حقوقِ انسانی

ہزاروں ایرانیوں کو بعد از احتجاج کریک ڈاؤن میں تشدد اور قتل کا سامنا

پاکستان فارورڈ

ایرانی سیکیورٹی فورسز، جن میں ایران کے محافظینِ انقلابِ اسلامی کور (IRGC) اور بسیج پیراملٹری فورس کے ارکان شامل تھے، نے نومبر میں احتجاج کنندگان پر ایک وحشیانہ کریک ڈاؤن کیا۔ اندازوں کے مطابق، 7,000 کو گرفتار کیا گیا اور 1,000 سے زائد قتل ہوئے۔ اب متعدد کو خدشہ ہے کہ زیرِ حراست افراد کو ایرانی حکومت کی جانب سے تشدد اور ممکنہ طور پر قتل کیے جانے کا سامنا ہے۔ ذریعہ: سوشل میڈیا پر احتجاج کنندگان کی جانب سے پوسٹ کی گئی ویڈیوز۔

تہران – ایمنسٹی انٹرنیشنل نے گزشتہ ہفتے خبر دی کہ ایرانی حکام گزشتہ ماہ شروع ہونے والے حکومت مخالف احتجاج کے تناظر میں ایک "شیطانی کریک ڈاؤن" کرتے ہوئے ہزاروں احتجاج کنندگان، صحافیوں، حقوقِ انسانی کے فعالیت پسندوں اور طلباء کو گرفتار کر رہی ہے۔

15 نومبر کو پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے نفاذ کے ہلا دینے والے فیصلے سے ملک بھر میں مظاہرے بھڑک اٹھے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق، "جب حکام نے مہلک قوت کا استعمال کرتے ہوئے احتجاج کو کچلا" تو 15-18 نومبر کے درمیان کم از کم 304 افراد جاںبحق اور ہزاروں زخمی ہو گئے۔

ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ 120,000 سے 200,000 افراد نے احتجاج میں حصّہ لیا۔ حکومت نے جاںبحق، زخمی یا گرفتار ہونے والے احتجاج کنندگان کا کوئی سرکاری شمار فراہم نہیں کیا۔

نومبر میں ایران میں بدامنی کے دوران سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ایک تصویر۔ [فائل]

نومبر میں ایران میں بدامنی کے دوران سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ایک تصویر۔ [فائل]

نومبر میں ایران میں احتجاج کے مقام کی جانب جاتے ہوئے بسیج نیم فوجی دستے دکھائے گئے ہیں۔ [فائل]

نومبر میں ایران میں احتجاج کے مقام کی جانب جاتے ہوئے بسیج نیم فوجی دستے دکھائے گئے ہیں۔ [فائل]

ایمنسٹی انٹرنیشنل میں مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے لیے ریسرچ ڈائریکٹر فلپ لوتھر نے کہا، "چشم دید کی جانب سے کرب ناک شہادت ظاہر کرتی ہے کہ ایرانی حکام کی جانب سے ملک گیر احتجاج میں شریک سینکڑوں افراد کے قتلِ عام کے تقریباً فوراً بعد انہوں نے خوف پیدا کرنے اور کسی کو بھی اس سانحہ کے بارے میں بات کرنے سے روکنے کے لیے تشکیل دیا گیا ایک وسیع پیمانے کا دباؤ پیدا کیا۔"

انہوں نے کہا، "فوری بین الاقوامی دباؤ کے بغیر ہزاروں افراد تشدد اور برے سلوک کے خدشہ میں رہیں گے۔"

بے روک گرفتاریاں

لندن اساسی اس تنظیم نے احتجاج کے بعد کے دنوں اور ہفتوں میں ایران کے اندر درجنوں افراد کے انٹرویو کیے اور انہوں نے بیان کیا کہ کیسے "ایرانی حکام نے زیرِ حراست افراد کو رابطہ سے محروم رکھا ہوا ہے اور انہیں جبری طور پر لاپتہ، تشدد اور دیگر بدسلوکیوں کا شکار بنایا ہے۔"

"باوثوق ذرائع" نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کو بتایا کہ—بچوں سمیت—سینکڑوں زیرِ حراست افراد کو ٹرکوں میں خراج، صوبہ البورز میں راجائی شہر جیل میں لایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ دست بستہ اور آنکھوں پر پٹیاں بندھے زیرِ حراست افراد کو سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں روزانہ مکے، لاتیں اور چھڑیاں لگائی جاتی ہیں اور ڈنڈوں سے پیٹا جاتا ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کو رپورٹ ہونے والے درجنوں واقعات میں، زیرِ حراست افراد کو وکیلوں تک رسائی نہیں دی جاتی اور ان کا اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ نہایت کم رابطہ ہوتا ہے یا کوئی رابطہ نہیں ہوتا۔ چند واقعات میں حراست کی صورتِ حال کو "جبری لاپتہ ہونا" شمار کیا جاتا ہے۔

