توانائی

چینی ساختہ بجلی گھر پاکستان کے لیے بڑا معاشی بوجھ

از زرک خان

چین کے صوبے شانژی میں کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر سے دھواں اٹھ رہا ہے۔ [نوئل سیلس / اے ایف پی]

چین کے صوبے شانژی میں کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر سے دھواں اٹھ رہا ہے۔ [نوئل سیلس / اے ایف پی]

پاکستان کے چینی ساختہ کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر، جن پر طویل عرصے سے ماحولیاتی خدشات اٹھتے رہے ہیں، اب کوئلے کی قیمتوں میں اضافے کے درمیان ملک کے لیے ایک بھاری معاشی بوجھ بن چکے ہیں۔

حالیہ ہفتوں میں پاکستان مہنگائی کی وجہ سے پیدا ہونے والے معاشی بحران کے دوران توانائی کے شدید خسارے کا سامنا کر رہا ہے۔ معاملات کو مزید خراب کرنے کے لیے، جنوبی افریقہ میں شہری بدامنی اور روس کے یوکرین پر حملے کی وجہ سے کوئلے کی قیمتیں ریکارڈ بلندی پر پہنچ چُکی ہیں۔.

غیر ملکی ذخائر کی کمی کے باعث اسلام آباد اپنے چینی ساختہ بجلی گھروں کے لیے سستے کوئلے کی تلاش میں ہے۔

27 جون کو وزیر اعظم شہباز شریف نے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں افغانستان سے سستا لیکن اعلیٰ معیار کا کوئلہ درآمد کرنے کے لیے امریکی ڈالر کے بجائے روپیہ استعمال کرنے کی منظوری دی تھی۔

2 جولائی کو کراچی کے رہائشی بجلی کی لوڈشیڈنگ کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے۔ توانائی کے بدتر ہوتے ہوئے بحران پر قابو پانے میں پاکستان کی مدد کرنے کے بجائے چینی ساختہ کوئلے کے بجلی گھر ایک بھاری معاشی بوجھ بن چکے ہیں۔ [زرک خان]

2 جولائی کو کراچی کے رہائشی بجلی کی لوڈشیڈنگ کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے۔ توانائی کے بدتر ہوتے ہوئے بحران پر قابو پانے میں پاکستان کی مدد کرنے کے بجائے چینی ساختہ کوئلے کے بجلی گھر ایک بھاری معاشی بوجھ بن چکے ہیں۔ [زرک خان]

سنہ 2021 کی فائل فوٹو میں ضلع کرم میں خرلاچی بارڈر کراسنگ پر پاکستان میں داخل ہونے کے لیے قطار میں لگے افغانستان سے کوئلہ لے جانے والے ٹرکوں کا ایک گروپ دکھایا گیا ہے۔ [زرک خان]

سنہ 2021 کی فائل فوٹو میں ضلع کرم میں خرلاچی بارڈر کراسنگ پر پاکستان میں داخل ہونے کے لیے قطار میں لگے افغانستان سے کوئلہ لے جانے والے ٹرکوں کا ایک گروپ دکھایا گیا ہے۔ [زرک خان]

سرکاری ریڈیو پاکستان نے خبر دی کہ، "وزیراعظم کو بتایا گیا کہ افغانستان سے کوئلے کی درآمد، جو ابتدائی طور پر صرف ساہیوال اور حب پاور پلانٹس کے لیے درکار تھی، سے درآمدی بل میں سالانہ 2.2 بلین ڈالر سے زیادہ کی بچت ہو گی۔"

تاہم، افغان حکام نے کوئلے کی فی ٹن قیمت 90 ڈالر سے بڑھا کر 200 ڈالر کر دی ہے اور اس کی برآمد پر 30 فیصد ٹیکس عائد کر دیا ہے۔

صوبہ پنجاب میں ہویننگ شینڈونگ روئی-ساہیوال کول پاور پلانٹ اور صوبہ بلوچستان میں حبکو کول سے چلنے والا پاور پلانٹ -- دونوں 1,320 میگاواٹ کی تنصیبات جو کہ نیشنل گرڈ کو بجلی فراہم کرتی ہیں -- چین کے تعمیر کردہ اور اس کی مالی امداد سے چلنے والے بجلی کے منصوبوں میں شامل ہیں جنہیں کام کرنے کے لیے کوئلے کی ضرورت ہے۔

کوئلہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت پاکستان کے توانائی کے منصوبوں کا ایک بڑا حصہ بنا ہے، جو چین کی بیلٹ اینڈ روڈ پہل کاری (بی آر آئی) کا ایک پاکستانی جزو ہے، جسے ون بیلٹ ون روڈ (او بی او آر) بھی کہا جاتا ہے۔

اکتوبر 2021 میں تھرڈ پول نے خبر دی کہ چین کی طرف سے مالی اعانت فراہم کرنے والے توانائی کے 18 "ترجیحی" منصوبوں میں سے نو کوئلے سے چلنے والے ہیں۔

اس نے بتایا کہ ان، چاروں میں سے – بشمول ہویننگ شینڈونگ روئی-ساہیوال کول پاور پلانٹ اور حبکو کوئلے سے چلنے والا پاور پلانٹ – مکمل ہو چُکے ہیں اور سنہ 2017 سے قومی گرڈ کو بجلی فراہم کر رہے ہیں۔

چین نے ستمبر میں اپنے حصے میں آب و ہوا کو گرم کرنے والی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کی عالمی کوششوں میں اپنے تعاون کے حصے کے طور پر سمندر پار کوئلے کے منصوبوں کو ختم کرنے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔.

