صحت

چینی ساختہ کووڈ-19 ٹیسٹ کٹوں سے غلط نتائج مریضوں کے لیے پریشانی کا سبب بن رہے ہیں: ڈاکٹر

از اشفاق یوسفزئی

26 جون 2020 کو حیدرآباد میں صحت حکام کووڈ-19 کے لیے ایک چھان بین اور جانچ کے مرکز پر ایک لڑکے کی ناک کے مواد کا نمونہ لیتے ہوئے۔ [ایس ٹی آر / اے ایف پی]

26 جون 2020 کو حیدرآباد میں صحت حکام کووڈ-19 کے لیے ایک چھان بین اور جانچ کے مرکز پر ایک لڑکے کی ناک کے مواد کا نمونہ لیتے ہوئے۔ [ایس ٹی آر / اے ایف پی]

پشاور -- چینی ساختہ ٹیسٹ کٹس جوکووڈ-19 کا سراغ لگانے کے لیے ہیںغلط نتائج دے رہی ہیں، جس سے پاکستانی ہیلتھ کیئر اہلکاروں اور ٹیسٹ کروانے والوں دونوں کے لیے بڑے مسائل اور بے آرامی پیدا ہو رہی ہے۔

مردان میں ایک طالب علم، سہیل خان، نے کہا کہ 25 مئی کو ان کے بھائی کو چھاتی کے سنگین مسئلے کی وجہ سے پشاور کے ایک نجی ہسپتال میں داخل کیا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ "اس میں کووڈ-19 کی تشخیص ہوئی تھی،" انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ہسپتال نے چینی ساختہ ٹیسٹنگ کٹ استعمال کی تھی۔

اس کے بعد جلد ہی خان کے بھائی کا انتقال ہو گیا، اور حفاظتی تشویشوں کی وجہ سے، ضلعی انتظامیہ نے اس کی تدفین کی اور رشتہ داروں اور گاؤں کے لوگوں کو اس کی تجہیز و تکفین میں شامل ہونے سے روک دیا۔

18 جون کو خیبر میڈیکل یونیورسٹی پر کے پی پبلک ہیلتھ ریفرنس لیبارٹری پر ایک ڈاکٹر کووڈ-19 ٹیسٹ کرتے ہوئے۔ [اشفاق یوسفزئی]

18 جون کو خیبر میڈیکل یونیورسٹی پر کے پی پبلک ہیلتھ ریفرنس لیبارٹری پر ایک ڈاکٹر کووڈ-19 ٹیسٹ کرتے ہوئے۔ [اشفاق یوسفزئی]

12 جون کو خیبر میڈیکل یونیورسٹی پر کے پی پبلک ہیلتھ ریفرنس لیبارٹری پر ایک خاتون ڈاکٹر کام کرتے ہوئے۔ [اشفاق یوسفزئی]

12 جون کو خیبر میڈیکل یونیورسٹی پر کے پی پبلک ہیلتھ ریفرنس لیبارٹری پر ایک خاتون ڈاکٹر کام کرتے ہوئے۔ [اشفاق یوسفزئی]

اس کے بھائی کی تدفین کی شام کو ہی، سہیل کو خیبر میڈیکل یونیورسٹی (کے ایم یو) کی جانب سے ایک پریشان کن خبر موصول ہوئی، جو حکومت کی منظورشدہ کٹس استعمال کرتی ہے۔ سہیل نے نجی ہسپتال کے نتائج کی تصدیق کرنے کے لیے اپنے بھائی کا نمونہ یونیورسٹی کو بھجوایا تھا۔

چینی ساختہ کٹس کو غلط طور پر مثبت نتائج دینے اور اپنے بھائی کے لیے تدفین کے موزوں انتظامات کو روکنے کے لیے موردِ الزام ٹھہراتے ہوئے، خان نے کہا، "ہمیں اس کے نتائج موصول ہوئے، جو کہ منفی تھے۔"

پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کی خیبرپختونخوا (کے پی) شاخ کے سیکریٹری، ڈاکٹر مختیار خان نے کہا، "چین کی جانب سے مقامی منڈی میں فراہم کردہ کٹس کے معتبر ہونے کے متعلق وسیع پیمانے پر شکایات ہیں۔"

انہوں نے کہا کہ چین گھٹیا معیار کی کووڈ-19 کٹس بھیجتا رہا ہے جو وائرس کا درست طریقے سے سراغ نہیں لگا رہیں۔

کچھ کٹس بیجنگ کی جانب سے عطیہ کی گئی تھیں، جبکہ باقی چینی فرموں نے فروخت کی تھیں۔

ان کا مزید کہنا تھا، "غلط طور پر مثبت اور غلط طور پر منفی نتائج ملنے کی اطلاعات ہیں، جس سے مریضوں اور ساتھ ہی ساتھ علاج کرنے والے معالجوں کے لیے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔"

ان کا کہنا تھا کہ ابھی تک، چین کی جانب سے فراہم کردہ ناقص معیار کے ذاتی حفاظت کے آلات (پی پی ای) کے استعمال کی وجہ سے پاکستان میں محکمۂ صحت کے 4،000 سے زائد اہلکاروں کو کووڈ-19 ہو چکا ہے، ان کا مزید کہنا تھا کہ 50 سے زائد طبی اہلکار جاں بحق ہو چکے ہیں۔

