ماحول

سیلاب متاثرین کی امداد میں اضافے کے لیے اقوامِ متحدہ کے سربراہ پاکستان میں

از پاکستان فارورڈ اور اے ایف پی

8 ستمبر کو صوبہ بلوچستان کے ضلع جعفرآباد میں مون سون کی شدید بارشوں کے بعد اندرونِ ملک بے گھر پاکستانی سیلابی پانی سے گزر رہے ہیں۔ [فدا حسین/اے ایف پی]

8 ستمبر کو صوبہ بلوچستان کے ضلع جعفرآباد میں مون سون کی شدید بارشوں کے بعد اندرونِ ملک بے گھر پاکستانی سیلابی پانی سے گزر رہے ہیں۔ [فدا حسین/اے ایف پی]

اسلام آباد -- اقوامِ متحدہ (یو این) کے سربراہ انتونیو گوتریس نے جمعہ (9 ستمبر) کے روز سیلاب سے متاثرہ پاکستان کا دو روزہ دورہ شروع کیا جس سے حکام کو امید ہے کہ یہ لاکھوں افراد کو متاثر کرنے والے انسانی بحران کے لیے عالمی امداد میں اضافہ کرے گا۔

ملک کا ایک تہائی حصہ زیرِ آب ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ ریکارڈ بارشیں ہوئی ہیں جسے گوتریس نے "سٹیرائڈز پر مون سون" قرار دیا ہے۔

پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ تباہ شدہ بنیادی ڈھانچے کی تعمیرِ نو اور مرمت پر کم از کم 10 بلین ڈالر لاگت آئے گی -- جو کہ بہت زیادہ مقروض قوم کے لیے ایک ناممکن رقم ہے -- لیکن فی الحال ترجیح، لاکھوں بے گھر افراد کے لیے خوراک اور رہائش ہے۔

"سب کچھ ڈوب گیا، سب کچھ بہہ گیا،" بخار میں مبتلا ایاز علی نے اس وقت کہا، جب وہ جمعرات کے روز ہچکچاتے ہوئے بحریہ کی ایک کشتی جو جنوبی صوبہ سندھ میں سیلاب زدہ دیہی علاقوں سے دیہاتیوں کو بچا رہی تھی، پر اپنی جگہ سنبھال رہا تھا۔

پاکستان جاتے ہوئے ایک ٹویٹ میں، گوتریس نے کہا کہ وہ "ضرورت کے وقت لوگوں کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں، بین الاقوامی حمایت حاصل کرنا چاہتے ہیں اور عالمی توجہ موسمیاتی تبدیلی کے تباہ کن اثرات کی طرف مبذول کروانا چاہتے ہیں"۔

پاکستان میں اپنے سالانہ مون سون سیزن کے دوران بھاری -- اکثر تباہ کن -- بارشیں ہوتی ہیں، جو زراعت اور پانی کی فراہمی کے لیے بہت اہم ہیں۔

لیکن اس سال جتنی شدید بارش کئی دہائیوں سے نہیں دیکھی گئی، اور حکام موسمیاتی تبدیلی کو اس کے لیے موردِ الزام ٹھہراتے ہیں۔

عالمی سطح پر پاکستان گرین ہاؤس گیسوں کے 1 فیصد سے بھی کم اخراج کا ذمہ دار ہے لیکن غیر سرکاری تنظیم جرمن واچ کی طرف سے مرتب کردہ ان ممالک کی فہرست میں آٹھویں نمبر پر ہے جنہیں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے شدید موسم کا سب سے زیادہ خطرہ سمجھا جاتا ہے۔

انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد آ رہی ہے

حکومتِ پاکستان اور اقوامِ متحدہ کی جانب سے گزشتہ ماہ سیلاب سے متعلق امدادی منصوبے میں فوری طور پر 160 ملین ڈالر کی بین الاقوامی فنڈنگ کا مطالبہ کیا گیا، اور امداد پہلے ہی پہنچ رہی ہے۔

جمعرات کے روز، امریکی فضائیہ کا ایک سی-17 اترا – جو کئی برسوں میں پاکستان پہنچنے والا پہلا امریکی فوجی طیارہ ہے -- اور عارضی پناہ گاہوں کے لیے خیمے اور ترپالیں لے کر آیا۔

گزشتہ ہفتے، امریکی ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی (یو ایس ایڈ) نے پاکستان کی سیلاب سے نمٹنے کی کوششوں میں مدد کے لیے قدرتی آفافت کے ماہرین کی ایک ٹیم تعینات کی تھی.

