معیشت

چینی شہریوں کی جانب سے افغان لیتھیم کی چوری کی کوشش بیجنگ کے ساتھ معاملات کی حقیقت کی عکاس

از حمزہ

22 جنوری کو صوبہ ننگرہار میں لیتھیم کی چٹانیں حکام کی جانب سے ضبط کیے جانے کے بعد دکھائی گئی ہیں۔ دو چینی شہریوں پر الزام ہے کہ انہوں نے پاکستان کے راستے چین سمگل کرنے کی کوشش کی۔ [بشکریہ حمزہ]

22 جنوری کو صوبہ ننگرہار میں لیتھیم کی چٹانیں حکام کی جانب سے ضبط کیے جانے کے بعد دکھائی گئی ہیں۔ دو چینی شہریوں پر الزام ہے کہ انہوں نے پاکستان کے راستے چین سمگل کرنے کی کوشش کی۔ [بشکریہ حمزہ]

کابل -- افغان باشندے دو چینی شہریوں اور تین افغان ساتھیوں کی گرفتاری کے بعد غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں جن پر 1,300 ٹن لیتھیم کی چٹانیں افغانستان سے باہر سمگل کرنے کی کوشش کا الزام ہے۔

ڈاکٹر بشیر کے نام سے معروف ایک مقامی انٹیلیجنس اہلکار کے مطابق، مشتبہ افراد نے لیتھیم کے پتھروں کو کنڑ سے ننگرہار منتقل کیا تاکہ انہیں پاکستان کے راستے چین سمگل کیا جا سکے۔

انہوں نے 21 جنوری کو ننگرہار میں ایک نیوز کانفرنس میں کہا، "ہمیں قیمتی پتھروں کی غیر قانونی کان کنی اور سمگلنگ کے بارے میں مخبری ہوئی ہے"۔

"مرکزی مجرموں کی گرفتاری کے لیے، ہم نے انہیں ننگرہار جانے کی اجازت دی، اور جب سمگلر جلال آباد شہر میں آئے تو ہم نے دو چینی اور تین افغان شہریوں کو گرفتار کر لیا"۔

صوبہ لوگر میں میس عینک میں ایک چینی کنسورشیم کے عملی اڈے کی تصویر گزشتہ 17 مئی کو دی گئی ہے۔ کابل کے قریب بے پناہ چوٹیوں سے بنا ہوا ایک قدیم بدھ شہر ہمیشہ کے لیے معدوم ہونے کے خطرے سے دوچار ہے، جسے دنیا کے تانبے کے سب سے بڑے ذخائر کا استحصال کرنے والے چینی کنسورشیم نے نگل لیا ہے۔ [وکیل کوہسار/اے ایف پی]

صوبہ لوگر میں میس عینک میں ایک چینی کنسورشیم کے عملی اڈے کی تصویر گزشتہ 17 مئی کو دی گئی ہے۔ کابل کے قریب بے پناہ چوٹیوں سے بنا ہوا ایک قدیم بدھ شہر ہمیشہ کے لیے معدوم ہونے کے خطرے سے دوچار ہے، جسے دنیا کے تانبے کے سب سے بڑے ذخائر کا استحصال کرنے والے چینی کنسورشیم نے نگل لیا ہے۔ [وکیل کوہسار/اے ایف پی]

انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ چینی شہریوں کو کب گرفتار کیا گیا تھا۔

بشیر نے مزید کہا، "ان پتھروں میں سے تین سو ٹن ننگرہار میں ہے، جبکہ باقی ایک ہزار ٹن کنڑ میں ہے"۔

محمد رسول عقاب، وزارت کانوں اور پیٹرولیم کے ایک سینئر اہلکار نے نیوز کانفرنس میں صحافیوں کو بتایا، "ان چٹانوں میں 30 فیصد لیتھیم موجود ہے"۔

"یہ بہت نایاب پتھر ہیں... جو کنڑ اور نورستان صوبوں میں خفیہ طور پر نکالے گئے ہیں"۔

رشوت ستانی اور بدعنوانی

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چین افغانستان کے قدرتی وسائل کو غیر قانونی حل، رشوت اور سمگلنگ کے ذریعے نکال رہا ہے.

فرانس کے مقامی بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار اور بیجنگ میں تعینات ایک سابق افغان سفارت کار سید مہدی منادی نے کہا، "چین ایک ابھرتا ہوا ملک ہے جسے خام مال اور قدرتی وسائل کی اشد ضرورت ہے"۔

انہوں نے کہا، "قدرتی وسائل سے مالا مال کوئی بھی ملک چین کا ترجیحی مقصد ہے۔ لہٰذا، کچھ افریقی ممالک اور افغانستان چین اور اس کے کاروبار کے لیے بہت پُرکشش ہیں"۔

منادی نے کہا کہ چین زیادہ تر معاملات میں غیر قانونی طریقوں سے دوسرے ممالک کے قدرتی وسائل حاصل کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ "زیادہ تر چینی فرموں کے پاس بیرونی بجٹ رشوت دینے اور غیر قانونی طور پر منصوبے اور معاہدے جیتنے کے لیے ہوتے ہیں۔ وہ رشوت دے کر قدرتی وسائل، قیمتی پتھر اور توانائی کے ٹھیکے حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اور اگر یہ کارگر نہیں ہوتا تو وہ سمگلنگ کا رخ کرتے ہیں"۔