پشاور کے مقامی انفیکشن سے ہونے والی بیماریوں کے ماہر، محمد ظہیر نے کہا کہ 370 سے زائد مریض جن میں گزشتہ دو ماہ کے عرصے میں کے پی کی لیبارٹری میں چینی ساختہ کٹس استعمال کرتے ہوئے شروع میں مثبت نتیجہ نکلا تھا "اس وقت منفی قرار دیئے گئے تھے جب ان کا ٹیسٹ غیر چینی اور معیاری کٹس استعمال کرنے والی لیبارٹریوں میں کیا گیا تھا۔"

انہوں نے کہا کہ اس کے برعکس، 250 مریض جن کا نتیجہ شروع میں منفی آیا تھا بعد میں جب غیر چینی کٹس استعمال کرنے والی لیبز میں ان کے نمونے جانچے گئے تو ان کا نتیجہ مثبت نکلا۔

ظہیر نے کہا، "یہ ایک بہت بڑی مصیبت ہے۔گھٹیا معیار کے طبی آلات بنا کر بڑی بڑی رقمیں کمانا چین کی عادت ہے، اور کووڈ-19 کی عالمی وباء اس ملک کے لیے ایک نعمت ثابت ہوئی ہے کیونکہ پی پی ای [ذاتی حفاظت کا سامان] اور ٹیسٹنگ کٹس کی عالمی سطح پر بہت زیادہ مانگ ہے۔"

پشاور سے ڈاکٹر حسین احمد نے کہا، "ایسی بہت سی مثالیں ہیں جن میں لوگوں کے کووڈ-19 کے نتائج مثبت نکلے، مگر دوسری لیبز سے جانچ کروانے کے بعد، وہ منفی ہو گئے۔"

انہوں نے کہا کہ بنیادی مسئلہ نجی لیبارٹریوں کی جانب سے چینی کٹس کا استعمال ہے جو پیسے بچانا چاہتی ہیں۔

'محکمۂ صحت کے اہلکاروں کو نقصان ہوا ہے'

مئی میں، کے ایم یو نے خراب قرار دیئے جانے کے بعد 1،000 کٹس -- جن میں 3،000 ٹیسٹ شامل تھے -- فراہم کنندگان کو واپس کی تھیں۔

کے ایم یو پر خوردبینی حیاتیات کے ایک ماہر، ڈاکٹر حضرت شاہ نے کہا، "کے ایم یو روزانہ 1،500 ٹیسٹ کرتی رہی ہے اور وہ چینی ساختہ کٹس استعمال کرنے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔۔۔ ہم صرف قومی ادارۂ برائے صحت (این آئی ایچ) اسلام آباد کی جانب سے منظورشدہ معیاری کٹس استعمال کرتے ہیں۔"

خیبر ٹیچنگ ہسپتال پشاور کے ایک معالج، ڈاکٹر اعظم خان نے کہا، "کووڈ-19 عالمی وباء دنیا بھر میں ایک مسئلہ ہے۔۔۔ چین الیکٹرانکس، کاسمیٹکس، آتش بازی وغیرہ کی سمگلنگ کے لیے بدنام ہے، مگر یہ ایک بہت سنجیدہ معاملہ ہے، اور ملک کو ۔۔۔ گھٹیا کٹس فراہم کرنا روک دینا چاہیئے۔"

"، کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا، "ہمارے محکمۂ صحت کے اہلکاروں کو چینی ساختہ پی پی ای سے نقصان ہوا ہے، اور اب کٹس انسانی جانوں کے ساتھ کھیل رہی ہیں۔" چین کی جانب سے فراہم کردہ پی پی ای جسے محکمۂ صحت کے اہلکاروں کی اموات کے لیے موردِ الزام ٹھہرایا گیا ہے.

انہوں نے کہا، "میں نے بہت سے لوگوں کو غلط طور پر کووڈ-19 کے مریضوں کے طور پر تشخیص ہوتے دیکھا ہے۔ وہ بہت مشکل سے گزرے ہیں، مگر اب بہت سے ڈاکٹروں نے مریضوں نمونے نامور لیبارٹریوں کو بھجوانا شروع کر دیا ہے تاکہ درست نتائج حاصل ہوں اور مریضوں اور ان کے لواحقین کا غیر ضروری پریشانی سے تحفظ ہو۔"

کے پی ہیلتھ کیئر کمیشن کے قائم مقام چیف ایگزیکٹو افسر، محمد ندیم نے کہا کہ طبی اہلکاروں نے کے پی حکومت کی توجہ خراب ٹیسٹ کٹس کی جانب مبذول کروائی ہے۔

انہوں نے کہا، "30 اپریل کو، ہم نے پورے صوبے میں لیبارٹریوں کا معائنہ کیا اور صرف 12 کو کووڈ-19 کے لیے تسلیم کیا ہے۔ ان میں سات سرکاری اور پانچ نجی [لیبز] شامل تھیں۔ ان لیبز کے علاوہ، ہم کسی دوسری لیب کے نتائج کو تسلیم نہیں کریں گے۔"

ندیم کا کہنا تھا، "یہ عوامی صحت کا معاملہ ہے، اور چینی کٹس مریضوں اور ڈاکٹروں کی مشکلات میں اضافہ کر رہی ہیں۔ اس مخصوص بیماری میں، ڈاکٹر کُلی طور پر ٹیسٹوں کے نتیجوں پر انحصار کرتے ہیں، جن کے معتبر اور درست ہونے کی ضرورت ہے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500