امریکی مسلح افواج کی سینٹرل کمانڈ (سینٹکام) نے 2 ستمبر کو ایک بیان میں کہا کہ امریکی محکمۂ دفاع (ڈی او ڈی) پاکستان کے لیے ایک فوجی امدادی مشن بھی چلا رہا ہے۔

ترجمان کرنل جو بکینو نے کہا، "سینٹکام ایک جائزہ ٹیم اسلام آباد بھیج رہا ہے تاکہ یہ تعین کیا جا سکے کہ امریکی محکمۂ دفاع یو ایس ایڈ کو پاکستان میں سیلاب کے بحران میں امریکہ کی مدد کے ایک جزو کے طور پر کیا ممکنہ مدد فراہم کر سکتا ہے"۔

یو ایس ایڈ نے 16 اگست کو اعلان کیا کہ وہ شدید سیلاب سے متاثرہ پاکستانیوں کی مدد کے لیے فوری طور پر 100,000 ڈالر فراہم کر رہا ہے، اور اس نے ماہ کے آخر میں مزید 30 ملین ڈالر کی انسانی امداد کا وعدہ کیا ہے۔

موت اور تباہی

پاکستانی محکمۂ موسمیات کا کہنا ہے کہ سنہ 2022 میں پاکستان میں معمول سے پانچ گنا زیادہ بارشیں ہوئی ہیں۔

موسلا دھار بارشوں کا اثر دوگنا رہا ہے - شمال کے پہاڑی علاقہ جات میں دریاؤں میں اچانک سیلاب جس نے منٹوں میں سڑکیں، پُل اور عمارتیں بہا دیں، اور جنوبی میدانی علاقوں میں پانی کا آہستہ آہستہ جمع ہونا جس نے سینکڑوں ہزاروں مربع کلومیٹر کا رقبہ زیرِ آب کر دیا ہے۔

جمعرات کے روز بلوچستان کے ضلع جعفرآباد میں، دیہاتی اُلٹی کی ہوئی لکڑی کی "چارپائیوں" بستروں سے بنے عارضی بیڑوں پر اپنے گھروں سے بھاگ رہے تھے۔

جنوب اور مغرب میں خشک قطعہ ہائے زمین پر ہزاروں عارضی کیمپ سائٹس پھیل چکی ہیں -- اکثر سڑکیں اور ریلوے ٹریک پانی کے منظر میں واحد اونچی زمین ہوتی ہے۔

لوگوں اور مویشیوں کے اکٹھے تنگ ہونے کی وجہ سے، کیمپ بیماری کے پھیلنے کے لیے تیار ہیں، مچھروں سے پھیلنے والے ڈینگی کے ساتھ ساتھ خارش کے بہت سے کیس رپورٹ ہوئے ہیں۔

قومی ادارہ برائے قدرتی آفات کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق سیلاب سے تقریباً 1400 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔

تقریباً 7,000 کلومیٹر سڑکوں کو نقصان پہنچا ہے، تقریباً 246 پُل بہہ گئے ہیں اور 1.7 ملین سے زیادہ گھر اور کاروبار تباہ ہو گئے ہیں۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 2

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

2022 میں جو سیلاب ایا تھا اس میں ہمارے گھر نہیں لکھے گئے03400202411

جواب

پاکستان میں جو بھی امداد آتی ہے، اس میں سے زیادہ تر فوج کی جیبوں میں جاتی ہے۔ بین الاقوامی برادری میں سے جو کوئی سیلاب زدگان کی مدد کرنا چاہتا ہے براہِ راست لوگوں کی مدد کرے۔ حکومت یا فوج کے ذریعہ دی گئی تمام تر امداد حکام کی جیبوں میں جائے گی.

جواب