سکھر -- ایک ایسے وقت میں جبکہ پاکستان، ایک دہائی سے زائد کے عرصے میں آنے والے مون سون کے بدترین سیلاب سے نمٹنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے، پیر (29 اگست) کو بڑے پیمانے پر ایک امدادی کارروائی جاری تھی اور بین الاقوامی عطیہ دہندگان نے امداد کی فراہمی شروع کر دی ہے۔
لاتعداد گھر بہہ گئے ہیں، اہم کھیت کھلیان تباہ ہو گئے ہیں اور ملک کے مرکزی دریا کی طرف سے اپنے کناروں کو پھاڑ دینے کا خطرہ ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ جون سے، جب موسمی بارشیں شروع ہوئیں اب تک، 1,061 افراد ہلاک ہو چکے ہیں لیکن حتمی تعداد اس سے زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ سیلابی ندیوں کی وجہ سے سڑکیں اور پل بہہ جانے کے بعد، شمال کے پہاڑی علاقوں میں سینکڑوں دیہات سے رابطہ منقطع ہو گیا ہے۔
سالانہ مون سون بارشیں فصلوں کو سیراب کرنے اور پورے برصغیر میں جھیلوں اور ڈیموں کو بھرنے کے لیے ضروری ہیں، لیکن یہ موسم تباہی بھی لا سکتا ہے۔
نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے کہا کہ اس سال سیلاب نے 33 ملین سے زیادہ افراد -- ہر سات میں سے ایک پاکستانی -- کو متاثر کیا ہے۔
وزیرِ موسمیات شیری رحمان نے پیر کو اے ایف پی کو بتایا کہ "اب ہم جو دیکھ رہے ہیں وہ پانی کا ایک سمندر ہے جو پورے کے پورے اضلاع کو ڈبو رہا ہے۔"
"یہ ایک عام مون سون سے بہت مختلف ہے -- یہ ہماری دہلیز پر آنے والا موسمیاتی ڈسٹوپیا ہے۔"
انہوں نے اسے "دہائی کا عفریت مون سون" قرار دیا۔
اس سال کے سیلاب کا موازنہ 2010 سے کیا جا سکتا ہے -- جو کہ تاریخ کا بدترین سیلاب تھا -- جب 2,000 سے زیادہ لوگ مارے گئے اور ملک کا تقریباً پانچواں حصہ زیر آب آ گیا تھا۔
پانی کا منظر
صوبہ سندھ کے ایک شہر سکھر کے قریب، جو کہ دریائے سندھ پر نوآبادیاتی دور کے ایک پرانے بیراج کا گھر ہے، جو مزید تباہی کو روکنے کے لیے بہت ضروری ہے، ایک کسان نے اپنے چاول کے کھیتوں میں ہونے والی تباہی پر افسوس کا اظہار کیا۔
کئی ہفتوں کی نہ رکنے والی بارش کی وجہ سے، لاکھوں ایکڑ پر مشتمل زرخیز زمین زیر آب آ گئی ہے، لیکن اب دریائے سندھ شمال میں معاون ندیوں سے نیچے کی طرف آنے والے پانی کے دھارے کی وجہ سے، اپنے کناروں سے نکل آنے کا خطرہ پیدا کر رہا ہے۔
خلیل احمد، جن کی عمر 70 سال ہے، نے اے ایف پی کو بتایا کہ "ہماری فصل 5,000 ایکڑ پر پھیلی ہوئی تھی جس پر بہترین کوالٹی کے چاول بوئے گئے تھے جو کہ آپ اور ہم کھاتے ہیں۔"
"وہ سب ختم ہو گیا ہے۔"
سندھ کا بیشتر حصہ اب پانی کا نہ ختم ہونے والا منظر پیش کر رہا ہے، جس کی وجہ سے فوج کی زیر قیادت بڑے پیمانے پر امدادی کارروائی میں بھی رکاوٹ آ رہی ہے۔
ایک سینئر افسر نے اے ایف پی کو بتایا کہ "یہاں لینڈنگ سٹرپس یا اپروچ دستیاب نہیں ہیں... ہمارے پائلٹوں کو لینڈ کرنے میں مشکل پیش آتی ہے۔"
سندھ بھر میں، ہزاروں کی تعداد میں بچ جانے والے افراد، جو کہ اب بے گھر ہو چکے ہیں، نے بلند شاہراہوں اور ریلوے پٹریوں کے ساتھ ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں -- جو کہ دور دور تک نظر آنے والی واحد خشک جگہیں ہیں۔
سکھر کے سٹی رنگ روڈ پر روزانہ مزید ایسے لوگ آ رہے ہیں، جن کا سامان کشتیوں اور ٹریکٹر ٹرالیوں پر لدا ہوا ہے اور جو سیلاب کا پانی کم ہونے تک پناہ کی تلاش میں ہیں۔
فوج کے ہیلی کاپٹر کو بھی، زندہ بچ جانے والوں کو شمال میں محفوظ مقام پر لے جانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جہاں اونچی اونچی پہاڑیاں اور وادیاں پرواز کے لیے خطرناک حالات پیدا کرتی ہیں۔