منادی کا کہنا تھا، "چین کی جانب سے افغانستان کے قدرتی وسائل کی سمگلنگ مؤثر طریقے سے ملک کے قدرتی وسائل اور زیرِ زمین دولت کو لوٹ رہی ہے"۔

انہوں نے کہا کہ ایک جانب، چین کی طرف سے رشوت کی ادائیگی اور غیر قانونی مقابلہ "موجودہ حکمرانوں میں انتظامی بدعنوانی اور غبن" کو فروغ دیتا ہے"۔

"دوسری جانب، یہ افغانستان کی قومی دولت اور وسائل کے ضیاع کا باعث بنے گا"۔

'افغانستان کی لوٹ کھسوٹ'

کابل یونیورسٹی میں کان کنی کی تعلیم حاصل کرنے والے 28 سالہ عصمت اللہ سروری نے کہا، "افغانستان میں کان کنی کی زیادہ تر سرگرمیاں اور معدنیات نکالنے کا کام مقامی طاقتوروں، جرائم پیشہ گروہوں اور مقامی اور بین الاقوامی اسمگلروں کے ذریعے غیر قانونی اور غیر پیشہ ورانہ طور پر کیا جاتا ہے"۔

ان کا اشارہ سمگلنگ کے حالیہ واقعہ کی طرف تھا۔

سروری نے کہا، "افغان معدنیات کا غیر قانونی اور غیر پیشہ ورانہ طور پر نکالا جانا اور سمگلنگ افغان حکومتوں کے لیے ایک دردِ سر رہا ہے، اور اس وقت ہمارا ملک سیاسی مشکلات اور انتشار سے گزر رہا ہے"۔

انہوں نے کہا، "[افغانستان کے] پڑوسی، خاص طور پر چینی، پہلے سے کہیں زیادہ ملوث ہیں اور وہ افغانستان کی معدنیات کو قانونی یا غیر قانونی طور پر نکالنے اور ملک سے باہر منتقل کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں، جس کا مطلب افغانستان کے قدرتی وسائل کی لوٹ مار ہے"۔

جرمنی میں مقیم ایک ماہرِ اقتصادیات اور تیل کے درآمد کنندگان کی یونین کے سابق ڈائریکٹر ازرخ حافظی نے کہا، "افغانستان کے قدرتی وسائل کو گروہوں اور علاقائی ممالک نے یا تو غیر قانونی طریقوں اور سمگلنگ کے ذریعے یا رسمی طور پر کئی برس لوٹا ہے"۔

انہوں نے کہا، "چینی حکومت اور کمپنیوں کی افغان کانوں میں گہری دلچسپی ہے۔ انہوں نے میس عینک تانبے کی کان اور آمو دریا گیس اور تیل کے ذخائر بہت سستے داموں حاصل کیے ہیں"۔

"انہوں نے کہا، بدقسمتی سے، ان معاہدوں میں افغانستان کا حصہ اور منافع بہت کم ہے جبکہ چینیوں کو 80 فیصد حصص اور منافع ملتا ہے۔ وہ موجودہ [سیاسی] صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے افغانستان کے قدرتی وسائل کو لوٹتے ہیں"۔

انہوں نے مزید کہا، "موجودہ حکمرانوں کو پڑوسی ممالک کے ہاتھوں ملک کی قدرتی اور عوامی دولت کو لوٹنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے"۔

افغانستان کی دولت

کینیڈا میں مقیم ایک افغان اقتصادی تجزیہ کار، سید مسعود نے کہا، "چینی کمپنیوں کو افغانستان کے قدرتی وسائل میں ملک میں ہونے والی تازہ ترین پیش رفت کے بعد ہمیشہ سے زیادہ دلچسپی ہے"۔

ان کا کہنا تھا کہ لیکن افغانستان کے قدرتی وسائل کو باہمی طور پر فائدہ مند تجارتی معاہدوں کے ذریعے حاصل کرنے کے بجائے، وہ انہیں غیر رسمی طور پر نکالنے اور کچھ افغانوں کی مدد سے سمگل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

مسعود نے کہا، "افغانستان میں 1,400 کانیں ہیں۔ چینی ان کانوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور انہیں ہر ممکن طریقے سے حاصل کرنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں"۔

وزارتِ معدنیات و پیٹرولیم نے سنہ 2019 میں کہا کہ افغانستان کے غیر استعمال شدہ معدنی اور دھاتی وسائل کی مالیت 1 ٹریلین ڈالر سے زیادہ ہے۔

مسعود نے کہا کہ چین علاقائی اثر و رسوخ کی تلاش میں ہے "تاکہ اس کے حریف خطے پر غلبہ حاصل نہ کر سکیں"۔

"لہٰذا، یہ اقتصادی منصوبوں -- نیز قانونی اور غیر قانونی معاہدوں کے ذریعے خطے کا سیاسی، اقتصادی اور سلامتی کے لحاظ سے احاطہ کرنے کی کوشش کرتا ہے"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500