تعلیم

بیٹیوں کی تعلیم کے حصول کے لیے خاندان افغانستان چھوڑ کر جا رہے ہیں

از احسان اللہ

افغانستان کے اسکولوں کی طالبات، 30 مارچ کو کابل کے مضافات میں ضلع پغمان میں بارش کے دوران، ایک سڑک پر سے گزر رہی ہیں۔ [وکیل کوہسار/اے ایف پی]

افغانستان کے اسکولوں کی طالبات، 30 مارچ کو کابل کے مضافات میں ضلع پغمان میں بارش کے دوران، ایک سڑک پر سے گزر رہی ہیں۔ [وکیل کوہسار/اے ایف پی]

کابل - بہت سے ایسے افغان خاندان، جن میں اسکول جانے کی عمر کے بچے موجود ہیں، اپنا وطن چھوڑ کر جا چکے ہیں یا اپنی بیٹیوں کی تعلیم کے حصول کے لیے ایسا کرنے پر غور کر رہے ہیں جب کہ افغانستان میں لڑکیوں کے اسکول ابھی بھی بند ہیں۔

کچھ خاندانوں نے سلام ٹائمز کو بتایا کہ انہوں نے نقل مکانی کے عمل میں موجود مشکلات کے باوجود ملک چھوڑ دیا ہے جبکہ دوسروں نے کہا کہ وہ جلد از جلد ملک چھوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

کابل سے تعلق رکھنے والے احمد شاہ سخی زادہ، جو اب پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں رہتے ہیں، نے کہا کہ اس نے افغانستان کو "اپنی بیٹیوں کے مستقبل کے لیے چھوڑا، تاکہ وہ اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں"۔

سخی زادہ نے سلام ٹائمز کو بتایا کہ انہیں بہت امیدیں ہیں کہ ان کی بیٹیاں، جو اب ساتویں اور نویں جماعت میں ہیں، بالآخر طبی یا مالیاتی شعبوں میں پیشہ ورانہ زندگی گزارنے کی اہل ہو جائیں گی۔

انہوں نے کہا کہ اگست 2021 کے بعد سے "وہ گھر میں قید تھے"۔ "اب چونکہ افغانستان میں لڑکیوں کے سکول بند کر دیے گئے ہیں، مجھے پاکستان ہجرت کرنا پڑی۔"

انہوں نے کہا کہ "میں نے نقل مکانی سے جڑے انتہائی زیادہ اخراجات کو پورا کرنے کے لیے افغانستان میں اپنا گھر، گاڑی اور اپنا تمام سامان کم قیمت پر بیچ دیا۔ یہ بہت تکلیف دہ ہے۔"

کابل کے رہائشی شکیب منصوری، جن کی تین بیٹیاں ہیں، نے سلام ٹائمز کو بتایا کہ انہوں نے اِن کی خاطر افغانستان چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ "ہمیں امید تھی کہ رواں سال کے آغاز میں لڑکیوں کے اسکول کھل جائیں گے اور میری بیٹی اس میں شرکت کر سکے گی۔ تاہم، اب ہم بالکل نا امید ہو چکے ہیں۔"

منصوری نے کہا کہ ان کی تین بیٹیاں اگست 2021 سے پہلے آٹھویں، دسویں اور گیارہویں جماعت میں تھیں لیکن اب ممکنہ طور پر وہ سکول نہیں جا سکیں گی۔

انہوں نے کہا کہ "میرے خاندان میں ہر کوئی تعلیم یافتہ ہے اور ہم سب تعلیم کی اہمیت اور قدر کو تسلیم کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے ملک چھوڑ کر کہیں دوسری جگہ جانے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ میری بیٹیاں پڑھ سکیں"۔

کابل کی رہائشی فرشتہ یعقوبی نے بھی اپنی بیٹیوں کے مستقبل کے لیے افغانستان کو چھوڑ کر جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے یہ بات سلام ٹائمز کو بتائی۔

یعقوبی نے کہا کہ "میری بیٹی 12ویں جماعت میں تھی اور وہ یونیورسٹی جا چکی ہوتی اور میری دوسری بیٹی 10ویں جماعت میں تھی اور اسے اب تک ہائی سکول مکمل کر لینا چاہیے تھا۔ تاہم، وہ اپنی تعلیم جاری نہیں رکھ سکیں۔"

