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ "بے گناہ شہریوں کو نشانہ بنانا غیر انسانی ہے"۔

بین الاقوامی مذمت

بین الاقوامی برادری نے تشدد کی مذمت کرنے میں پاکستانیوں کا ساتھ دیا۔

اقوامِ متحدہ کی سیکورٹی کونسل (یو این ایس سی) نے کہا کہ "دہشت گردی کا کوئی بھی عمل مجرمانہ اور غیر قانونی ہے اس بات سے قطعہ نظر کہ اس کے پیچھے کیا محرک ہے خواہ اسے کہیں بھی، کبھی بھی یا کسی بھی کی طرف سے کیا جائے"۔

امریکہ کے محکمہ خارجہ کی ترجمان ہیدر ناوئرت نے 23 نومبر کو ایک بیان میں کہا کہ "امریکہ اس واقعہ کی مذمت کرتا ہے اور متاثرین کے اہلِ خاندان کے ساتھ گہری ہمدری کا اظہار کرتا ہے اور زخمی ہونے والوں کی جلد صحت یابی کی دعا کرتا ہے"۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ "امریکہ دہشت گردی کے ان واقعات کے سامنے پاکستانی عوام کے ساتھ کھڑا ہے اور علاقے میں ان خطرات سے جنگ کرنے کے لیے پاکستانی حکومت کے ساتھ تعاون کرنے کے مواقع کی تلاش کو جاری رکھے گا"۔

تعاون ضروری ہے

ان حملوں کے بعد، تجزیہ نگاروں نے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے پاکستان اور افغانستان میں مزید تعاون پر زور دیا۔

کے پی کے سابقہ انسپکٹر جنرل آف پولیس سید اختر علی شاہ نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "ہمیں حالیہ حملوں کو مجموعی طور پر سمجھنا ہو گا۔ دہشت گرد اندرونِ ملک ہلچل مچانا چاہتے تھے تاکہ بین الاقوامی سرمایہ کار خود کو غیر محفوظ محسوس کریں اور بھاگ جائیں مگر ایسا ہونے کا امکان نہیں ہے"۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کو دہشت گردی کے مشترکہ دشمن کو شکست دینے کے لیے مشترکہ حکمتِ عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کی آپریشنل صلاحیتوں کے خاتمے کے لیے انہیں دونوں ممالک میں غیر حکومتی کرداروں کو لینا ہو گا۔

پشاور یونیورسٹی میں پیس اینڈ کانفلکٹ اسٹڈیز کے شعبہ کے چیرمین سید حسین شہید سہروردی نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ پاکستان اور افغانستان کو مل کر داعش کا مقابلہ کرنا ہو گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ کراچی اور کلایہ جیسے واقعات کا مقصد دہشت پھیلانا ہے مگر شکستہ دہشت گرد گروہ پہلے ہی بھاگ رہے ہیں اور اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500