صوبہ خیبر پختونخوا، جہاں پاکستان کے کچھ بہترین سیاحتی مقامات واقع ہیں -- میں بہت سے دریا -- اپنے کناروں سے باہر نکل آئے ہیں، جس سے کئی عمارتیں منہدم ہو گئی ہیں جن میں 150 کمروں کا وہ ہوٹل بھی شامل ہے جو کہ تیز ہواؤں میں منہدم گیا ہے۔
چارسدہ میں مچھلیوں کے دو فارمز کے مالک 23 سالہ جنید خان نے کہا کہ "جو گھر ہم نے برسوں کی محنت سے بنایا تھا وہ ہماری آنکھوں کے سامنے ڈوبنے لگا۔"
"ہم سڑک کے کنارے بیٹھ کر اپنے خوابوں کے گھر کو ڈوبتے دیکھ رہے تھے۔"
مجموعی طور پر پاکستان میں معمول سے دوگنی مون سون بارشیں ہوئی ہیں، لیکن حکام کے مطابق، بلوچستان اور سندھ میں گزشتہ تین دہائیوں کی اوسط سے چار گنا زیادہ بارشیں ہوئی ہیں۔
بین الاقوامی امداد
حکومت نے ہنگامی حالت کا اعلان کرتے ہوئے بین الاقوامی مدد کی اپیل کی ہے۔
وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے رائٹرز کو بتایا کہ "میں نے اس پیمانے کی تباہی نہیں دیکھی۔ مجھے الفاظ میں بیان کرنا بہت مشکل لگ رہا ہے ... یہ بہت ہی زیادہ ہے"۔ انہوں نے مزید کہا کہ آبادی کی اکثریت کو ذریعہ معاش فراہم کرنے والی بہت سی فصلیں ختم ہو چکی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ "ظاہر ہے اس کا اثر مجموعی اقتصادی صورتحال پر پڑے گا"۔
پاکستان کے لیے یہ سیلاب اس سے بدتر وقت پر نہیں آ سکتا تھا، جہاں معیشت پہلے ہی تیزی سے تنزل کا شکار ہے۔
پیر کو واشنگٹن میں، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ایگزیکٹو بورڈ کا اجلاس ہونا طے تھا تاکہ اس بات کا فیصلہ کیا جا سکے کہ آیا ملک کو اپنے غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کے لیے ضروری 6 بلین ڈالر کے قرضے کے پروگرام کو دوبارہ شروع کرنے کے لیے ہری جھنڈی دکھائی جائے گی یا نہیں لیکن یہ بات پہلے سے ہی واضح ہو گئی ہے اس مون سون کے بعد، ملک کو مرمت اور تعمیر نو کے لیے مزید کی ضرورت ہو گی۔
بنیادی اشیا کی قیمتیں خاص طور پر پیاز، ٹماٹر اور چنے کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں کیونکہ دکاندار سیلاب زدہ صوبوں سندھ اور پنجاب سے جو کہ ملک کے خوراک پیدا کرنے والے علاقے ہیں، سے آنے والی فراہمی میں کمی کا رونا رو رہے ہیں۔
امریکہ کی حکومت نے 16 اگست کو اعلان کیا کہ وہ امریکی ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی (یو ایس ایڈ) کے ذریعے شدید سیلاب سے متاثرہ پاکستانیوں کی مدد کے لیے فوری طور پر 100,000 ڈالر کی امداد فراہم کر رہی ہے۔
اس نے کہا کہ اس امداد سے "سب سے زیادہ متاثر ہونے والی برادریوں کی فوری ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کثیر مقصدی نقد امداد فراہم کی جائے گی"۔
اتوار کو ترکی اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای) سے امدادی پروازیں پہنچنا شروع ہو گئیں۔
کراچی میں ترک قونصل جنرل کیمل سانگو کے مطابق، امدادی سامان سے لدے دو ترک طیارے اتوار کو کراچی پہنچے اور امدادی سامان سے لدے مزید دو طیاروں کی پیر کو پہنچنے کی امید ہے۔
پاکستان میں متحدہ عرب امارات کے سفیر حماد عبید الزابی نے کہا کہ پہلا اماراتی امدادی طیارہ پیر کی صبح پاکستان پہنچا اور آنے والے دنوں میں اس کے بعد مزید کئی جہاز آئیں گے۔
دی نیشنل نے پیر کو خبر دی کہ امداد میں تقریباً 3,000 ٹن کھانے پینے کا سامان، طبی سامان اور ادویات اور خیمے اور پناہ گاہوں کا سامان شامل ہے۔