معیشت

ناراض عوام ایرن کی اسلامی جمہوریہ کا 41 واں یومِ قیام منا رہی ہے

پاکستان فارورڈ اور اے ایف پی

اسلامی جمہوریہ کا 41 واں یومِ قیام منانے کے لیے ایرانی صدر حسن روحانی تہران کے آزادی اسکوائر میں ایک جلسہ سے خطاب کر رہے ہیں۔ صرف چند ہزار ایرانیوں نے شرکت کی۔ [دفتر صدرِ ایران]

اسلامی جمہوریہ کا 41 واں یومِ قیام منانے کے لیے ایرانی صدر حسن روحانی تہران کے آزادی اسکوائر میں ایک جلسہ سے خطاب کر رہے ہیں۔ صرف چند ہزار ایرانیوں نے شرکت کی۔ [دفتر صدرِ ایران]

تہران – منگل (11 فروری) کو اسلامی جمہوریہ کے 41 ویں یومِ قیام پر ایرانی حکومت کی تقریب میں بیزار عوامی طبیعت نفوذ کر گئی۔

آزادی اسکوائر پر چند ہزار ایرانی جمع ہوئے، جہاں ایرانی صدر حسن روحانی اور دیگر حکام نے یہ موقع منانے کے لیے خطاب کیا۔

لیکن سرکش تقاریر اور لہراتے ہوئے پرچموں کو ایران کے صدرمقام پر اکثر چھائی رہنے والی آلودگی کی چادر جیسی بھاری عوامی طبیعت نے مانند کر دیا۔

پابندیوں کے بوجھ تلے دبے، احتجاج سے لرزہ براندام اور عسکری تناؤ سے دباؤ کے شکار ایک ملک میں بہت سے تہرانی اپنی ناامّیدی چھپانے کے لیے کوشاں ہیں۔

سوشل میڈیا پر پوسٹ ہونے والی تصاویر ملک کے روحانی پیشوا کے حوالہ سے "مرگ بر خامنہ ای" کے نعرے کی حامل ایک دیوار دکھا رہی ہیں جس پر اصفہان، ایران کے حکام نے متعدد متربہ رنگ کیا۔ [فائل]

سوشل میڈیا پر پوسٹ ہونے والی تصاویر ملک کے روحانی پیشوا کے حوالہ سے "مرگ بر خامنہ ای" کے نعرے کی حامل ایک دیوار دکھا رہی ہیں جس پر اصفہان، ایران کے حکام نے متعدد متربہ رنگ کیا۔ [فائل]

فروری کے اوائل میں سوشل میڈیا پر پوسٹ ہونے والی ایک تصویر میں تہران کی گلیوں میں ایک چھوٹا لڑکا دکھایا گیا ہے۔ ایران بھر میں غربت بڑھنے سے، اس جیسے مناظر زیادہ عام ہو گئے ہیں۔ [فائل]

فروری کے اوائل میں سوشل میڈیا پر پوسٹ ہونے والی ایک تصویر میں تہران کی گلیوں میں ایک چھوٹا لڑکا دکھایا گیا ہے۔ ایران بھر میں غربت بڑھنے سے، اس جیسے مناظر زیادہ عام ہو گئے ہیں۔ [فائل]

تاجرش کے پر تعیش ضلع میں چہل قدمی کرتی، علمِ حیاتیات کی ایک 20 سالہ طالبہ، رعنا نے کہا، "اس وقت زندگی درحقیقت مشکل ہے۔ یہاں غیر یقینی کی صورتِ حال ہے۔"

یہ شہر کا وہ حصّہ ہے جہاں نوجوان خواتین نے چھوٹے کوٹ، وضع دار سنگھار اور زیادہ بال نمایاں کرنے والی اوڑھنیوں کا انتخاب کرتے ہوئے آہستگی سے اسلامی جمہوریہ کے قدامت پسندانہ ضوابطِ لباس کو ناکام بنا دیا ہے۔

لیکن، ان نسبتاً آزادیوں کے باوجود، رعنا نے کہا کہ وہ خود کو اسیرِ دام محسوس کرتی ہے۔

