ماحول

امریکی حکومت نے سیلاب سے تباہ حال پاکستان کے لیے امداد میں اضافہ کر دیا

پاکستان فارورڈ اور اے ایف پی

یکم ستمبر کو سندھ بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے ایک فضائی دورے میں پاکستان کی نیشنل ڈزاسٹر مینیجمنٹ ایجنسی (این ڈی ایم اے) اور امریکی ایجنسی برائے بین الاقوامی ترقی (یو ایس اے آئی ڈی) کے عہدیداران سیلاب سے ہونے والے نقصان کا اندازہ لگا رہے ہیں۔ [یو ایس اے آئی ڈی/ٹویٹر]

یکم ستمبر کو سندھ بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے ایک فضائی دورے میں پاکستان کی نیشنل ڈزاسٹر مینیجمنٹ ایجنسی (این ڈی ایم اے) اور امریکی ایجنسی برائے بین الاقوامی ترقی (یو ایس اے آئی ڈی) کے عہدیداران سیلاب سے ہونے والے نقصان کا اندازہ لگا رہے ہیں۔ [یو ایس اے آئی ڈی/ٹویٹر]

واشنگٹن – تاریخ میں ملک کے بدترین سیلابوں کے دوران حکومتِ امریکہ پاکستان کو دی جانے والی امداد میں اضافہ کر رہی ہے۔

کئی ماہ تک ہونے والی ریکارڈ مون سون بارشوں کے بعد تقریباً ایک تہائی پاکستان – برطانیہ کے ہجم کا ایک علاقہ – زیرِ آب ہے؛ ان کی وجہ سے 1,300 افراد جاںبحق ہوئے اور گھر، کاروبار، سڑکیں اور پل بہہ گئے۔

امریکی ایجنسی برائے بین الاقوامی ترقی (یو ایس اے آئی ڈی) نے جمعہ (2 ستمبر) کو اعلان کیا کہ سیلاب زدگان کی امداد کے لیے پاکستان کی کاوشوں کی حمایت میں ڈزاسٹر میجنجمنٹ ماہرین کی ایک ٹیم کو تعینات کر رکھا ہے۔

ایجنسی نے کہا، ایلیٹ ڈزاسٹر اسسٹنس رسپانس ٹیم (ڈی اے آر ٹی) ”نقصان کا تخمینہ لگا رہی ہے، ترجیحی ضروریات کی نشاندہی کر رہی ہے، اور معاونت کی موثر اور گارگر ترسیل کو یقینی بنانے کے لیے حکومتِ پاکستان اور انسان دوست شرکاء کے ساتھ قریبی طور پر کام کر رہی ہے۔“

مون سون کی تیز بارشوں کے بعد، 6 ستمبر کو جیکب آباد، صوبہ سندھ میں نوجوان بھینسوں کے ساتھ سیلاب کے پانی میں تیر رہے ہیں۔ [عامر قریشی/اے ایف پی]

مون سون کی تیز بارشوں کے بعد، 6 ستمبر کو جیکب آباد، صوبہ سندھ میں نوجوان بھینسوں کے ساتھ سیلاب کے پانی میں تیر رہے ہیں۔ [عامر قریشی/اے ایف پی]

5 ستمبر کو سکھر، صوبہ سندھ میں کارکنان پاکستان کے داخلی طور پر بے گھر ہونے والے افراد کے لیے خوراک کے امدادی بیگ ایک عسکری طیارے سے اتار کر ایک ٹرک میں لاد رہے ہیں۔ [عامر قریشی/اے ایف پی]

5 ستمبر کو سکھر، صوبہ سندھ میں کارکنان پاکستان کے داخلی طور پر بے گھر ہونے والے افراد کے لیے خوراک کے امدادی بیگ ایک عسکری طیارے سے اتار کر ایک ٹرک میں لاد رہے ہیں۔ [عامر قریشی/اے ایف پی]

