ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق، سنکیانگ خطے میں مسلمانوں پر بیجنگ کے جاری کریک ڈاؤن کے جزُ کے طور پر چین نے 1,000 سے زائد آئمہ اور مذہبی شخصیات کو گرفتار کر لیا ہے۔
یوگر ہیومن رائیٹس پراجیکٹ (UHRP) نے 13 مئی کو عدالتی دستاویزات، خاندانی شہادتیں، اور عوامی اور نجی ڈیٹا بیسز سے میڈیا رپورٹس استعمال کرتے ہوئے تحقیق کے وہ نتائج شائع کر دیے جنہوں نے "2014 سے اب تک دینی تعلیمات اور معاشرتی قیادت سے منسلک ہونے پر گرفتار" 1046 آئمہ اور دیگر مذہبی شخصیات کی قسمت کا سراغ لگایا۔
رپورٹ میں کہا گیا، "معلومات تک رسائی پر شدید پابندیوں کے ہوتے ہوئے کل واقعات … ممکنہ طور پر برفانی تودے کی نوک ہی کی نمائندگی کرتے ہیں۔"
’دین کی تبلیغ‘ پر گرفتاریاں
رپورٹ میں کہا گیا کہ حکومتِ چین نے زیادہ تر 1960 اور 1980 کے درمیان پیدا ہونے والی یوگر مرد مذہبی شخصیات کو ہدف بنایا تاہم اسی عمر کے گروہ سے تعلق رکھنے والی قابلِ ذکر قازق النسل اقلیت کے علمائے اسلام کے ساتھ ساتھ متعدد قرغیز، ازبک اور تاتار شخصیات کو بھی ہدف بنایا۔
630 ایسے مقدمات میں، جہاں مصدقہ شواہد دستیاب تھے، معلوم ہوتا ہے کم از کم 304 علماء کو "تعلیمِ نو" کے ان کیمپس کے وسیع نیٹ ورک کے بجائے جیل بھیجا گیا ہے، جہاں چین دس لاکھ یوگر اور دیگر ترک اقلیتوں کو حراست میں رکھے ہوئے ہے۔
UHRP نے خبر دی کہ "قید کیے جانے کی وجوہات میں۔۔۔ (اکثر بچوں کو)’غیر قانونی ’دینی تعلیم، ریاست سے منظور شدہ مسجد سے باہر نماز، ’غیر قانونی‘ مذہبی مواد کا حامل ہونا، بیرونِ ملک رسل و رسائل یا سفر، علیحدگی پسندی یا شدت پسندی، اور بیاہ یا جنازے کرانے یا ایسے موقع پر تبلیغ، کے ساتھ ساتھ دیگر الزامات بھی شامل ہیں جو مختصراً مذہبی وابستگی کو ہدف بناتے ہیں۔"
یہ تحقیق ظاہر کرتی ہے کہ چند ایک کو ’دوسروں کو عبادت کرنے کی تعلیم دینے‘، ’چھ ماہ تک مصر میں تعلیم حاصل کرنے‘ اور ’جلائے جانے کے لیے قرآن کا مصحف حوالے کرنے سے انکار کرنے‘ پر 15 برس یا زائد کی قید، اور اس کے ساتھ ساتھ ’لوگوں کو منظم کرنے کے لیے دین کی تبلیغ‘ پر سزائے موت سنائی گئی۔
عزہ و اقارب سے شہادتوں کے مطابق، متعدد واقعات میں ان "جرائم" کے پیچھے اصل کام تبلیغ، نمازوں کی جماعت کرانے یا ایک امام کے طور پر فرائض سرانجام دینے ہی تک تھے۔
یہ سزائیں سنکیانگ کے "انصاف" کے تلخ النوع ہونے کی عکاسی کرتی ہیں؛ 96 فیصد کو کم از کم پانچ برس قید اور بشمول 14 سزائے موت کے، 26 فیصد کو 20 برس یا اس سے زائد کی قید کی سزائیں سنائی گئیں۔
UHRP کے مطابق، کم از کم 18 آئمہ دورانِ حراست یا زیرِ حراست آنے کے بعد جلد ہی جاںبحق ہو گئے۔
مذہب کو شدت پسندی کے برابر لا کھڑا کرنا
بی بی سی نے UHRP کی رپورٹ کا جائزہ لینے کے بعد خبر دی کہ چینی حراست یا الزام لگائے جانے کی دستاویزات خال ہی عام کی جاتی ہیں، تاہم موجود دستاویزات پر نظر ڈالنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ کیسے حکومتِ چین نے عام مذہبی اظہارِ رائے کو شدت پسندی یا سیاسی علیحدگی پسندی سے جوڑنے کی کوشش کی ہے۔
مثال کے طور پر سنکیانگ متاثرین کی ڈیٹابیس کے پیچھے موجود محقق جینی بونِن کے مطابق، باوجودیکہ 2018 میں ژنجیانگ میں 74,348 فوجداری مقدمات درج ہوئے، تاہم اس خطے کے لیے صرف 7,714 فوجداری فیصلے دستیاب ہیں۔
