کراچی -- ایک حالیہ تحقیق کے مطابق، کوئلے کی کان کنی کے وہ منصوبے جو چین کی بیلٹ اینڈ روڈ پہل کاری(BRI) کا حصہ ہیں، جنوبی ایشیاء میں فضائی آلودگی کا بڑا سبببنیں گے اور مقامی آبادی کو صحت کے سنگین خطرات لاحق کر دیں گے۔
اینگرو تھر بلاک دوم کوئلے سے چلنے والے پلانٹ اور صوبہ سندھ کے ضلع تھر میں تھر نامی کوئلے کی کان کے بلاک دوم میں سطح زمین کے نیچے کان کنی کا کام بی آر آئی کی چھتری تلے شروع ہو چکا ہے۔
علاقے میں گزشتہ برس مسلسل تیسرے سال خشک سالی رہی تھی۔
واشنگٹن ڈی سی کے مقامی تحقیقی تھنک ٹینک، مرکز برائے تحقیقِ توانائی و صاف ہوا (سی آر ای اے) جو آب و ہوا اور ہوا کے معیار کی پالیسی پر کام کرتا ہے، نے 29 مئی کو ایک تحقیق شائع کی تھی جس کا عنوان تھا "تھر، پاکستان میں مجوزہ کوئلے کی کان کنی اور توانائی کے شعبے کے فضائی آلودگی پر، صحت پر اور زہریلے اثرات"۔
تحقیق کے مطابق، 30 سال کے عملی عرصے میں، تھر میں کوئلے کی کانوں اور بجلی کے پلانٹس سے نکلنے والا دھواں فضائی آلودگی سے متعلقہ 29،000 اموات، دمہ کی وجہ سے ہنگامی حالات کے شعبے میں 40،000 افراد کے جانے، بچوں میں دمے کے 19،906 نئے کیسز، 32،000 قبل از وقت ولادتوں، کام سے غیر حاضری (رخصت بوجہ بیماری) کے 20 ملین ایام اور سانس میں رکاوٹ کی سنگین بیماری، شوگر اور فالج سے متعلقہ معذوریوں کے گھیرے میں انسانی جانوں کے مجموعی طور پر 57،000 سال کے لیے ذمہ دار ہوں گے۔
29 مئی کو، پاکستان کے ممتاز ماہرینِ ماحولیات، سماجی رہنماؤں اور سول سوسائٹی کے کارکنان پر مشتمل ایک مقامی پلیٹ فارم، اتحاد برائے ماحولیاتی انصاف و صاف توانائی، نے سی آر ای اے رپورٹ جاری کرنے کے لیے زوم کے ذریعے ایک مباحثے کا انتظام کیا۔
سی آر ای اے کے مرکزی تجزیہ کار لاؤری میلیورتا نے کہا کہ چونکہ پاکستان پہلے ہی فضائیآلودگی کی ایسی سطحاتکا شکار ہے جو دنیا میں بلند ترین سطحات میں شمار ہوتی ہیں، کوئلے کی کانوں اور تھر میں بجلی گھروں کی جانب سے خارج کردہ مواد ملک میں متوقع عمر کو مزید کم کر دے گا۔
میلیورتا کا کہنا تھا، "تھر سے خارج ہونے والا زہریلا مواد جنوبی ایشیاء میں پارے اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کے سب سے بڑے ہاٹ سپاٹ بنائے گا۔ کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر سالانہ 1،400 کلوگرام پارہ خارج کریں گے، جس میں سے پانچواں حصہ خطے کے زمینی ماحولیاتی نظام میں جمع ہو جائے گا۔"
ان کا کہنا تھا کہ منصوبوں پر کام جاری ہے جبکہ دیگر ممالک ماحولیاتی تبدیلی، فضائی آلودگی اور معاشی اثرات کی وجہ سے کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں کو ختم کر رہے ہیں۔
پریشان مقامی باشندے
صحرائے تھر کے علاقے میں منصوبوں کے آغاز کے بعد سےپورے صوبہ سندھ میں کئی احتجاجی مظاہرے ہو چکے ہیں.
