اسلام آباد – ایک نئی تحقیق کے مطابق، چین کے بیلٹ اینڈ روڈ اقدام (بی آر آئی) کے جزُ، کوئلے کے منصوبوں، نے صوبہ سندھ کے ضلع تھر کے رہائشیوں کے لیے مناسب معاوضہ کے بغیر نقل مکانی میں کردار ادا کیا۔
دیگر مقاصد کے ساتھ ساتھ، بی آر آئی کا مقصد چین کے مفاد کے لیے نسبتاً غریب ممالک کے قدرتی وسائل کی کان کنی اور ترسیل بھی ہے۔
ایک نئی تحقیق، "کوئلے کی دوڑ: تھر کے باسیوں پر کوئلے سے توانائی کی پیداوار کے اثرات" میں اتحاد برائے ماحولیاتی انصاف اور ماحول دوست توانائی (اے سی جے سی ای) پاکستان کے "بدقسمتی سے کوئلے کی جانب جانے" پر غور کر رہا ہے۔
اس نے توجہ دلائی کہ کوئلے سے توانائی کے حصول کی تلاش میں، "زمین، پانی، آلودگی، بے روزگاری اور عوامی صحت کے خدشات جیسے مسائل پر بڑے پیمانے پر احتجاج کے باوجود تھر کے باسیوں کی مصیبت کو نظرانداز کر دیا گیا ہے۔"
سول سوسائٹی نیٹ ورک کا کہنا ہے کہ، "کوئلے کے منصوبوں کو ختم کرنے کے وعدوں کے باوجود، ریاستِ پاکستان نے تھر میں کوئلے کی ایک دوڑ کی اجازت دے رکھی ہے، جس میں متعدد قومی اور بین الاقوامی کمپنیاں تھر کے عوام کی بدبختی سے منافع تلاش کر رہی ہیں۔"
یہ نیٹ ورک پاکستان کے اعلیٰ پائے کے ماحولیات دانوں، کمیونیٹی سربراہان اور سول سوسائٹی کے فعالیت پسندوں پر مشتمل ہے۔
تھر کے صحرا میں منصوبوںمیں بی آر آئی کا اینگرو تھر بلاک II کوئلے سے چلنے والا پلانٹ اور تھر کول فیلڈ کے بلاک II میں سطحی کان شامل ہیں۔
اے سی جے سی ای کی تحقیق میں تقریباً 30,000 نفوس پر مشتمل 10 دیہی آبادیوں کا سروے کیا گیا، جو کاشتکاری اور چراگاہوں کے لیے 78,000 ایکڑ زمین تک رسائی رکھتے ہیں۔
اس خطے میں ہندو اکثریت آباد ہے اور یہ پاکستان کے غریب ترین علاقوں میں سے ایک ہے۔ 2019 میں اس نے قحط کے لگاتار تیسرے سال کا سامنا کیا۔
تحقیق میں معلوم ہوا کہ سروے کیے گئے دیہات کے کل رقبے کا تقریباً نصف تھر کول منصوبوں میں استعمال کے لیے حاصل کر لیا گیا ہے یا کر لیا جائے گا، جبکہ 10 میں سے چھ دیہی آبادیوں کے لیے "مکمل نقل مکانی" متوقع ہے۔
تحقیق میں کہا گیا، "ایسی آبادیوں اور خاندانوں میں غیر یقینی کی ایک عمومی فضا ہے، جن کی زمین براہِ راست حاصل نہیں کی گئی، تاہم ماحولی اور ماحولیاتی مسائل کی وجہ سے انہیں بے گھر ہونے کا یقین ہے۔"
کوئلے کی پیداوار کے علاقہ کے بلاک I اور II میں سروے کی گئی آبادیوں کے 80 سے 100 فیصد تک کے لیے نقل مکانی متوقع ہے۔
شکستہ وعدے
اے سی جے سی ای کی تحقیق اور مقامی باشندوں کے مطابق، تھر کے باسیوں کی اکثریت بارانی زراعت اور مویشیوں پر منحصر ہے۔
تحقیق میں معلوم ہوا کہ چند آبادیوں سے ان کے معاش کے نقصان کے ازالہ میں ملازمتوں اور ماہانہ ادائگیوں کا وعدہ کیا گیا تھا۔
تحقیق میں کہا گیا، "لیکن ان میں سے زیادہ تر نے بتایا کہ انہیں نہ تو ماہانہ ادائگیاں ملی، اور نہ ہی ملازمت کے مواقع۔"
تحقیق میں کہا گیا کہ جن چند کو ملازمت ملی، ان کے لیے کوئلے کی کانوں میں کام کرنے کا ماحول "غیر انسانی" ہے، جبکہ سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی کی جانب سے تشدد اور غیر قانونی حراست کی خبریں ہیں۔
چین کی جانب سے فنڈ کیے گئے منصوبوں میں بدسلوکی نے ملک بھر میں احتجاج کو تحریک دی ہے۔
تحقیق میں کان کے ایک کارکن دودو بھیل کا حوالہ دیا گیا، جو پولیس اہلکاروں کے ساتھ مل کر ایس ای سی ایم سی کے عملہ کی جانب سے "غیر قانونی حراست اور شدید تشدد کے نتیجہ میں" جون میں جاںبحق ہو گیا۔
وزارتِ انسانی حقوق کی ایک فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے اگست میں بھیل کی موت کی تحقیقات کیں اور تجویز کیا کہ سینیئر سپرانٹنڈنٹ پولیس اور دیگر پولیس اہلکاروں کو تبدیل کیا جائے اور ان پر "بدانتظامی" کا الزام لگایا جائے۔
مضر اخراج
گزشتہ تحقیقات میں یہ پیشگوئی بھی کی گئی کہ خطے میں کوئلے سے متعلقہ منصوبوں کے براہِ راست نتیجہ کے طور پر تھر کے رہائشیوں کو صحت کے بڑے مسائل کا سامنا کرنا ہو گا۔
سنٹر فار ریسرچ آن اینرجی اینڈ کلین ایئر (ہیلسنکی، فنلینڈ) کی جانب سے مئی 2020 میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق، تھر میں کوئلے کی کانوں اور پاور پلانٹس کا اخراج 30 برس کے عرصہ میں فضائی آلودگی سے متعلقہ 29,000 اموات کا باعث بن سکتا ہے۔
اس آزادانہ تحقیقی تنظیم نے کہا کہ یہ اخراج ہنگامی طبی مراکز میں دمہ سے متعلقہ 40,000 مریضوں، بچوں میں دمہ کے 19,906 نئے واقعات، 32,000 قبل از وقت زچگیوں اور کام سے 20 ملین دن کی چھٹیوں کا باعث بن سکتا ہے۔
اس میں مزید کہا گیا کہ یہ اخراج نظامِ تنفس میں شدید رکاوٹ کے عارضہ، ذیابیطس اور سٹروک سے متعلقہ معذوریوں سے محصور انسانی زندگیوں کے 57,000 برسوں کا باعث بھی بنے گا۔
دسمبر 2018 میں پاکستان کی پارلیمان کی جانب سے مختار کیے گئے قومی کمیشن برائے انسانی حقوق نے تھر کول پراجیکٹ کے آبادی پر معاشرتی اثرات کو دیکھتے ہوئے حکومتِ سندھ اور وفاقی حکومت سے اس مکمل منصوبے پر نظرِ ثانی کرنے کا کہا۔
اس کمیشن نے "علاقہ میں ان کے معاش پر سمجھوتہ اور نمایاں معاشرتی تبدیلیوں کا باعث بننے والی ماحولیاتی ابتری" پر خدشات کا اظہار کیا۔