ان کی دماغی صحت اور تندرستی کی فکر میں -- دونوں ہی اسکول کو جاری رکھنے میں ناکامی کے باعث شدید متاثر ہوئی ہیں -- یعقوبی نے ایک مغربی ملک کی طرف ہجرت کرنے کی لاگت کو پورا کرنے کے لیے اپنا گھر 1.2 ملین افغانی (13,900 ڈالر) میں بیچ دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ "ہم ملک کو ضرورت کے تحت چھوڑ رہے ہیں اور یہ کوئی آسان فیصلہ نہیں ہے"۔

ناقابل تلافی نقصان

کابل میں مقیم، سول سوسائٹی کے کارکن رحیم اللہ مرزائی نے سلام ٹائمز کو بتایا کہ لڑکیوں کو تعلیم جاری رکھنے سے روکنے سے، آنے والی نسلیں بنیادی خواندگی اور دیگر مہارتوں سے محروم ہو جائیں گی، جس کے معاشرے پر وسیع اثرات مرتب ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ "لڑکیوں کو تعلیم سے محروم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آنے والے چند سالوں میں ہمارے پاس خواتین پروفیسرز، خواتین ڈاکٹرز یا نرسیں یا دیگر شعبوں میں خواتین موجود نہیں ہوں گی۔"

"یہ معاشرے کے لیے ایک بڑا چیلنج بن جائے گا۔"

مرزائی نے کہا کہ "ہم نے دیکھا ہے کہ افغان شہریوں کی ایک بہت بڑی تعداد، لڑکیوں کے اسکولوں کی بندش کی وجہ سے گزشتہ ڈیڑھ سال میں ملک چھوڑ کر جا چکی ہے۔" مرزائی نے کہا کہ بہت سے لوگوں کو ہجرت کرنے کی کوشش کے دوران مشکلات اور بعض اوقات تو موت کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے۔

ترکی سے تعلق رکھنے والے یونیورسٹی کے لیکچرار فہیم چکری نے سلام ٹائمز کو بتایا کہ "خواتین افغان معاشرے کا تقریبا نصف حصہ ہیں۔ لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی، ملک کی معیشت اور سماجی حالت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاتی ہے"۔

چکری نے کہا کہ ایسے خاندانوں کا اخراج، جو افغانستان چھوڑ کر اس لیے جا رہے ہیں تاکہ ان کی بیٹیاں سکول جا سکیں "ملک کے تعلیمی نظام کے لیے اچھا نہیں ہے"۔

انہوں نے مزید کہا کہ "لڑکیوں کے اسکول جانے پر مسلسل پابندی ہمارے معاشرے کے لیے ایک بہت بڑا دھچکا ہو گا" اور طویل مدت میں اس کے سنگین سماجی اثرات مرتب ہوں گے۔

کینیڈا میں مقیم انسانی حقوق کی محافظ دیما ہیرام، جو کئی سالوں سے افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم تک رسائی کو بہتر بنانے کے لیے کوششیں کر رہی ہیں، نے کہا کہ افغانستان میں موجودہ صورتحال "مایوس کن" ہے۔

انہوں نے سلام ٹائمز کو بتایا کہ "بہت سے افغان خاندان اپنی بیٹیوں کے مستقبل کے لیے ملک چھوڑ کر جا چکے ہیں اور اس لیے کہ وہ نہیں چاہتے کہ ان کی بیٹیاں اور خواتین رشتہ دار خوف اور بے یقینی کے حالات میں اپنی زندگیاں گزاریں۔"

انہوں نے کہا کہ "ایسا لگتا ہے کہ عالمی برادری نے گزشتہ سال کے دوران، 20 ملین افغان لڑکیوں اور خواتین کو درپیش مصیبتوں اور مصائب کو بھلا دیا ہے"۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ "ذلت آمیز" ہے کہ 21ویں صدی میں خواتین کو اپنے بنیادی حقوق کے لیے بھیک مانگنا پڑ رہی ہے۔

اروین آن لائن اسکول کے پرنسپل سید بشیر طارق نے لڑکیوں کے اسکولوں کی بندش پر انتہائی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کے پاس اس صورتحال کے بارے میں اپنے جذبات کو بیان کرنے کے لیے مناسب الفاظ نہیں ہیں۔

طارق نے کہا کہ "افغانستان کا تقریباً نصف معاشرہ خواتین پر مشتمل ہے اور [اسکولوں سے] گریڈ چھ سے اوپر کی جماعتوں میں لڑکیوں کی غیر موجودگی، کئی نسلوں کو ناخواندہ رہنے اور تعلیم سے دور رہنے پر مجبور کرے گی۔"

"یہ ہمارے معاشرے کے لیے بہت بڑا دھچکا ہو گا۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500