معاشی بوجھ

اسلام آباد میں حکام اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چین کی مالی اعانت سے چلنے والے کوئلے کے منصوبے حکومت کے لیے معاشی بوجھ بن گئے ہیں۔

پاکستانی وزارتِ خزانہ کے ایک اہلکار نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا، "پاکستان کے لیے اب ملک میں بجلی کے سنگین تر ہوتے ہوئے بحران پر قابو پانے کے لیے مہنگا کوئلہ خریدنا مشکل ہو گیا ہے۔"

انہوں نے کہا، بین الاقوامی منڈی میں کوئلے کی قیمت گرنے سے پہلے مارچ میں 425 ڈالر فی ٹن تک پہنچ گئی تھی۔

اہلکار نے کہا کہ بین الاقوامی کوئلے کی غیر متوقع قیمتیں بجلی پیدا کرنے کے لیے چینی مالی اعانت سے بنے کوئلے سے چلنے والے منصوبوں کو "ناممکن" بنا دیتی ہیں۔

ڈان نے 10 مئی کو خبر دی کہ اگر حکومت 300 بلین پاکستانی روپے واپس ادا نہیں کرتی تو پاکستان میں بجلی پیدا کرنے والی چینی فرموں نے مئی میں اپنے پلانٹ بند کرنے کی دھمکی دی تھی۔

چینی کمپنیوں کا کہنا تھا کہ انہیں کوئلے کی قیمتوں کے برابر آنے کے لیے درکار لیکویڈیٹی فراہم نہیں کی گئی۔

پاکستان اب چین سے سی پیک سے منسلک بجلی کے منصوبوں پر قرض میں رعایت مانگ رہا ہے۔

وزارتِ خزانہ کے اہلکار کا کہنا تھا، "بیجنگ، جو 'ہر موسم کا دوست' ہونے کا دعویدار ہے ... نے اس کی بجائے اپنے قرضوں کی ادائیگی کے لیے [پاکستان پر] مسلسل دباؤ ڈالا ہے۔"

ماحولیاتی خطرات

پاکستان میں سی پیک سے منسلک کوئلے سے چلنے والے منصوبوں پر طویل عرصے سے جنوبی ایشیاء میں فضائی آلودگی پھیلانے کی بڑی وجہ ہونے اور مقامی آبادی کو صحت کے سنگین خطرات سے دوچار کرنے کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے۔

تھر میں کوئلے کی کانیں اور پاور پلانٹس بنانے اور چلانے کے منصوبے کے نتیجے میں ایک رپورٹ میں سنگین نتائج کی تنبیہ کی گئی ہے۔

مئی 2020 میں واشنگٹن ڈی سی میں قائم تھنک ٹینک، سینٹر فار ریسرچ آن انرجی اینڈ کلین ایئر (سی آر ای اے) نے "تھر، پاکستان میں فضائی آلودگی، صحت اور کوئلے کی مجوزہ کان کنی اور پاور کلسٹر کے زہریلے اثرات" پر ایک مطالعہ شائع کیا تھا۔"

مطالعہ کے مطابق، چلنے کی 30 سال مدت کے دوران، تھر میں کوئلے کی کانوں اور پاور پلانٹس سے اخراج فضائی آلودگی سے ہونے والی 29,000 اموات، دمہ کی وجہ سے شعبۂ ہنگامی حالات میں جانے کے 40,000 واقعات، بچوں میں دمہ کے 19,900 نئے کیسز اور 32,000 قبل از وقت پیدائشوں کے لیے ذمہ دار ہو گا۔

اس میں مزید کہا گیا ہے کہ پلانٹس کے نتیجے میں 20 ملین دن کام سے غیر حاضریاں (بیماری کی چھٹی) ہوں گی اور سانس لینے میں دائمی رکاوٹ کی بیماری، ذیابیطس اور فالج سے متعلقہ معذوریوں سے انسانی جانیں مجموعی طور پر 57،000 سال کے برابر عرصے کے لیے دوچار ہوں گی۔

رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے، "مجوزہ پلانٹس جنوبی ایشیاء میں فضائی آلودگی، پارے اور کاربن ڈائی آکسائید کے اخراج کے سب سے بڑے واضح مقامات میں سے ایک ہوں گے۔ ایک اندازے کے مطابق پلانٹس ہر سال 1,400 کلو گرام پارہ خارج کریں گے، جس میں سے پانچواں حصہ خطے میں زمینی ماحولیاتی نظام میں جمع ہو جائے گا۔"

سی آر ای اے کے مرکزی تجزیہ کار لاؤری مائلیورٹا نے مئی 2020 میں زوم گفتگو کے دوران کہا کہ دریں اثنا، دیگر ممالک موسمیاتی تبدیلیوں، فضائی آلودگی اور اقتصادی اثرات کی وجہ سے کوئلے پر چلنے والے بجلی گھروں کو ختم کر رہے ہیں

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500