مس عینک -- کابل کے قریب صوبہ لوگر میں، بلند چوٹیوں کو تراش کر بنایا گیا ایک قدیم شہر، ہمیشہ کے لیے معدوم ہونے کے خطرے میں ہے، جسے چینی کنسورشیم نے دنیا کے سب سے بڑے تانبے کے ذخائر سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نگل لیا ہے۔
یونانی اور ہندوستانی ثقافتوں کے سنگم پر واقع، مس عینک -- جو 1,000 سے 2,000 سال پرانا سمجھا جاتا ہے -- کسی زمانے میں تانبے کو نکالنے اور اس کی تجارت کے ارد گرد منظم، ایک وسیع شہر تھا۔
ماہرین آثار قدیمہ نے بدھ خانقاہوں، سٹوپا، قلعوں، انتظامی عمارتوں اور رہائش گاہوں کو دریافت کیا ہے جبکہ سینکڑوں مجسمے، فریسکوز، ظروف، سکے اور مخطوطات بھی دریافت کیے گئے ہیں۔
فرانسیسی کمپنی آئیکونم جو شہر اور اس کے ورثے کو ڈیجیٹائز کرنے کے لیے کام کر رہی ہے، کے ماہرِ آثار قدیمہ باسٹین وروتسیکوس نے اے ایف پی کو بتایا کہ مس عینک "دنیا کے خوبصورت ترین آثار قدیمہ کے مقامات میں سے ایک" ہے۔
دریافت شدہ اشیاء بنیادی طور پر دوسری سے نویں صدی عیسوی کے درمیان ہیں لیکن اس جگہ پر مٹی کے برتن بھی ملے ہیں جو کانسی کے زمانے سے تعلق رکھتے ہیں۔
ماضی کو دفن کرنا
مس عینک کا سائز اور اہمیت کے لحاظ سے پومپی، اٹلی اور ماچو پچو، پیرو سے موازنہ کیا گیا ہے اور یہ کھنڈرات ایک بڑی چوٹی پر 1,000 ہیکٹر پر محیط ہیں۔
لیکن چین کو تانبے کی اشد ضرورت ہے اور 2007 میں کان کنی کے چینی ادارے، میٹالرجیکل گروپ کارپوریشن نے ایک سرکاری کنسورشیم کی سربراہی کی اور 30 سالوں میں ایسک کی کان کے لیے 3 بلین ڈالر کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ کنسورشیم کو اب ایم جے اے ایم کہا جاتا ہے۔
اگرچہ معاہدے کی مالی شرائط پر بیجنگ اور کابل کے درمیان عدم تحفظ اور اختلاف کی وجہ سے تاخیر ہوئی، لیکن یہ منصوبہ ایک بار پھر سے دونوں فریقین کے لیے ترجیح بن گیا ہے اور اس امر پر بات چیت جاری ہے کہ کس طرح آگے بڑھنا ہے۔
یہ خدشات بڑھ رہے ہیں کہ وہ جگہ جو کبھی شاہراہ ریشم پر سب سے زیادہ خوشحال تجارتی مراکز میں سے ایک سمجھی جاتا تھی بغیر نگرانی کے غائب ہو سکتی ہے۔
وروتسیکوس نے کہا کہ 2010 کی دہائی کے اوائل میں، یہ "دنیا کے سب سے بڑے آثار قدیمہ کے منصوبوں میں سے ایک" تھا۔
ایم جے اے ایم نے اصل میں تین سال کے لیے مہم کے آغاز کو معطل کر دیا تھا تاکہ ماہرین آثار قدیمہ کو اس علاقے پر توجہ مرکوز کرنے کی مہلت دی جا سکے جنہیں کان سے براہ راست خطرہ تھا۔
اس مدت کو نادانستہ طور پر بڑھا دیا گیا کیونکہ سیکورٹی کی صورتحال نے چینیوں کو منصوبہ شدہ بنیادی ڈھانچہ بنانے سے روکے رکھا۔
اس کے نتیجے کے طور پر، ہزاروں اشیاء کو دریافت کیا گیا -- کچھ کو کابل کے عجائب گھر لے جایا گیا، باقی کو قریب ہی رکھا گیا۔ لیکن بہت ساری باقیات اتنی بھاری یا نازک ہیں کہ وہ منتقل نہیں کی جا سکتیں اور ایسا لگتا ہے کہ ان کا غائب ہونا ہی مقدر ہے۔
چینی زیر زمین کان کنی کے بجائے کھلے گڑھے کی کان کنی کو ترجیح دیتے ہیں۔ اگر یہ منصوبہ آگے بڑھا تو یہ تانبے کے پہاڑ کو کھول دے گا اور ماضی کے تمام ٹکڑوں کو دفن کر دے گا۔
