معیشت

خفیہ طور سے چین کے لیے زمین کے حصول سے گلگت بلتستان میں خوف و ہراس کے مناظر

زرق خان

یکم جولائی کو ہنزہ کے رہائشی چینی کمپنیوں کو ٹھیکے پر زمین دینے کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ [عوامی ورکرز پارٹی]

یکم جولائی کو ہنزہ کے رہائشی چینی کمپنیوں کو ٹھیکے پر زمین دینے کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ [عوامی ورکرز پارٹی]

اسلام آباد – گلگت بلتستان خطے میں چینی سرمایہ کاری کے خلاف آزردگی کا اظہار کرتے ہوئے، علاقہ میں سول سوسائٹی کے گروہ اور حقوق کے فعالیت پسند تنبیہ کر رہے ہیں کہ چینی کمپنیوں کے لیے اضافی زمینیں حاصل کرنے کا حالیہ منصوبہ خطے میں نئے تنازعات پیدا کر رہا ہے ۔

گلگت بلتاستان چین کے مسلم اکثریتی سنکیانگ اویغور خودمختار خطے کے ساتھ مشترکہ سرحد کا حامل ہے اور چین کے متنازعہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹیو، جسے ون بیلٹ ون روڈ (او بی او آر) بھی کہا جاتا ہے، کے پاکستانی جزُ، چین پاکستان معاشی رہداری (سی پی ای سی) کا داخلی راستہ ہے۔

یہ خطہ ہمالیہ کا گھر ہے اور اس میں دنیا کا دوسرا بلند ترین پہاڑ کے ٹو موجود ہے، اور اسی وجہ سے سرکاری اعداد کے مطابق 2021 میں داخلی سیاحوں کی تعداد بلند ہو کر تقریباً 700،000 تک پہنچ گئی۔

تاہم، مقامی باشندے اور سول سوسائٹی فعالیت پسند زمین ہتھائے جانے اور شماریاتِ آبادی کی منتقلی سے متعلق خدشات کا شکار ہیں کیوں کہ حکومت چینی کمپنیوں کے لیے زمین حاصل کر رہی ہے کہ وہ اس پر متعدد نامعلوم مقاصد کے لیے کارخانے تعمیر کر سکیں۔

17 مئی کو لی گئی اس تصویر میں صوبہ لوگر، افغانستان میں چینی کنسوشم کی بیس دکھائی گئی ہے۔ [وکیل کوہسار/اے ایف پی]

17 مئی کو لی گئی اس تصویر میں صوبہ لوگر، افغانستان میں چینی کنسوشم کی بیس دکھائی گئی ہے۔ [وکیل کوہسار/اے ایف پی]

چند فعالیت پسندوں کا کہنا ہے کہ چین لیتھیم کے لیے ایک پراسسنگ پلانٹ لگانا چاہتا ہے جسے وہ مستقبل قریب میں افغانستان سے کان کنی کر کے لائے گا۔

چین پہلے ہی سے چنگ سے تباہ حال ملک کی تعمیرِ نو میں مدد کی خواہش کا بہانہ استعمال کرتے ہوئے افغانستان کی وسیع معدنی دولت پر نظر رکھے ہوئے ہے۔

امریکی جیولاجیکل سروے (یو ایس جی ایس) کی جنوری 2021 کی رپورٹ کے مطابق ، افغانستان کے وسائل میں باکسائٹ، تانبہ، خام لوہا، لیتھیم اور نایاب زمینی عناصر شامل ہیں ۔

اپریل سے اب تک باشندوں، سول سوسائٹی فعالیت پسندوں اور سیاسی کارکنان نے وادئ ہنزہ بالا کی زمین ٹھیکے پر دینے کے لیے اسلام آباد اور چینی کمپنیوں کے مابین خفیہ معاہدوں کے خلاف متعدد احتجاج منظم کیے ہیں۔

فعالیت پسندوں نے وفاقی حکومت کے دباؤ کے سامنے جھکتے ہوئے ان احتجاجوں کو نظرانداز کرنے— جو سب چین پاکستان تعلقات کو بچانے کی ایک کوشش میں ہے— پر پاکستانی میڈیا آؤٹ لیٹس کی بھی مذمت کی۔

ڈان نے 2 جولائی کو خبر دی کہ یکم جولائی کو ضلع ہنزہ کے علاقہ نصیر آباد کے سینکڑوں رہائشیوں نے اپنے علاقہ میں ایک نجی کمپنی کو معدنیات کے ایک ٹھیکے کے اجرا کے خلاف گلگت پریس کلب کے باہر احتجاج منظم کیا۔

احتجاج کے ایک رہنما، حسین، جس نے سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر صرف اپنے نام کا آخری حصہ استعمال کرنے کی درخواست کی، نے کہا، ”علاقہ کے باشندے کسی باہر کی کمپنی، بشمول چینیوں، کو اپنی زمین ٹھیکے پر لینے کی اجازت نہیں دیں گے۔“

