مذہب

مسلمانوں کی جانب سے چین کی جائے نمازوں کی بطور آرائشی غالیچے 'ناقابلِ قبول' فروخت کی مذمت

از ضیاء الرحمان

کراچی کا ایک باشندہ 15 جولائی کو کمپیوٹر پر جائے نمازوں کی بطور آرائشی غالیچے فروخت کی خبر پڑھتے ہوئے۔ [ضیاء الرحمان]

کراچی کا ایک باشندہ 15 جولائی کو کمپیوٹر پر جائے نمازوں کی بطور آرائشی غالیچے فروخت کی خبر پڑھتے ہوئے۔ [ضیاء الرحمان]

اسلام آباد -- گزشتہ ماہ چین کے ایک آن لائن خوردہ فروش کی جانب سے جائے نمازوں کی بطور آرائشی غالیچے فروخت نے پاکستان سمیت دنیا بھر کے گاہکوں میں غصے کی ایک لہر دوڑا دی ہے۔

خواتین کے فیشن کی ایک چینی کمپنی، شین کی جانب سے فروخت کردہ غالیچے اس قسم کے نظر آتے تھے جیسے مسلمان استعمال کرتے ہیں اور ان پر کعبہ کی تصاویر نیز "رمضان کریم" کے الفاظ درج تھے۔

آن لائن خوردہ فروش کی جانب سے استعمال کردہ غالیچوں کی کچھ وضاحتوں میں "جھالر والے قالین،" "جھالر والے یونانی آرائشی قالین" اور "جھالر والے تصویری قالین" شامل تھیں۔

پاکستانیوں سمیت بہت سے گاہکوں نے یہ کہتے ہوئے سوشل میڈیا پر اپنی ناراضگی کا اظہار کیا کہ انہیں چینی خوردہ فروش کی مذہبی بے حسی پر افسوس ہوا ہے اور غصہ ہے کہ چینی فروخت کنندہ جائے نمازوں کو بطور غالیچے فروخت کر کے منافع کمانے کی کوشش کر رہا ہے۔

کراچی میں ایک تاجر 14 جولائی کو قالین اور جائے نماز فروخت کرتے ہوئے۔ [ضیاء الرحمان]

کراچی میں ایک تاجر 14 جولائی کو قالین اور جائے نماز فروخت کرتے ہوئے۔ [ضیاء الرحمان]

انسٹاگرام پر صحافت کی ایک طالبہ خدیجہ رضوی کا کہنا تھا، "مجھے کراہت ہوئی ہے۔ مجھے سخت غصہ ہے۔"

رضوی جنہوں نے شین کمپنی کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا، ان کا کہنا تھا، "چند ایک پر 'کعبہ' کی تصاویر چھپی ہوئی ہیں۔ یہ انتہائی غصہ دلانے والی بات ہے۔"

"ناصرف یہ بے ادبی ہے، بلکہ انہوں نے ایک بار پھر اس کا نام تبدیل کیا ہے اور اس بار اسے جائے نماز قرار دینے میں ناکام رہتے ہوئے پورے عقیدے سے اس کا کریڈٹ چرا لیا ہے۔ یہ لوگوں کو اسے عام طور پر بطور ایک آرائشی غالیچہ استعمال کرنے کے قابل بناتا ہے۔"

مذہب کی بے ادبی

یہ پہلی بار نہیں ہے کہ کمپنی نے متنازعہ کام کیا ہے۔ شین کی مذمت اس وقت بھی ہوئی تھی جب اس نے اپنی ویب سائٹ پر سواستیکا کی شکل والے نیکلس فروخت کے لیے پیش کیے تھے۔

جائے نمازوں کی بطور آرائشی غالیچے فروخت پر عالمی سطح پر شدید مذمت کے بعد، چینی کمپنی نے 5 جولائی کو ایک انسٹاگرام پوسٹ کے ذریعے معذرت کی اور کہا کہ فیشن کمپنی سے ایک "سنگین غلطی" سرزد ہوئی ہے۔

شین کا مزید کہنا تھا کہ اس نے ان مصنوعات کو اپنی سائٹ سے ہٹا دیا ہے نیز اپنے فروخت کاروں سے کہا ہے کہ وہ دوسرے خوردہ فروشوں کو غالیچوں کی فروخت بند کر دیں۔

تاہم تاجروں اور علمائے دین کا کہنا ہے کہ فرم کی جانب سے غالیچوں کی فروخت سے منافع کمانے کی کوشش چین کی مذہب اور دیگر ثقافتوں اور اقدار کے لیے بے حسی اور بے ادبی کی نشاندہی کرتی ہے۔

کراچی میں ایک دینی عالم، مولانا عبدالباقی نے کہا، "پوری امتِ مسلمہ چینی کمپنی کے فعل پر چین پر ناراضگی کا اظہار کر رہی ہے۔"

"یہ قابلِ مذمت اور ناقابلِ قبول فعل ہے۔"