اس نے ایک "بڑے طبقاتی فاصلے" اور ایران کی گہری ہوتی "تنہائی" کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا، "معیارِ زندگی بالکل بھی اچھا نہیں – ہمارے یہاں آلودگی، خشمگیں عوام، گراں قیمتیں ہیں۔"

شورشوں اور ناخوشگوار واقعات کا سلسلہ

گزشتہ دو برسوں میں ایران کی معیشت تیزی سے ابتر ہو گئی ہے۔

جب حکومت نے نومبر میں پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کیا، ملک بھر میں احتجاج پھوٹ پڑے اور پر تشدد ہو گئے، یہاں تک کہ سیکیورٹی فورسز نے تقریباً مکمل انٹرنیٹ بندش کے ساتھ انہیں خاموش کرایا۔

ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ 120,000 اور 200,000 کے درمیان افراد نے احتجاج میں شرکت کی، لیکن دیگر ذرائع اس تعداد کو بہت زیادہ بتاتے ہیں۔

ایرانی حکومت کی جانب سے ہلاکتوں اور زیرِ حراست افراد سے برتاؤ سے متعلق عدم شفافیت کو جاری رکھے جانے پراظہارِ تشویش کرنے والی اقوامِ متحدہ کے مطابق، شورش کے دوران کم از کم 7,000 افراد گرفتار ہوئے۔

امریکہ کے ساتھ تناؤ میں جنوری کے اوائل میں اضافہ ہوا جببغداد میں ایک امریکی ڈرون حملے میں ایرانی میجر جنرل قسیم سلیمانی مارے گئے۔

سلیمانی سپاہِ پاسدارانِ انقلابِ اسلامی (IRGC) کی قدس فورس کی قیادت کر رہے تھے، جو غیر ملکی مشنز، تربیت فراہم کرنے، اور دہشتگرد گروہوں کو اسلحہ اور مالیات فراہم کرنے میں مہارت رکھتی ہے۔

اپنے علاقائی رسوخ کو توسیع دینے اور غلبہ قائم کرنے کی جستجو میںقدس فورس افغان، پاکستانی، عراقی اور یمنی نوجوانوں کو شام میں اپنے مفادات کے لیے لڑنے کے لیے بھرتی کرتی رہی ہے۔

تہران نے امریکی افواج کو ہدف بناتے ہوئے سلیمانی کے قتل کا بدلہ لیا لیکن حادثاتی طور پر ایک یوکرائنی طیارے کو مار گرایا، جس سے طیارے میں سوار 176 افراد جاںبحق ہو گئے۔

زمین سےفضا میں مار کرنے والے میزائل کے طیارے کو نشانہ بنانے کی جانب اشارہ کرنے والی ویڈیو اور مفصل اثبات کے باوجود، تہران نے کئی روز تک اس امر کی تردید کی کہ ایک میزائل حملے نے بین الاقوامی یوکرانئنی ائیرلائن کی پرواز PS752 کو مار گرایا۔

لیکن بالآخر روحانی نے حقیقت تسلیم کر لی – کہایرانی فوج نے ایک "تباہ کن غلطی" میں اس طیارے کو مار گرایا۔

اس اقرار – اور پردہ ڈالنے کی ایک کوشش کے سامنے آنے – نے ایران میں کئی روز کے حکومت مخالف احتجاج کو بھڑکایا۔

دسیوں ہزاروں ایرانی – آیت اللہ علی خامنہ ای کا ایک حوالہ دیتے ہوئے –مرگ بر آمر"مرگ بر دروغ گو" اور دیگر حکومت مخالف نعرے لگاتے سڑکوں پر نکل آئے۔

چند احتجاج کنندگان طلبہ نے IRGC کو "نااہل" اور "عوام کے لیے شرمندگی" قرار دیا۔

روزگار تلاش کرنے میں مشکل

اپنے ملک میں ہی رہنے کا انتخاب کرنے والی ایرانی ایک 25 سالہ انجنیئر پیگاہ گولامی ہے جو اپنی شادی سے تین روز قبل خریداری کر رہی تھی۔

ایک فیشنی کوٹ اور نرم چمڑے کے جوتے زیبِ تن کیے اس نے کہا، "اب ملک کی معاشی صورتِ حال درحقیقت مشکل ہے۔"