حسین نے کہا کہ چند رپورٹس کے مطابق چین خطے میں ایک لیتھیم پراسسنگ پلانٹ تعمیر کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا، ”حکومتِ پاکستان کو چین کے ساتھ کیے گئے ان تمام منصوبوں کے معاہدوں کو منظرِ عام پر لانا چاہیئے جو گلگت بلتستان میں چلائے جائیں گے۔ ہم حکومت سے یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ ان منصوبوں کے ماحولیاتی اثرات کی تحقیقات اور علاقہ اور مقامی آبادی پر ان کے اثرات بھی بتائے جائیں۔“

گلگت بلتستان کے پہاڑی خطہ میں زمین ایک قیمتی مال ہے۔ فعالیت پسندوں اور رہائشیوں کو خدشہ ہے کہ سی پی ای سی سے متعلقہ منصوبے ان کی اراضی نگل جائیں گے۔

وفاقی حکومت نے پہلے ہی خطے میں موکپونداس سپیشل اکنامک زون کے لیے قریب 250 ایکڑ اراضی مختص کر رکھی ہے۔

نئے تنازعات کی پیدائش

فعالیت پسندوں نے بلوچستان اور سندھ کے صوبوں کے تجربات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ گلگت بلتستان میں چینی سرمایہ کاری سے صرف بیجنگ ہی کو فائدہ ہو گا اور اس سے اس کے خلاف مسلح مزاحمت بھڑک سکتی ہے۔

اسلام آباد اور مقامی گروہون کے مابین تنازعات بلوچستان اور سندھ کے صوبوں میں پہلے ہی سے واضح ہیں، جہاں مقامی نسلی عسکریت پسند گروہوں نے پاکستان میں چینی مفادات پر حملے کرنے کے لیے بلوچ راجی اجوئی سنگر (بی آر اے ایس) کے نام سے ایک اتحاد بنا رکھا ہے۔

ہنزہ میں سیاسی علوم کے ایک پروفیسر شفیق ہنزئی نے کہا، ”اب اگر چینی سرمایہ کاری سے متعلق مقامی آبادی کے خدشات مناسب طور سے حل نہیں کیے جاتے تو گلگت بلتستان میں ایسے عناصر صورتِ حال کا استعمال کر سکتے ہیں۔“

انہوں نے کہا، ”مقامی ثقافت، مذہب یا ماحول کی پرواہ کیے بغیر ترقیاتی منصوبے مکمل کرنے کے لیے چینی معروف ہیں۔

انہوں نے کہا، ”ایک طرف تو سی پی ای سی منصوبوں کے نام پر زبردستی اراضی لے لی گئی ہیں، جبکہ دوسری جانب چینی شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے کے نام پر علاقہ میں بڑی تعداد میں فوجی اہلکار تعینات کر کے محفوظ کیا گیا ہے۔“

انہوں نے کہا کہ اگر حکومت ملک میں بیجنگ کے بڑھتے ہوئے کردار پر اپنے نقطۂ نظر کو نہیں بدلتی تو چینی سرمایہ کاری ملک کے پر امن ترین خطہ، گلگت بلتستان میں تشدد اور خونریزی کا سبب بن سکتی ہے۔

یوگر بیویاں حراست میں

بیجنگ کی جانب سے مسلمانوں پر جبر سرحد پار کر کے گلگت بلتستان تک پہنچ آیا، جیسا کہ حکومت پاکستانی شہریوں کی سینکڑوں اویغور بیویاں اور بچے حراست میں رکھے ہوئے ہیں، جس سے ملک میں چین مخالف جذبات میں اضافہ ہو رہا ہے۔

ایک بڑی تعداد میں لوگ، جو زیادہ تر گلگت بلتستان کے خطہ سے ہیں، 2017 سے اپنی اویغور مسلم بیویوں کی رہائی کے لیے کوشاں ہیں، جنہیں مبینہ طور پر حکومتِ چین کے بدنامِ زمانہ ”دماغ شوئی کیمپس“ میں حراست میں رکھا گیا ہے۔

گلگت بلتستان اور سنکیانگ کے رہائشی بکثرت درّۂ خنجراب کے ذریعے ایک دوسرے کی طرف آتے جاتے ہیں اور آپس میں شادیاں بھی کرتے ہیں۔

2018 میں گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی نے اتفاقِ کلّی سے وفاقی حکومت سے سنکیانگ میں زیرِ حراست بیویوں کی رہائی کو یقینی بنانے کے لیے فوری اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

تاہم، بڑے پیمانے پر احتجاج اور مقامی پارلیمان کی قرارداد کے باوجود، چینی حکام نے تاحال گلگت بلتستان کے رہائشیوں کی بیویوں اور بچوں کو رہا نہیں کیا۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500