صوبہ مشرقی آزربائیجان اور صوبہ مغربی آزربائیجان میں چھاپوں کے دوران گرفتار ہونے والے اقلیتوں کے حقوق کے فعالیت پسندوں کے ایک گروہ کی ماؤں نے کہا کہ حکام نے انہیں بتایا کہ وہ انہیں معلومات فراہم کرنے کا کوئی "ارادہ نہیں رکھتے"۔

ایک اہلکار نے کہا، "ہم آپ کے بچوں کے ساتھ جو چاہیں کر سکتے ہیں۔ ہم انہیں جب تک چاہیں حراست میں رکھ سکتے ہیں، 10 برس تک بھی۔۔۔ ہم انہیں قتل کر دیں گے اور آپ اس بارے میں کچھ نہیں کر سکیں گی۔"

ایرانی افواج کی ’قتل کی غرض سے گولیاں‘

اقوامِ متحدہ (UN) کی ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق مشل باشیلیٹ نے 6 دسمبر کو ایرانی حکومت کی جانب سے ہلاکتوں اور زیرِ حراست افراد کے ساتھ سلوک سے متعلق شفافیت کے مسلسل فقدان پر خدشہ کا اظہار کیا۔

اقوامِ متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کے دفتر (OHCHR) نے خبر دی کہ ایران کے 31 صوبوں میں سے 28 میں کم از کم 7,000 فاراد کو مبینہ طور پر گرفتار کیا گیا ہے۔

باشیلیٹ نے کہا کہ انہیں "ان کی قید کے حالات کے علاوہ، ان کے ساتھ روا رکھے گئے جسمانی سلوک، مناسب کاروائی کے ان کے حق کی خلاف ورزیوں، اور اس امکان پر کہ ان میں سے ایک نمایاں تعداد پر ایسے جرائم کے الزامات ہوں گے، جن پر سزائے موت ہے، نہایت تشویش ہے۔"

ایمنسٹی کی ڈیجیٹل ویریفیکیشن کور، جسے گواہوں کی شہادت حاصل ہے، نے اس ویڈیو فوٹیج کی تصدیق کی جس میں دکھایا گیا ہے کہ "ایرانی سیکیورٹی فورسز ان نہتے احتجاج کنندگان پر گولی چلا دیتے ہیں جن سے کوئی ظاہری خطرہ نہیں۔"

اس تنظیم کی جانب سے ریکارڈ کی گئی اموات میں سے اکثریت "سر، دل، گردن یا دیگر اعضائے رئیسہ پر گولیاں لگنے سے ہوئیں، یہ امر ظاہر کرتا ہے کہ سیکیورٹی فورسز قتل کی نیت سے گولیاں چلا رہی تھیں۔"

OHCHR نے ایرانی حکومت کی جانب سے غیر مسلح احتجاج کنندگان کے خلاف وحشیانہ طاقت کے استعمال کی بھی تصدیق کی۔

OHCHR نے خبر دی، "سیکیورٹی فورسز نے احتجاج کا ردِّ عمل واٹر کینن، آنسو گیس، ڈنڈوں اور چند واقعات میں ان غیر مسلح مظاہرین کے خلاف براہِ راست اسلحہ سے دیا جن سے موت یا شدید زخمی ہونے کا کوئی ظاہری خدشہ نہ تھا۔"

باشیلیٹ نے کہا، "ہمیں ایسی فوٹیج بھی موصول ہوئی ہیں جس میں بظاہر دکھایا گیا ہے کہ سکیورٹی فورسز بھاگتے ہوئے غیر مسلح مظاہرین کو پیچھے سے گولیاں مار رہے ہیں، اور دیگر کو سامنے سے اعضائے رئیسہ پر گولیاں مار رہے ہیں – دوسرے الفاظ میں قتل کرنے کی نیت سے گولیاں چلا رہے ہیں۔"

OHCHR نے کہا کہبسیج ملشیا اور ایران کے محافظینِ انقلابِ اسلامی کور (IRGC) کے ارکان احتجاج کنندگان پر گولیاں چلانے میں ملوث تھے۔

ہلاک شدگان میں کم از کم 13 خواتین اور 12 بچے شامل تھے۔

وحشیانہ کریک ڈاؤن جاری

متعدد ذرائع نے آزادانہ طور پر ایمنسٹی انٹرنیشنل کو بتایا کہ سیکیورٹی فورسز تاحال ایران بھر میں چھاپے مارتے ہوئے گھروں اور کام کرنے کے مقامات سے ایرانیوں کو گرفتار کر رہی ہیں۔