اس سے جون سے اب تک تباہ کن مون سون بارشوں سے متاثرہ پاکستان کے عوام کی مدد کے لیے گزشتہ ہفتے امریکہ کی جانب سے اعلان شدہ انسانی ہمدردی کی معاونت مین 30 ملین ڈالر کا اضافہ ہو جائے گا۔

اس بیان میں کہا گیا، ”ان مالیات کے ساتھ، یو ایس اے آئی ڈی شرکاء خوراک سے متعلق فوری ضرورت کی معاونت، غذائیت، مختلف مقاصد کے لیے نقدی، پینے کا پانی، بہتر حفظانِ صحت اور صحت سے متعلق صفائی، اور چھت کی فراہمی کے لیے معاونت کو ترجیح دے رہے ہیں۔“

یو ایس اے آئی ڈی نے کہا، ”ڈی اے آر ٹی کو متحرک کرنے کے ساتھ ساتھ، اس خطے اور واشنگٹن ڈی سی میں حکومتِ امریکہ کا عملہ قریبی طور سے صورتِ حال کی نگرانی کر رہا ہے، بشمول ان ممکنہ وسیع تر اثرات کے، جو سیلاب کی وجہ سے خطے میں آسکتے ہیں۔“

یو ایس اے آئی ڈی نے 16 اگست کو اعلان کیا کہ وہ شدید سیلاب سے متاثرہ پاکستانیوں کی معاونت کے لیے 100,000 ڈالر کی فوری امداد فراہم کر رہا ہے۔

یو ایس اے آئی ڈی نے کہا، ”امریکہ پاکستان کی عوام کا مستحکم معاون رہا ہے اور رہے گا، اور یہ اس ملک کا واحد سب سے بڑا انسان دوست عطیہ دہندہ ہے۔“

امریکی مسلح افواج کی مرکزی کمان (سی ای این ٹی سی او ایم) نے جمعہ کو کہا کہ امریکی محکمۂ دفاع (ڈی او ڈی) بھی پاکستان کے لیے ایک عسکری امدادی مشن کر رہا ہے۔

ترجمان کرنل جو بوکینو نے ایک بیان میں کہا، ” سی ای این ٹی سی او ایم اس امر کا تخمینہ لگانے کے لیے ایک تخمینہ کار ٹیم اسلام آباد روانہ کر رہا ہے کہ ڈی او ڈی، یو ایس اے آئی ڈی کو پاکستان میں سیلاب کے بحران میں مدد کے لیے امریکی معاونت کے جزُ کے طور پر کیا اعانت فراہم کر سکتا ہے۔“

ترجمان نے کہا کہ اس فیصلہ کے بعد جمعرات کو یو ایس اے آئی ڈی کمانڈر جنرل مائیکل ایریک کُرِلّا اور پاکستان کی مسلح افواج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے درمیان ٹیلی فونک بات چیت ہوئی۔

خوراک کی سلامتی خطرے میں

اقوامِ متحدہ (یو این) نے جمعہ کو تنبیہ کی کہ پاکستان میں سیلاب ہمسایہ افغانستان کے انسانیت سوز بحران سے اسے نجات دلانے کے لیے وہاں خوراک کی ترسیل میں بھی بڑی رکاوٹ پیدا کر رہا ہے۔

حکام نے موسمیاتی تبدیلی کو موردِ الزام ٹھہرایا ہے جو شدید موسمیاتی واقعات کی شدت اور تواتر میں اضافہ کر رہے ہیں۔

اقوامِ متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) نے کہا کہ خوراک سے متعلقہ امداد کی اکثریت پاکستان کے راستے بذریعہ سڑک ہوتی تھی – ایک نیٹ ورک جو ملکی تاریخ کے بدترین سیلاب سے شدید متاثر ہوا۔

ڈبلیو ایف پی کے پاکستان کے کنٹری ڈائریکٹر کرس کے نے کہا، ”اس وقت ہماری پوری توجہ پاکستان میں لوگوں کی ضروریات پر ہے، لیکن ہم جو یہاں دیکھ رہے ہیں اس کی تباہ کاریاں وسیع تر ہیں۔“

