معیشت

تجزیہ نگاروں کے مطابق چین معدنیات تک رسائی کے لیے ایک تابع افغانستان کا خواہشمند ہے

از حمزہ

یہ تصویر جو 6 مئی 2013 کو لی گئی میں ایک افغان پولیس اہلکار، بغلان صوبہ کے قرہ زغان گاؤں کے قریب پہاڑوں میں موجود سونے کی ایک کان میں کانکنوں کی نگرانی کر رہے ہیں۔ [شاہ مرائی/ اے ایف پی]

یہ تصویر جو 6 مئی 2013 کو لی گئی میں ایک افغان پولیس اہلکار، بغلان صوبہ کے قرہ زغان گاؤں کے قریب پہاڑوں میں موجود سونے کی ایک کان میں کانکنوں کی نگرانی کر رہے ہیں۔ [شاہ مرائی/ اے ایف پی]

کابل -- چین نے ایک خطرناک حکمتِ عملی کا آغاز کیا ہے جس کا مقصد افغانستان کو معاشی اور سیاسی طور پر، بیجنگ کے تابع بنانا ہے تاکہ وہ ملک کے معدنیات کے ذخائر کا استحصال کر سکے اور ایغور علیحدگی پسندوں کی طرف سے درپیش کسی بھی سیاسی خطرے کا مقابلہ کر سکے۔

افغانستان کے وسائل میں باکسائٹ، تانبا، خام لوہا، لیتھیم اور نایاب زمینی عناصر شامل ہیں۔ یہ بات امریکی جیولوجیکل سروے (یو ایس جی ایس) کی جنوری 2021 کی رپورٹ میں بتائی گئی ہے۔

افغانستان میں ایسے نایاب زمینی عناصر بھی موجود ہیں جو صاف توانائی کے شعبے میں استعمال ہوتے ہیں: نیوڈیمیم، پراسیوڈیمیم اور ڈیسپروسیم۔

یو ایس جی ایس نے ملک کی غیر استعمال شدہ معدنی دولت کا تخمینہ 1 ٹریلین ڈالر لگایا گیا ہے تاہم افغان حکام نے تخمینہ لگایا ہے کہ اس کی قیمت اس سے تین گنا زیادہ ہے۔

اگست میں گزشتہ افغان حکومت کے سقوط کے بعد سے، چین کی کمپنیاں پہلے ہی افغانستان کے کان کنی کے شعبے میں سرمایہ کاری میں دلچسپی کا اظہار کر چکی ہیں۔

نورستان کے سابق گورنر اور امریکہ میں مقیم سیاسی تجزیہ کار تمیم نورستانی نے سلام ٹائمز کو بتایا کہ "چین نے افغانستان میں ایک خطرناک کھیل شروع کر دیا ہے۔"

نورستانی نے کہا کہ "چین کی پالیسی ہمیشہ سے مختلف ذرائع سے فراخدلانہ پیکجزز کے ذریعے جس میں قرضوں کی فراہمی بھی شامل ہے، سے ممالک کی مدد کرنا رہی ہے"۔

"جب یہ ملک قرضوں کی ادائیگی میں ناکام ہو جاتے ہیں تو چین قرض لینے والی حکومتوں پر اپنے فائدہ کے لیے دباؤ ڈالتا ہے کہ وہ اسے ملک کے قدرتی اور معدنی وسائل تک رسائی فراہم کر دیں۔"

نورستانی نے کہا کہ "ہم نے افریقہ اور لاطینی امریکہ کے کئی ممالک میں چینی حکومت کی ہیرا پھیری کی مثالیں دیکھی ہیں۔"

انہوں نے کہا کہ"چین افغانستان کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد اور لاکھوں ڈالر کی مالی امداد فراہم کر کے، ایسے ہی سیاسی مقاصد حاصل کر رہا ہے۔ ایسا کر کے چین کابل کی حکومت کو اپنی سیاسی حمایت کے تابع کرنا چاہتا ہے اور اس طرح کی چال سے ہمارے ملک کی کانوں اور قدرتی وسائل پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔"

نورستانی نے کہا کہ "افغانستان پر اپنا تسلط قائم کرنے سے چین، پاکستان، افغانستان، ایران، وسطی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے ذریعے ایک اقتصادی اور سیاسی راہداری بنانے کا ارادہ رکھتا ہے۔"

معدنی وسائل

گزشتہ حکومت کے سقوط کے چند ہفتوں کے بعد ہی، چین نے افغانستان کو فوری طور پر 31 ملین ڈالر کی امداد فراہم کرنے کا وعدہ کیا۔

یہ وعدے جھوٹے ہی ثابت ہوئے۔

بعد میں، چین نے اعلان کیا کہ اس نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر صرف 1 ملین ڈالر کی امداد فراہم کی ہے اور افغانستان کو 5 ملین ڈالر کی خوراک اور طبی امداد دینے کا وعدہ کیا ہے۔

چین، افغانستان میں بہت سے اہداف حاصل کرنا چاہتا ہے اور وہ معدنیات اور دیگر خام مواد کا استحصال کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے، چین افغانستان کو کروڑوں ڈالر کی امداد دینے کا وعدہ کر رہا ہے۔ یہ بات ازبکستان سے تعلق رکھنے والے افغان سیاسی تجزیہ نگار احمد سعیدی نے سلام ٹائمز کو بتائی۔