ماحولیاتی نتائج
چینی منصوبے نے ماحولیاتی نتائج کے بارے میں خدشات کو جنم دیا ہے، کیونکہ تانبے کی کان کنی آلودگی پیدا کرتی ہے اور اس کے لیے بڑی مقدار میں پانی کی ضرورت ہوتی ہے اور لوگر پہلے ہی ایک بنجر خطہ ہے۔
لیکن لگتا ہے کہ پیسے کا لالچ کان کے منصوبے کو آگے بڑھا رہا ہے۔
مس عینک کان سالانہ 300 ملین ڈالر سے زیادہ پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے -- جو کہ 2022 کے لئے افغان حکومت کے مکمل بجٹ کا تقریباً 60 فیصد ہے -- اور اس عمل کو تیز کرنے کے لئے منصوبوں پر کام ہو رہا ہے۔
مبینہ طور پر معاہدے پر بات چیت "80 فیصد ختم" ہو چکی ہے -- جس میں کان اور کابل کو بجلی فراہم کرنے کے لیے ایک بجلی گھر کی تعمیر اور پاکستان تک ریلوے کی تعمیر شامل ہے -- جس میں صرف تکنیکی نکات طے ہونے باقی ہیں۔
اس وقت، یہ تاخیر ماہرینِ آثار قدیمہ کے لیے کچھ نجات کا باعث ہے۔
اگرچہ سائٹ پر کوئی کام نہیں ہو رہا ہے مگر وروتسیکوس کو امید ہے کہ کان کنی کے کام شروع ہونے سے پہلے کھدائی دوبارہ شروع کر دی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ لیکن اس کا بھی انحصار بین الاقوامی تعاون اور سرمایہ کاری پر ہو گا۔
احتیاط کی ضرورت ہے
افغانستان تانبے، لوہے، باکسائٹ، لیتھیم اور نایاب زمینی دھاتوں کے بڑے معدنی وسائل پر بیٹھا ہے جس کی مالیت 1 ٹریلین ڈالر سے زیادہ ہے۔
ہرات شہر میں سول سوسائٹی کے ایک کارکن عبدالغفور نوروزی نے گزشتہ دسمبر میں کہا کہ چین، افغانستان کے نادر زمینی دھات کے ذخائر پر برسوں سے نظریں جمائے ہوئے ہے اور وہ ان پر ہاتھ ڈالنے کے لیے مناسب موقع کا انتظار کر رہا ہے کیونکہ یہ منافع کا ایک بڑا ذریعہ فراہم کرتے ہیں۔
نومبر میں صوبہ ہرات کے دورے میں، ایک چینی تاجر نے افغان زعفران کی پروسیسنگ اور فروخت میں سرمایہ کاری کرنے میں اپنی دلچسپی کا اظہار کیا تھا۔
چین کے گلوبل ٹائمز کی خبروں کے مطابق، اس کے فوراً بعد، متعدد چینی سرمایہ کار ملک کے لیتھیم کے ذخائر میں سرمایہ کاری کے مواقع کا جائزہ لینے کے لیے افغانستان پہنچے۔
گزشتہ اگست سے چینی اداروں کی جانب سے افغانستان کے کان کنی کے شعبے میں سرمایہ کاری کی کوششوں نے بھی افغانوں میں سوالات کو جنم دیا ہے۔
ہرات شہر کے ماہرِ اقتصادیات سید کبیر حسینی نے دسمبر میں بھی کہا کہ افغانستان کے قدرتی وسائل کی لوٹ مار سے بچنے کے لیے چینی کان کنی کمپنیوں کو ٹھیکے دیتے وقت احتیاط کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ "چینی ادارے اس وقت تک افغانستان میں سرمایہ کاری نہیں کریں گے جب تک کہ وہ اس کے بدلے میں بہت زیادہ منافع نہ کمائیں۔ ان اداروں کے ساتھ معاہدوں کو، افغانستان کو ہونے والے کسی نقصان کو روکنے کے لیے ڈیزائن کیا جانا چاہیے۔"
حسینی نے مزید کہا کہ نایاب زمینی دھاتوں اور قیمتی دھاتوں کے ذخائر، چینی اداروں کو سستے داموں نہیں دئیے جانے چاہئیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ان ذخائر پر چین کی واحد توجہ، اس کے اچھے ارادوں کی نشاندہی نہیں کرتی۔