ہم فوری اور درمیانی مدت کے لیے نہ صرف پاکستان میں بطورِ کل خوراک کی سلامتی، بلکہ افغانستان میں آپریشنز کے لیے اس کے ممکنہ نتائج سے متعلق بھی بہت بہت تشویش کا شکار ہیں۔

انہوں نے کہا، ”پاکستان افغانستان میں اہم رسدی راستہ فراہم کرتا ہے۔“ افغانوں کی خوراک کی بڑی مقدار کراچی بندرگاہ کے ذریعے داخل ہوتی ہے۔

کے نے دبئی سے ویڈیو لنک کے ذریعہ جینیوا میں صحافیوں کو بتایا، ”بہہ جانے والی سڑکیں ہمیں ایک بڑے لاجسٹک چیلنج سے دوچار کرتی ہیں۔“

”ڈبلیو ایف پی نے افغانستان میں آپریشنز میں معاونت کے لیے گزشتہ برس 320,000 میٹرک ٹن کی خریداری کی۔ پاکستان میں سیلاب کی وجہ سے اس استعداد کو بہت بڑا دھچکہ لگے گا۔“

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اس کی اپنی عوام کو کھلانے اور افغانستان کو خوراک کی رسد جاری رکھنے کے لیے زرعی پیداوار کو بحال کرنا ایک ”بڑا مسئلہ“ ہے۔

مزید مسئلہ یہ ہے کہ گندم کی تیار فصل پاکستان کے سیلاب زدہ علاقوں میں ذخیرہ کی گئی تھی ”گندم کا ایک بڑا تناسب بہہ چکا ہے۔“

پاکستان میں خواراک سے متعلق سلامتی کی صورتِ حال سیلاب سے قبل بھی ”گھمبیر“ تھی، 43 فیصد باشندوں کی خوراک غیر محفوظ تھی اور ملک بھوک کے عالمی اشاریہ پر 116 میں سے 92 ویں درجہ پر تھا۔

کاشتکاروں کی معاونت

امریکہ افغانستان میں انسانی فلاح کی معاونت اور خطے میں افغان پناہ گزینوں کا بھی سب سے بڑا عطیہ دہندہ ہے۔

گزشتہ اگست سے حکومتِ امریکہ نے افغانستان کی عوام کے لیے انسانی فلاح میں 775 ملین ڈالر سے زائد عطیہ کیا ہے۔

گزشتہ ماہ یو ایس اے آئی ڈی نے اقوامِ متحدہ کی تنظیم برائے خوراک و زراعت (ایف اے او) کے لیے مزید 80 ملین ڈالر کے وعدے کا اعلان کیا۔

یو ایس اے آئی ڈی نے 12 اگست کو اعلان کیا کہ یہ معاونت ”افغان کاشتکاروں کے لیے ماحول دوست طریقوں سے غذائیت والی خواک کی پیداوار میں اضافہ کرنے اور معیاری بیجوں اور دیگر زرعی خام مال کی دستیابی میں اضافہ کرنے میں مددگار ہو گی۔“

”یہ مالیات فصلوں میں تنوع اور بشمول چھوٹے پیمانے کے خوراک پیدا کنندگان، خواتین، گھریلو کاشتکاروں، چرواہوں اور ماہی بانوں کی معاونت کے زریعے بہترین زرعی طریقوں کے فروغ سے چھوٹے کاشتکاروں کی موسمی اور معاشی دھچکوں کے خلاف مدافعت کو بہتر بنائیں گی۔“

اس میں کہا گیا، ”یہ معاونت خوراک کی پیداوار کے مستحکم نظاموں کو یقینی بناتے ہوئے، اور زدپزیر افغان خاندانوں کی خوراک کی سلامتی اور غذائیت کو بہتر بناتے ہوئے چھوٹے پیمانے کے افغان زرعی کاروباروں کو بھی فائدہ پہنچائے گی۔“

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500