کاروبار

طالبان 1 ٹریلین امریکی ڈالر کے معدنیات کے خزانے پر بیٹھے ہیں -- لیکن سرمایہ کاری کون کرے گا؟

از پاکستان فارورڈ اور اے ایف پی

20 جون 2018 کو ایک افغان مزدور مزار شریف کے مضافات میں چونے کی ایک فیکٹری میں کام کرتے ہوئے۔ [فرشاد اُسیان/اے ایف پی]

20 جون 2018 کو ایک افغان مزدور مزار شریف کے مضافات میں چونے کی ایک فیکٹری میں کام کرتے ہوئے۔ [فرشاد اُسیان/اے ایف پی]

پیرس-- کھربوں ڈالر کے معدنی ذخائر کی چابیاں اب طالبان کے ہاتھ میں ہیں، جن میں کچھ ایسے بھی ہیں جو دنیا کی توانائی کی قابل تجدید شکلوں پر منتقلی کو توانائی دے سکتے ہیں، لیکن چند ہی ممالک اس گروہ کے ساتھ کاروبار کرنے میں دلچسپی ظاہر کر رہے ہیں۔

طالبان جب سے اقتدار سے نکالے جانے کے 20 سال بعد واپس آئے ہیں وہ پہلے ہی معاشی بندشوں میں جکڑے ہوئے ہیں، کیونکہ بڑی امدادی تنظیموں نے افغانستان کے لیے اپنی امداد روک دی ہے۔

24 اگست کو، عالمی بینک نے اعلان کیا کہ اس نے ملک کو امداد روک دی ہے۔

افغانستان کو جنگوں اور ناقص بنیادی ڈھانچے کی وجہ سے اپنے وسیع ذخائر کو استعمال کرنے کے لیے طویل عرصے سے مشکلات درپیش ہیں۔

6 مئی 2013 کو افغان کان کن صوبہ باغلان کے گاؤں قارا زغان کے قریب ایک فیکٹری میں کام کرتے ہوئے۔ [شاہ ماراعی/اے ایف پی]

6 مئی 2013 کو افغان کان کن صوبہ باغلان کے گاؤں قارا زغان کے قریب ایک فیکٹری میں کام کرتے ہوئے۔ [شاہ ماراعی/اے ایف پی]

امریکی ارضیاتی سروے (یو ایس جی ایس) کی جنوری کی رپورٹ کے مطابق، ملکی وسائل میں باکسائٹ، تانبا، لوہا، لیتھیئم اور نایاب ارضی عناصر شامل ہیں۔

تانبا، جو بجلی کی تاریں بنانے کے لیے درکار ہوتا ہے، اس سال ایک انتہائی مطلوب چیز بن گئی تھی، جس کے نتیجے میں قیمتیں 10 ہزار ڈالر فی ٹن سے تجاوز کر گئیں۔

لیتھیئم الیکٹرک کار بیٹریاں، سولر پینل اور ہوائی (چکیوں کے) فارم بنانے کے لیے ایک اہم عنصر ہے اور بین الاقوامی توانائی ایجنسی کے مطابق اس کی عالمی طلب سنہ 2040 تک 40 گنا سے زیادہ بڑھنے کی توقع ہے۔

کتاب "نایاب دھاتوں کی جنگ" کے مصنف گیلوم پیٹرون نے کہا کہ افغانستان "لیتھیئم کے ایک بہت بڑے ذخیرے پر بیٹھا ہوا ہے جسے آج تک استعمال میں نہیں لایا گیا"۔

افغانستان نایاب ارضی عناصر کا گھر بھی ہے جو صاف توانائی کے شعبے میں استعمال ہوتے ہیں: نیوڈیمیئم ، پریزیوڈیمیئم اور ڈسپروسیئم۔

یو ایس جی ایس کی طرف سے ملک میں غیر استعمال شدہ معدنی دولت کا تخمینہ 1 ٹریلین ڈالر لگایا گیا ہے، اگرچہ افغان حکام نے اس سے تین گنا زیادہ قیمت کا اندازہ لگایا ہے۔