"مجھے بہت تکلیف ہوتی ہے۔۔۔ میرے دوستوں نے جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ لیکن ایک ایرانی ہونے کے ناطے، میں نے یہاں رہ کر اپنے ملک کی تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔"

فضا وائلن کی تاروں سے بھر گئی جب ایک موسیقار نے بھاری ٹریفک کے شور میں خود کو سنانے کی کوشش کی۔

بڑھی ہوئی داڑھی والے، بے چین اور تقریباً مکمل طور پر جھڑے ہوئے دانتوں والے ایک 47 سالہ الیکٹریشن بہرام سبحانی نے کہا کہ روزی کمانا زیادہ سے زیادہ دشوار ہوتا جا رہا ہے۔

اس نے کہا، "کام تو ہے لیکن ان دنوں کام تلاش کرنا کچھ مشکل ہو گیا ہے۔"

"یقیناً پابندیاں ہم پر اثرانداز ہوئی ہیں، لیکن ہمیں یہ برداشت کرنا ہے کیوں کہ ہم اور کچھ نہیں کر سکتے۔ ہم ایران میں رہتے ہیں، کہیں اور نہیں۔"

اتوار (9 فروری) کو ہونے والے اعلان سے بلا شبہ بڑھتی ہوئی مایوسی میں اور اضافہ ہو گا۔

ایرانی افوج نے ایک سیٹلائیٹ لانچ کی ناکامی کا اعلان کیا، اور IRGC نے ملک کے کم فاصلے کے بالِسٹک میزائل نظام میں نئی پیشرفت کا انکشاف کیا– جو دونوں بے حد مہنگی کاوشیں ہیں۔

ایران کی پائی جاتی ہے، اور تہ و بالا ہوتی معیشت کی مدد کرنے کے بجائے IRGC کے بھاری رقوم میزائل ٹیکنالوجی پر لٹا دینے کی خبروں سے یقیناً ایرانی قیادت کی جانب عوامی جذبات تلخ ہو جائیں گے۔

پرتعیش گھروں کے لیے سمارٹ ٹیکنالوجی آلات فروخت کرنے والی دلہام تابِش کمپنی کے وائس پریزیڈنٹ محمد رضا خادمی کو یہ معاشی صورتِ حال ایذا پہنچا رہی ہے۔

محمّد رضا نے کہا، "2018 کا آختتام ہولناک تھا، اور پورا 2019 بالکل بھی اچھا نہیں تھا۔"

انہوں نے کہا، "میں اپنا کاروبار جاری رکھوں گا۔ میں ایران میں مقامی طور پر پیداوار کا یہ سلسلہ پیدا کرنے کی کوشش کروں گا، لیکن اسے بدلنا نہایت مشکل ہے۔"

’ہم ناامّید محسوس کرتے ہیں‘

اگر تہران کے درمیانے اور بالائی درجوں کے اضلاع میں طبیعت بیزار ہے، تو اسّی لاکھ افرد کے اس پھیلتے ہوئے شہر کے غریب تر علاقوں میں مزید بدتر ہے۔

مولاوی کے جنوبی ضلع میں تعمیراتی اسالیب کا مرکب پیچدار راستوں اور دکانوں تک لے جاتا ہے جہاں ہنرمند قدیم رسمی ہنروں کی مشق کرتے ہیں۔

صرف چند عورتیں ہی گلیوں میں دیکھی جا سکتی ہیں، جن میں سے اکثر چادروں مین ملبوس ہوتی ہیں اور متعدد تازہ پکی روٹیاں اٹھائے ہوتی ہیں۔

کریانہ کی دکان سے باہر نکلتے ہوئے ایشیا سے اشیا درآمد کرنے والا ایک کاروباری، مہدی گولزادے تھکا ماندہ نظر آ رہا تھا۔

اس نے کہا، "ایران میں رہنا نہایت مشکل ہو گیا ہے۔ ایسی معاشی صورتِ حال میں، کوئی کچھ بھی نہیں درآمد کر سکتا اور ایران کے پاس ایسی مصنوعات بنانے کے لیے خام مال نہیں ہے۔"

"میں کنوارا ہوں۔۔۔ کوئی بھی اس معمولی آمدنی پر خاندان کا آغاز نہیں کر سکتا۔ ہم ناامّید محسوس کر رہے ہیں۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500