دہشتگردی

رمضان میں بڑھتے ہوئے حملوں کے بعد ٹی ٹی پی کی عید کی جنگ بندی میں توسیع

از زرک خان

امن کے لیے کام کرنے والوں اور دسمبر 2014 میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) میں ٹی ٹی پی کے قتلِ عام کے شہداء کے لواحقین، نے گزشتہ دسمبر میں اسلام آباد پریس کلب کے باہر ایک احتجاجی مظاہرہ کیا۔ [زرک خان]

امن کے لیے کام کرنے والوں اور دسمبر 2014 میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) میں ٹی ٹی پی کے قتلِ عام کے شہداء کے لواحقین، نے گزشتہ دسمبر میں اسلام آباد پریس کلب کے باہر ایک احتجاجی مظاہرہ کیا۔ [زرک خان]

اسلام آباد -- تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے امن مذاکرات کرنے کے لیے پاکستانی حکومت کے ساتھ جنگ بندی میں توسیع کر دی ہے، حتیٰ کہ اس سے پہلے اس نے پورے ماہِ رمضان میں دہشت گردانہ حملے کیے ہیں

قبائلی عمائدین کے مطابق، عیدالفطر کے لیے ٹی ٹی پی کی جنگ بندی میں اب اگلے پیر (16 مئی) تک توسیع کر دی گئی ہے۔

اس سے قبل 6 مئی کو جنوبی وزیرستان کے عمائدین نے حکومتِ پاکستان اور ٹی ٹی پی کی قیادت کے درمیان مذاکرات کی بحالی کے لیے ایک 35 رکنی کونسل تشکیل دی تھی۔

خان، ایک قبائلی رہنماء جس نے حفاظتی وجوہات کی بناء پر صرف اپنا خاندانی نام استعمال کرنے کی درخواست کی تھی، نے کہا ، "کمیٹی کے ارکان نے ٹی ٹی پی کے قائدین سے ملاقات کے لیے افغانستان کا دورہ کیا تاکہ انہیں جنگ بندی کی منظوری اور امن مذاکرات شروع کرنے پر راضی کیا جا سکے جو گزشتہ برس دسمبر میں معطل ہو گئے تھے"۔

13 اپریل کو کراچی میں بچے افطاری سے پہلے دعا کرتے ہوئے۔ ٹی ٹی پی نے پاکستان میں رمضان کے مقدس مہینے میں 57 حملے کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ [زرک خان]

13 اپریل کو کراچی میں بچے افطاری سے پہلے دعا کرتے ہوئے۔ ٹی ٹی پی نے پاکستان میں رمضان کے مقدس مہینے میں 57 حملے کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ [زرک خان]

انہوں نے کہا، "ہمیں امید ہے کہ جنگ بندی کم از کم ایک ماہ تک جاری رہے گی"۔

ٹی ٹی پی کی جانب سے جاری کردہ ایک خط میں اپنے جنگجوؤں کو "تنظیم کی مرکزی قیادت کے فیصلے کی خلاف ورزی نہ کرنے" کی ہدایت بھی کی گئی ہے۔

اسلام آباد نے ابھی تک اس معاملے پر باضابطہ طور پر کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے۔

گزشتہ نومبر میں، اسلام آباد نے ٹی ٹی پی کے ساتھ امن مذاکرات کیے تھے جس کے نتیجے میں ایک ماہ کی جنگ بندی ہوئی تھی۔

تاہم، 9 دسمبر کو ٹی ٹی پی نے جنگ بندی کے خاتمے کا اعلان کیا تھا اور پاکستان کی جانب سے مختلف جیلوں سے 100 عسکریت پسندوں، جن میں وادی سوات میں گروپ کے سابق ترجمان بھی شامل تھے، کو رہا کرنے سے انکار کرنے کے بعد پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں پر دوبارہ حملے شروع کر دیے تھے۔

امن مذاکرات کی مخالفت

اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ اکتوبر میں اعلان کیا تھا کہ 2014 کے بعد پہلی بار حکومت گروپ کے ساتھ بات چیت کر رہی ہے.

اس فیصلے پر دہشت گردی کے متاثرین اور سول سوسائٹی کے کارکنوں کی طرف سے شدید تنقید کی گئی .