سعیدی نے کہا کہ "چین افغانستان میں ایک ایسی اتحادی حکومت بنانے کی کوشش کر رہا ہے جو اس کے وسائل پر منحصر رہے گی... تاکہ [چین] کھل کر افغانستان کی معدنیات میں سرمایہ کاری اور ان کا استحصال کر سکے --- اور افغانستان، وسطی ایشیا اور دیگر ممالک کو چینی سامان آسانی سے برآمد کر سکے۔"

انہوں نے مزید کہا کہ "چین کا دوسرا مقصد، افغانستان میں ایک امریکہ مخالف اور انڈیا مخالف حکومت قائم کرنا میں مدد فراہم کرنا ہے"۔

ترکمانستان میں مقیم ایک افغان اقتصادی تجزیہ کار سید مسعود نے کہا کہ "چین پورے خطے میں سرمایہ کاری اور تجارت پر اجارہ داری قائم کرنے کا خواہاں ہے۔"

انہوں نے بحیرہ ہند اور بحیرہ عرب کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ "اس کا ترکمانستان، ازبکستان، تاجکستان اور قازقستان کی منڈیوں پر تھوڑا بہت اثر و رسوخ ہے۔ اس نے پاکستان میں گوادر کی بندرگاہ پر اربوں ڈالر خرچ کیے ہیں تاکہ وہ سمندر تک پہنچ سکے اور وہ افغانستان کے معدنی وسائل تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے"۔

کابل میں مقیم سیاسی تجزیہ کار سلیم پائیگیر نے بھی سلام ٹائمز کو بتایا کہ "چین افغانستان کے نایاب زمینی عناصر پر نظر رکھے ہوئے ہے۔"

انہوں نے کہا کہ "ہمارے ملک کے پاس اربوں ڈالر مالیت کے قدرتی وسائل ہیں۔ امداد میں لاکھوں ڈالر کا وعدہ کرنے سے، چین افغانستان کے غیر استعمال شدہ قدرتی وسائل پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے"۔

"چین کا مقصد افغانستان کی اقتصادی صورتِ حال کو بہتر بنانے کی بجائے اپنے معاشی مفادات حاصل کرنا ہے"۔

پائیگیر نے مزید کہا کہ "چین نے افغانستان سے بین الاقوامی فوجیوں کے انخلاء کا فائدہ اٹھایا اور اسے افغانستان میں اپنے سیاسی، اقتصادی اور سیکورٹی کے غلبہ کو فروغ دینے کے ایک موقع کے طور پر استعمال کیا۔"

ایغوروں پر ظلم

بہت سے لوگ چین کی امداد کو ایغور علیحدگی پسندوں کا مقابلہ کرنے کے منصوبے کے حصے کے طور پر بھی دیکھتے ہیں۔

متعدد ذرائع ابلاغ اور این جی اوز کی رپورٹوں کے مطابق جنہوں نے عالمی غم و غصہ کو جنم دیا ہے، بیجنگ شمال مغربی علاقے سنکیانگ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ارتکاب کر رہا ہےجہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور اس کی سرحدیں افغانستان سے ملتی ہیں۔

ایک ملین سے زائد افراد، جن میں سے زیادہ تر ایغور ہیں، کو سنکیانگ میں "سیاسی تعلیمِ نو" کے کیمپوں میں مجبری طور پر حراست میں رکھا گیا ہے۔

کابل کے ایک رہائشی 31 سالہ مجتبیٰ نے کہا کہ"چین کی متنازعہ روش واقعی تشویشناک ہے۔"

"ایک طرف چین لاکھوں ایغور مسلمانوں کو اذیتیں دے رہا ہے، قید کر رہا ہے اور ان پر ظلم کر رہا ہے اور دوسری طرف وہ افغانستان کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد فراہم کر رہا ہے۔"

انہوں نے کہا کہ چین کے یہ دو متضاد اقدامات، افغانستان اور اس کے عوام کے بارے میں، ان کے مذموم عزائم کو ظاہر کرتے ہیں۔

نورستان کی سابق حکومت، نورستانی نے افغانستان میں رہنے والے اویغوروں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ "انسانی اور مالی امداد فراہم کر کے، بیجنگ موجودہ افغان حکومت کی، ایغوروں پر قابو پانے اور ممکنہ طور پر دبانے کے لیے، حوصلہ افزائی کرنا چاہتا ہے"۔

انہوں نے مزید کہا کہ "چین افغانستان میں انٹیلی جنس اور سیکورٹی پر غلبہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔"

امریکہ میں مقیم افغان سیاسی تجزیہ کار ادریس رحمانی نے کہا کہ "افغانستان سے امریکی انخلاء سے بہت پہلے، چین کا مقصد افغانستان میں [اویغور جنگجوؤں] کے پھیلاؤ اور ان کی سرگرمیوں کو روکنا تھا۔"

انہوں نے کہا کہ "اس مقصد کے لیے، چین کے انٹیلی جنس کے کارندے پورے افغانستان میں سرگرم ہیں۔"

رحمانی نے کہا کہ "چین کے عزائم میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے اور آج کل خود کو افغان حکومت کے ساتھ منسلک کر کے، [چین] ملک میں ہونے والی پیش رفت سے آگاہ ہونا چاہتا ہے"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500