اس تنظیم کے مطابق، 15 برس تک کے کم عمر بچوں کو بھی گرفتار کر کے بالغوں کے ساتھ رکھا گیا ہے، بشمول صوبہ تہران میں فشافویون جیل کے، جو "تشدد اور بدسلوکی کے لیے بدنام" ہے۔

لوتھر نے کہا، "جبر کی اس وحشیانہ مہم کو جاری رکھنے کے بجائے، ایرانی حکام کو فوری اور غیر مشروط طور پر ان سب کو رہا کر دینا چاہیئے جنہیں ناحق گرفتار کیا گیا ہے۔"

ناحق گرفتاریوں اور حراست کے لیے صحافیوں، طلبہ اور حقوقِ انسانی کے حامیوں، بشمول اقلیتوں اور مزدوروں کے حقوق کے فعالیت پسندوں، اور نسلی اقلیتی گروہوں کے ارکان کو ہدف بنایا جا رہا ہے۔

کم از کم دو احتجاج کنندگان نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کو بتایا کہ انہیں جان کا خطرہ ہے اور متعدد دیگر کو بھی ایسی ہی صورتِ حال درپیش ہے۔

ایک شخص نے کہا، "جب سے سیکیورٹی فورسز نے احتجاج میں مجھے دیکھا اور میری فلم بنائی، تب سے میں روپوش ہوں۔ فرار ہونے سے قبل انہوں نے مجھے ایک ڈنڈے سے دزوکوب کیا۔ اب میں ٹانگ پر ایک شدید زخم کے ساتھ روپوش ہوں۔"

"میں محفوظ نہیں کیوں کہ وہ مجھے گرفتار کرنے میرے گھر گئے تھے۔ اس وقت میری صورتِ حال جیل میں ہونے سے مختلف نہیں۔"

ایک اور شخص نے کہا کہ گرفتار ہونے کے بعد ضمانت پر رہا ہونے والا ایک اہلِ خانہ چہرے اور سر پر خراشوں اور زخموں کے ساتھ آیا اور وہ اس تجربہ سے اس قدر ذہنی چوٹ کا شکار ہے کہ وہ گھر سے باہر نہیں نکل رہا۔

معاشی مسئلہ کی جڑیں

ایران ایک تیز معاشی تنزل سے متاثر ہوا ہے، جس سے کرنسی گرنے کی وجہ سے افراطِ زر آسمان سے باتیں کرنے لگی اور درآمدات کی قیمتیں بڑھ گئیں۔

اگرچہ یہ احتجاج پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کی وجہ سے شروع ہوا، تاہم بدامنی کی شدت—قرضوں تلے دبے شعبہٴ بنکاری سے لے کر فوج سے منسلک تنظیموں کے معیشت میں وسیع اور غیر شفاف کردار تک—گہری جڑوں کے حامل معاشی مسائل کی جانب اشارہ کرتی ہے۔

متعدد ایرانیوں کا کہنا ہے کہ یہ حکومت اپنے ملک میں سرمایہ کاری کرنے کے بجائے خطے بھر میں ذیلی جنگوں کی حمایت کا انتخاب کر کے اپنے ہی لوگوں کے معاشی مشکلات میں اضافہ کر رہی ہے۔

عوامی غم و غصّہ میں سے بیشتر کا محور IRGC اور بیرونِ ملک، بطورِ خاص شام، عراق اور یمن میں IRGC کی ذیلی جنگوں پر صرف ہونے والے حکومتی اخراجات کا زیادہ تناسب ہے۔

ایرانی صدر حسن روحانی نے 8 دسمبر کو 5 بلین ڈالر کی روسی "سرمایہ کاری" کی پشت پناہی کے حامل ایک "مزاحمتی بجٹ" کا اعلان کیا۔ یہ مجوزہ بجٹ مارچ میں شروع ہونے والے مالی سال کے لیے ہے۔

ایرانی اور روسی حکومت نے حالیہ برسوں میں تعلقات مستحکم کیے ہیں، یہ دونوں شام کی خانہ جنگی میں صدر بشارالاسد کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔

کریملِن اکثر کمزور غیرملکی حکومتوں کو استعمال کرنے اور مزید روسی مفادات کے لیے خود کو دیگر ممالک میں داخل کرنے کے لیے اوزار کے طور پر قرضوں کا استعمال کرتا ہے۔

اندازے مختلف ہیں، مگر چند اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 40 فیصد تک ایرانی – 30 ملین سے زائد شہری—تب بھی غربت کی لکیر سے نیچے تک ناتواں ہیں، جبکہ ان کی حکومت بھاری لاگت کی غیرملکی مہم جوئیوں پر جانیں اور خزانے خرچ کر رہی ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500