ان کا کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ ماضی کے امن معاہدے امن کی بحالی میں ناکام رہے اور اس کی بجائے عسکریت پسند تنظیم کو حوصلہ اور تقویت ملی۔

ٹی ٹی پی کے قائدین نے 2004، 2005، 2006 اور 2009 میں کیے گئے معاہدوں کی خلاف ورزی کی تھی۔

ٹی ٹی پی نے پاکستانی دفاعی اداروں اور شہریوں پر سینکڑوں حملے کیے ہیں، جن میں دسمبر 2014 میں پشاور میں آرمی پبلک سکول (اے پی ایس) پر حملہ بھی شامل ہے جس میں 145 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے، جن میں زیادہ تعداد بچوں کی تھی .

پاکستان، امریکہ اور اقوام متحدہ ٹی ٹی پی کو دہشت گرد تنظیم قرار دے چکے ہیں۔

ٹی ٹی پی کے خلاف سخت فوجی کارروائی کے سات سال بعد ,، اسلام آباد اب اس گروپ کی واپسی کو روکنے کی کوشش کر رہا ہے۔

" ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں سے بات کرنا دہشت گردی میں جاں بحق ہونے والے ہزاروں بے گناہ لوگوں کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔" یہ کہنا تھا ایک 12 سالہ طالب علم کے رشتہ دار فیصل علی کا۔ جو اے پی ایس میں شہید ہو گیا تھا

انہوں نے کہا کہ ٹی ٹی پی کو معافی کی پیشکش کر کے، حکومت نے عسکریت پسندوں کی حوصلہ افزائی کی ہے، جو اب بھی دہشت گردی کی کارروائیاں کر رہے ہیں۔

کراچی میں انسدادِ دہشت گردی پولیس کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ٹی ٹی پی نے گزشتہ ایک سال کے دوران اعتماد حاصل کیا ہے۔

اسلام آباد میں قائم دفاعی تھنک ٹینک، پاک انسٹیٹیوٹ فار پیس سٹڈیز (پی آئی پی ایس) کے مطابق، پاکستان میں 2021 میں گزشتہ سال کے مقابلے میں دہشت گرد حملوں میں 42 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

پی آئی پی ایس نے مشاہدہ کیا کہ اکیلے سنہ 2021 میں ہی ٹی ٹی پی 87 حملوں کی ذمہ دار تھی (سنہ 2020 کے مقابلے میں 84 فیصد زیادہ)، جن میں 158 افراد جاں بحق ہوئے۔

انسدادِ دہشت گردی کے اہلکار نے کہا، "ایسی صورتحال میں، ٹی ٹی پی کو معافی کی پیشکش کر کے، حکومت نے ناصرف دہشت گرد گروہ کی حوصلہ افزائی کی ہے بلکہ اسے پہچان بھی فراہم کی ہے"۔

رمضان کے دوران پُرتشدد کارروائیاں

ٹی ٹی پی نے 30 مارچ کو رمضان المبارک کے دوران جارحانہ منصوبوں کا اعلان کیا تھا۔ پاکستان میں ماہِ مقدس کا آغاز 3 اپریل کو ہوا تھا۔

ٹی ٹی پی کے ایک ترجمان محمد خراسانی نے اُس وقت کہا، "موسمِ بہار کا حملہ" رمضان کے پہلے دن شروع ہو گا اور اس میں دفاعی قوتوں اور ان کے ساتھیوں کو نشانہ بنایا جائے گا۔

ماہِ مقدس کے اختتام پر جاری ہونے والے ٹی ٹی پی کے ایک بیان کے مطابق، ٹی ٹی پی نے رمضان کے دوران 57 حملے کرنے کا دعویٰ کیا، جن میں 97 افراد جاں بحق اور 100 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔

پاک افغان سرحدی علاقے تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے آزاد مبصرین ٹی ٹی پی کے دعووں کی تصدیق نہیں کر سکے۔

علمائے دین اور امن کے لیے کام کرنے والوں نے ماہِ مقدس میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے پر ٹی ٹی پی کی مذمت کی۔.

اسلام آباد میں مقیم عالمِ دین مفتی عبدالقوی نے کہا، "ٹی ٹی پی، 'دولتِ اسلامیہ عراق و شام (داعش) اور دیگر دہشت گرد گروہوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔"

"وہ رمضان کے مقدس مہینے کا کوئی احترام نہیں کرتے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500