یہ واقعہ اس وقت پیش آیا ہے جب بیجنگ کو سنکیانگ کے علاقے میں مسلمان اقلیت پر کریک ڈاؤن کے لیے بڑھتے ہوئے بین الاقوامی دباؤ کا سامنا ہے۔

گزشتہ چند برسوں میں بیجنگ نے سینکڑوں ہزاروں مسلمانوں، بشمول نسلی قازقوں اور کرغیزوں کو تلقینِ عقیدہ کیمپوں میں رکھا ہوا ہے، اور امریکہ نے یغور اور دیگر مسلمان گروہوں کے ساتھ اس کی "خوفناک اور ایک منظم انداز سے بدسلوکی" کے لیے حکومت پر پابندیاں عائد کی ہوئی ہیں۔

ڈائٹ پرادا، ایک انسٹاگرام اکاؤنٹ جو فیشن کی صنعت کے واچ ڈاگ کا کام کرتا ہے اور باقاعدگی کے ساتھ فیشن کی دنیا میں غلط کاریوں کی مذمت کرتا ہے، نے جائے نمازوں کے متعلق پوسٹ کی ہے۔

آسٹریلیا کے تزویراتی پالیسی ادارے (اے ایس پی آئی) کی مارچ کی ایک رپورٹ جس کا عنوان "یغور برائے فروخت -- 'دوبارہ تعلیم'، جبری مشقت اور سنکیانگ سے آگے تک حراست" ہے، ڈائٹ پرادا نے 6 جولائی کو کہا کہ 83 غیر ملکی، بیشتر چینی، کمپنیاں، بلاواسطہ یا بالواسطہ طور پر، یغوروں کی جبری مشقت سے منسلک رہی ہیں۔

اے ایس پی آئی کا اندازہ تھا کہ کم از کم 80،000 یغور افراد کو پورے چین میں رسد کی مختلف کمپنیوں کے سلسلوں میں کام کرنے کے لیے سنکیانگ سے باہر منتقل کیا گیا تھا۔

خراب آلات کی فروخت

لاہور کے مقامی ایک کاروباری شخص، حسن جاوید، جو ماضی میں چینی کمپنیوں کے ساتھ کام کرتے رہے ہیں، نے کہا، "چینی کمپنیاں منافع کمانے کے لیے کچھ بھی کر گزریں گی اور نسل پرست یا ثقافتی طور پر بے حس ہیں۔"

جاوید نے کہا، "وہ [چینی کمپنیاں] خراب اشیاء فروخت کرتی ہیں اور تاجروں کو دھوکہ دیتی ہیں۔" انہوں نے حکومتِ پاکستان سے چینی تاجروں کے امور کی نگرانی کرنے اور مقامی کاروباری اداروں کو ان کی دھوکہ دہی والی سرگرمیوں سے محفوظ کرنے کا مطالبہ کیا۔

بیجنگ اور چینی کمپنیوں کو کورونا وائرس کی عالمی وباء کے دوران پاکستان سمیت دیگر ممالک کو ناقص معیار کی ذاتی حفاظت کی اشیاء فروخت کرنے پر بھی تنقید کا سامنا رہا ہے۔

علاوہ ازیں، چینی ساختہ ٹیسٹ کٹس جو کووڈ-19 کا سراغ لگاتی ہیں غلط نتائج دے رہی ہیں، جس سے پاکستانی محکمۂ صحت کے اہلکاروں اور ٹیسٹ کروانے والوں دونوں کے لیے بڑے مسائل اور بے آرامی پیدا ہو رہی ہے۔

حال ہی میں، امریکی محکمۂ انصاف نے ایک چینی کمپنی پر قانونی دعویٰ کیا تھا جس کا سبب اپریل میں جب کووڈ-19 کی عالمی وباء دنیا بھر میں پھیلی ہوئی تھی اس وقت تقریباً 500،000 نقلی اور غیر معیاری این95 ماسک کی فروخت تھی۔

قانون سازوں اور مبصرین کا کہنا ہے کہ صوبہ بلوچستان میں بڑی تیزی سے بڑھتے ہوئے چینی اثر و رسوخ -- جس میں چینی کمپنیاں مقامی وسائل کا استحصال کر رہی ہیںاور مقامی افراد پر پڑنے والے اثر کی کوئی پرواہ نہیں کر رہیں -- اس سے صوبے میں شدید بے چینی پھیل رہی ہے۔

بلوچستان کے سیندک کے علاقے میں، چینی کمپنیوں نے کسی بھی مقامی، قومی یا بین الاقوامی نگرانی کے بغیر تانبے اور سونے کے ذخائر نکالے ہیں۔

مقامی باشندوں اور سیاسی قائدین نے کہا کہ ملکی اور بین الاقوامی قانون کے برعکس، چینی کمپنیوں نے ضلع چاغی میں تعلیم، صحت، یا بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری نہیں کی۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500