اگرچہ افغانستان نے نایاب ارضی عناصر کو نکالنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارے ہیں، یہ زمرد اور یاقوت کے ساتھ ساتھ نیم قیمتی ترمری اور لاجورد جیسے قیمتی پتھروں کی کھدائی میں زیادہ کامیاب رہا ہے، لیکن یہ کاروبار پاکستان میں غیر قانونی سمگلنگ کے ہاتھوں پریشان ہے۔

ملک میں ابرق، سنگِ مرمر، کوئلے اور لوہے کی کانیں بھی ہیں۔

چین کا انتخاب اصولوں کی بجائے منافع ہوتا ہے

اگرچہ طالبان کا قبضہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کے آنے میں مزاحم ہو سکتا ہے، ایک ملک جو ان کے ساتھ کاروبار کرنے کے لیے تیار نظر آتا ہے وہ ہے چین.

بیجنگ نے کہا ہے کہ وہ 15 اگست کو طالبان کے کابل میں داخل ہونے کے بعد افغانستان کے ساتھ "دوستانہ اور تعاون پر مبنی" تعلقات رکھنے کے لیے تیار ہے۔

سرکاری ملکیتی چائنہ میٹلرجیکل گروپ کارپوریشن (ایم سی سی گروپ) نے سنہ 2007 میں خام تانبے کے بہت بڑے ذخیرے میس عیناک کو 30 برس کے لیے پٹے پر لینے اور 11.5 ملین ٹن دھات نکالنے کے حقوق حاصل کیے تھے۔

چین کے سرکاری اخبار گلوبل ٹائمز کے مطابق، دنیا کے دوسرے سب سے بڑے غیر استعمال شدہ تانبے کے ذخائر کو استعمال میں لانے کے منصوبے کو "بوجہ حفاظتی مسائل" دوبارہ کھولنا اور کام شروع کرنا ابھی باقی ہے۔

گلوبل ٹائمز نے ایم سی سی گروپ کے ایک ذریعے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ "صورتحال مستحکم ہونے اور طالبان حکومت کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیے جانے -- بشمول چینی حکومت کی جانب سے طالبان حکومت کو تسلیم کرنے -- کے بعد اسے دوبارہ کھولنے پر غور کرے گا۔"

واشنگٹن میں قائم بروکنگز انسٹیٹیوشن تھنک ٹینک کے ایک سینیئر فیلو، ریان ہاس نے ایک بلاگ میں کہا کہ اگرچہ چینی قائدین طالبان کے قبضے کے بارے میں "پُرجوش نہیں" ہیں، "وہ اصول کو عملیت کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننے دیں گے"۔

وہ لکھتے ہیں، "بیجنگ کی میس عیناک تانبے کی کان میں اس کی بڑی سرمایہ کاری میں پیشرفت کا نہ ہونا سرمایہ کاری پر منافعے کی شرح کے حصول میں صبر سے کام لینے پر اس کی آمادگی کا اظہار ہے۔"

فرانسیسی مصنف پٹرون نے کہا کہ چینی "اپنے کاروباری معاہدوں پر جمہوری اصولوں کی شرط نہیں لگاتے"۔

انہوں نے خبردار کیا کہ اس بات کا کوئی یقین نہیں کہ افغانستان معدنی الدورادو بن جائے گا۔

پٹرون نے کہا، "اس کے لیے، آپ کو ایک بہت مستحکم سیاسی آب و ہوا کی ضرورت ہے۔"

ان کا کہنا تھا کہ معدنی ذخائر کی دریافت اور کان کنی کی کارروائیاں شروع کرنے میں 20 سال تک کا عرصہ لگ سکتا ہے۔

انہوں نے کہا، "اگر کوئی مستحکم سیاسی اور قانونی نظام نہیں ہے تو کوئی بھی کمپنی سرمایہ کاری نہیں کرنا چاہے گی۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500