دسمبر میں، تھرپارکر اور عمرکوٹ کے اضلاع کے سینکڑوں باشندے بی آر آئی سے منسلک منصوبوں کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے سفر کر کے کراچی آئے تھے۔
مظاہرین کا کہنا تھا کہ بی آر آئی منصوبوں سے مقامی باشندوں کو فائدہ نہیں ہو رہا اور اس کی بجائے علاقے کی آب و ہوا اور روایتی معیشت تباہ ہو رہی ہے اور بے گھری پیدا ہو رہی ہے کیونکہ مزدور دیہاتوں کو تباہ کر رہے ہیں۔
خطۂ تھر میں باشندوں کی اکثریت بارانی زراعت اور مویشی پالنے پر گزارہ کرتی ہے۔
مظاہرے کے منتظمین میں سے ایک، لالہ بھیل نے کہا، "تجارتی سماجی ذمہ داری کے جزو کے طور پر، [چین کی پشت پناہی والے] منصوبوں کا فرض تھا کہ وہ مقامی باشندوں کو ملازمتیں، معیاری تعلیم اور صحت کی سہولیات فراہم کرتے، مگر دکھ کی بات ہے کہ کان کنی کی فرمیں ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتی رہی ہیں۔"
ان کا کہنا تھا کہ بیروزگاری کی وجہ سے، مقامی نوجوانوں میں سخت ناراضگی اور مایوسی پھیل گئی ہے اور بہت سوں نے اپنی زندگیوں کا خاتمہ کر لیا ہے۔
مقامی پولیس کی جانب سے مرتب کردہ اعدادوشمار کے مطابق، سنہ 2019 میں تھرپارکر اور عمرکوٹ کے اضلاع میں کم از کم 133 خودکشیاں ہوئیں۔
مظاہرین کے مطابق، خطۂ تھر میں منصوبوں نے دیہاتیوں سے غیرقانونی طور پر زمین بھی ہتھیا لی۔
گورانو گاؤں ان 12 دیہاتوں میں سے ایک ہے جو منصوبے کے کان کنی کے مقامات میں سے نکلنے والے فاضل کھارے پانی کو رکھنے کے لیے ذخیرے کی تعمیر سے متاثر ہوئے ہیں۔
تعمیر کا کام مئی 2016 میں شروع ہوا تھا اور اس کے بعد سے ختم ہو چکا ہے، جون 2016 میں، مقامی باشندوں نے سندھ ہائی کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کی تھی، یہ بیان کرتے ہوئے کہ منصوبے نے نامناسب طور پر زمین مالکان کی رضامندی کے بغیر زمین کے حصول کے قانون مجریہ 1894 کے تحت انتہائی ضرورت کی شق کے تحت زمین حاصل کی تھی۔ مقدمہ تاحال عدالت میں زیرِ سماعت ہے۔
گورانو گاؤں کے مکینوں، بشمول خواتین اور بچوں، نے جون 2016 سے لے کر جولائی 2018 تک صوبے کے مختلف علاقوں، بشمول کراچی میں احتجاجی مظاہروں کے سلسلے کا اہتمام کیا تھا۔
زمین "جبری طور پر اور دھوکہ بازی سے حاصل کی گئی تھی"گورانو متاثرین جنہوں نے پہلے دسمبر میں کراچی میں مظاہرے میں شرکت کی تھی، ان کے ایک رہنماء بھیم راج نے کہا.
راج کا کہنا تھا کہ باشندوں کو اس زمین سے محروم کیا گیا ہے جس کے وہ قانونی طور پر ناقابلِ انتقال قدرتی حق دار تھے۔
راج کے مطابق، مظاہرین نے ان تشویشوں کا اظہار کیا ہے کہ اگر ذخیرے یا منصوبہ بندی کردہ دیگر ذخائر کے ساتھ قدرتی طور پر یا انسانی آفت کے ذریعے کوئی حادثہ پیش آ جاتا ہے تو کون ذمہ دار ہو گا۔
راج نے کہا کہ ایسا واقعہ "ذخیرے کے قریب رہنے والے باشندوں کو نقصان پہنچائے گا، علاقہ اب بنجر، کیمیائی طور پر زہر آلود علاقہ بن گیا ہے۔"