اسلام آباد -- تجزیہ کار اور حکام تنبیہ کر رہے ہیں کہ سنکیانگ میں مسلمانوں کے ساتھ بیجنگ کا برا سلوک اور بلوچستان اور سندھ صوبوں میں چینی اثرورسوخ میں اضافہ چین مخالف جذبات کو مہمیز دے رہے ہیں جس سے عسکریت پسند فائدہ اٹھا رہے ہیں.
محققین کا کہنا ہے مگر چینی حکومت نے بہت کم ثبوت پیش کیا ہے کہ ای ٹی آئی ایم ایک منظم گروہ ہے یا سنکیانگ، جسے علیحدگی پسند مشرقی ترکستان کہتے ہیں، میں حملوں کا الزام اس پر عائد کرنا ہے۔
امریکی حکومت نے 6 نومبر کو ای ٹی آئی ایم کو اپنی دہشت گرد گروہوں کی فہرست سے خارج کر دیا تھا۔
آسٹریلین تزویراتی پالیسی کے ادارے کی جانب سے ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق، بیجنگ کے اقدامات کے جزو کے طور پر، چینی حکام نے سنکیانگ میں تقریباً 16،000 مساجد کو شہید کیا یا نقصان پہنچایا، زیادہ تر گزشتہ تین برسوں میں یہ واقعات پیش آئے.
دریں اثناء، پاکستانی شہریوں اور علمائے دین نے چینی کمپنیوں کی جانب سے اسلام کا احترام نہ کرنے پر ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔
جولائی میں، چین کے ایک آن لائن اشیاء فروش ادارے نے مسلمانوں کے جائے نمازوں کو بطور آرائشی غالیچے فروخت کر دیا جس سے دنیا بھر میں، خصوصاً پاکستان میں گاہکوں میں اشتعال پیدا ہوا۔
چین کی خواتین کی فیشن کمپنی، شین کی جانب سے فروخت کردہ غالیچوں پر کعبہ کی تصاویر بنی ہوئی تھیں، نیز ان پر "رمضان کریم" تحریر تھا۔
انتہاپسندوں کے لیے ایندھن
دفاعی تجزیہ کار متنبہ کر رہے ہیں کہ پاکستانی اور کثیر قومی عسکریت پسند گروہ ایسے واقعات کی وجہ سے پیدا ہونے والے چین مخالف جذبات کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
انتہاپسند گروہوں پر مرکوز تحقیق کرنے والے کراچی کے ایک محقق، سید فضل حسین نے کہا کہ گزشتہ چند برسوں میں، ذرائع ابلاغ میں چین مخالف باتوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے، جس میں القاعدہ اور پاکستان میں اس سے ملحق گروہوں نے حصہ ڈالا ہے۔
انہوں نے کہا کہ خصوصاً، تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اکثر چینی حکومت کے خلاف تفصیلی بیانات جاری کرتی ہے، جس میں چین کے اندر مسلمانوں کو درپیش صورتحال کی مذمت کی جاتی ہے۔
ان کا کہنا تھا، "بلوچ اور سندھی علیحدگی پسند گروہوں کی طرح، القاعدہ اور ٹی ٹی پی خصوصی طور پر پاک-چین اقتصادی راہداری پر تنقید کر رہے ہیںچین کی بیلٹ اینڈ روڈ پہل کاری (بی آر آئی) کا سرخیل منصوبہ ہے، اور اس کا موازنہ 1850 کی استعماری برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی کے ساتھ کرتے ہیں۔"
"آؤ چین کو پریشان کریں" کے عنوان سے سنہ 2014 میں ایک ویڈیو پیغام میں، القاعدہ کے ایک بااثر نظریاتی اور پاکستانی شہری، مفتی ابوذر البرمی نے کہا کہ جلد ہی چین "اگلا ہدف" بن جائے گا۔
انہوں نے تمام انتہاپسند گروہوں، بشمول ٹی ٹی پی کو ہدایات دیں کہ وہ چینی سفارتخانوں اور کمپنیوں پر حملے کریں اور چینی شہریوں کو اغواء یا ہلاک کریں۔
پاکستان میں دفاعی حکام کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی کے دھڑوں کے حالیہ دوبارہ ملاپ نے پاکستان میں چینی پشت پناہی والے منصوبوں کو لاحق خطرات کو شدید کر دیا ہے۔
ٹی ٹی پی نے ماضی میں بہت سے چینی شہریوں، خصوصاً خیبرپختونخوا اور بلوچستان صوبوں میں، کو ہلاک اور اغواء کیا ہے۔
شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اسلام آباد کے مقامی ایک دفاعی اہلکار نے کہا، "ٹی ٹی پی کے دوبارہ ملاپ نے چین کو پریشان کر دیا ہے، جو پہلے ہی پاکستان کو بی آر آئی کے ساتھ منسلک منصوبوں کو بچانے کے لیے بلوچستان اور سندھ صوبوں میں نسلی علیحدگی پسند گروہوں کے خلاف کارروائی کرنے پر مجبور کرتا رہا ہے۔"
اہلکار کا کہنا تھا، "پاکستان میں دفاعی اداروں نے اس خطے میں چینی شہریوں اور کمپنیوں کی حفاظت کے لیے حفاظتی اقدامات اور خفیہ اطلاعات کے حلقوں میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔"
نسل پرستوں کی بغاوت کو مہمیز دینا
بلوچستان اور سندھ میں چینی اثرورسوخ میں اضافہ -- جس میں چینی کمپنیاں مقامی افراد پر اثرات کی پرواہ یا فکر کیے بغیر مقامی وسائل کا استحصال کر رہی ہیں -- خطے میں بے چینی پیدا کر رہا ہے۔
براس نے جولائی میں ایک بیان میں کہا تھا کہ بلوچ راجی آجوئی سانگر (براس) اور سندھو دیش ریوولوشنری آرمی اب مل کر کام کر رہی ہیں "خطے میں موجودہ منظرنامے کی روشنی میں کیونکہ دونوں [بلوچوں اور سندھیوں] کو بڑھتے ہوئے چینی اثرورسوخ پر شدید تحفظات ہیں۔"
بلوچ نسل پرست علیحدگی پسند گوہوں نے حالیہ برسوں میں پاکستان میں کئی مرتبہ بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں اور چینی اہلکاروں کو نشانہ بنایا ہے، بشمول کراچی میں بیجنگ کے قونصل خانے پر حملہ جس میں سنہ 2018 میں چار جانیں گئی تھیں۔
اسلام آباد کے مقامی ایک دفاعی تھنک ٹینک، سینٹر فار ریسرچ اینڈ سیکیورٹی سٹڈیز کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق، اس سال کی تیسری سہ ماہی میں، بلوچ نسل پرست علیحدگی پسند گروہ ملک میں ایک اہم پرتشدد عنصر کے طور پر دوبارہ ظاہر ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا، "مگر اب چین کی پالیسیاں، بشمول یغور مسلمانوں کے ساتھ بدسلوکی، اور چینی کمپنیوں کی بلوچستان اور سندھ میں لوگوں کے ساتھ غیر منصفانہ پالیسیاں، ملک میں عسکریت پسندی کی ایک اور لہر کا سب بن رہی ہیں۔"
ان کا کہنا تھا کہ عسکریت پسند گروہ دہشت گردی کی کارروائیوں کے جواز میں ایسے جذبات استعمال کرتے ہیں۔
ملاح نے کہا، "حکومتِ پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ چین کے ساتھ اپنے تعلقات پر دوبارہ غور کرے اور سندھ اور بلوچستان میں پاکستانی شہریوں کے شکایات کا ازالہ کرے۔"