انہوں نے یہ رائے دیتے ہوئے، کہ چین عمداً ریکارڈ کو مسخ کر رہا ہے ، کہا کہ عدالتی دستاویزات "کہیں نہیں مل سکتی"۔
ایک مقدمہ، جس کی دستاویزات دستیاب ہیں، میں ژنجیانگ سے ایک 51 سالہ قازق النسل امام اوکین مہمت پر 2017 میں "شدت پسندی پھیلانے" کا الزام لگایا گیا تھا۔
ابتدائی حراستی نوٹس میں کہا گیا کہ مہمت کو "نکاح کے صیغے پڑھنے، تعلیم، اور عوامی انتظام سے متعلقہ قومی قوانین کی خلاف ورزی کے ساتھ ساتھ شدت پسندی سے متعلقہ اشیاء تیار کرنے اور پھیلانے" پر حراست میں لیا گیا۔
سنکیانگ متاثرین کی ڈیٹا بیس کی جانب سے جمع شدہ ایک خاندان کی گواہی کے مطابق، انہیں نمازِ جمعہ کی امامت کرانے اور مسجد میں ایک نکاح پڑھوانے پر گرفتار کیا گیا۔
انہیں مبینہ طور پر 8-10 برس قید کی سزا ملی۔
یہاں تک کہ حام کے علاقہ کے ریاست سے منظورشدہ ایک امام، 58 سالہ بقئیتھن مئیرزان کو اگست 2018 میں "شدت پسندی پھیلانے" پر گرفتار کیا گیا۔ مئی 2019 میں ایک عدالت نے انہیں بنگتوان ارومکی جیل میں 14 برس قید کی سزا سنا دی۔
مئیرزان کے خاندان کا کہنا ہے کہ ان کا "جرم" صرف اپنے باقاعدہ فرائض کی انجام دہی ہی تھا۔
ایک دیگر مقدمہ میں اتوش شہر سے ایک نمایاں عالم اور امام، عابدین ایوپ کا عدالتی دستاویزات میں ایک ایسے "مذہبی انتہا پسند" کے طور پر حوالہ دیا گیا جسے "تعلیمِ نو اور اصلاح کی ضرورت تھی۔۔۔ اور جس نے قومی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کے ملزم افراد سے رابطہ رکھا۔"
2017 میں جب پولیس نے انہیں حراست میں لیا تو ان کی عمر 88 برس تھی۔
ایوپ کی بھتیجی، مریم محمّد، جو امریکہ میں رہائش پذیر ہیں، نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے چچا کی گرفتاری کے بعد ان کے دور پار کے خاندان کے قریب 60 ارکان کو حراست میں لیا گیا، جن میں ان کے خاوند اور امام کے آٹھوں بچے شامل ہیں۔
UHRP میں سینیئر پروگرام آفیسر پیٹر اروِن نے کہا کہ چین کی جانب سے آئمہ کو ہدف بنائے جانے کی اصل وجہ "معاشرے میں لوگوں کو یکجا کرنے کی ان کی صلاحیت" ہے۔
"انہوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا، "ریاست ایک طویل مدت سے محتاط طور پر آئمہ سے نمٹ رہی ہے کیوں کہ وہ ان کے رسوخ سے واقف ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں یہ گرفتاریاں اور قید و بند یوگر ثقافت اور مذہب کو دبانے کی غرض سے استبداد کی تین دہائیوں کا نقطہٴ عروج ہے۔"
اسلامی ثقافت کو مٹانے کی کوششیں
UHRP کی رپورٹ ان الزامات کے حق میں موجود شواہد کی فہرست میں ایک اضافہ ہے کہ بیجنگ مسلم ثقافت اور مذہب کو مٹانے اور نسلی اقلیتوں کو ہان چینی ثقافت میں ضم کرنے کے لیے کوشاں ہے۔
آسٹریلین سٹریٹیجک پالیسی انسٹیٹیوٹ (ASPI) نے گزشتہ ستمبر مصنوعی سیاروں سے حاصل ہونے والی تصاویر اور شماریاتی ماڈلنگ استعمال کرتے ہوئے خبر دی کہچینی حکام نے سنکیانگ میں قریب 16,000 مساجد کو تباہ کیا یا انہیں نقصان پہنچایا۔
خبر میں کہا گیا کہ زیادہ تر تباہی گزشتہ تین برس میں ہوئی جس میں ایک اندازے کے مطابق، 8,500 مساجد تباہ ہوئیں۔
اس تحقیق میں اندازہ لگایا گیا کہ ژنجیانگ کے گرد 15,500 سے کم درست اور نقصان زدہ مساجد کھڑی رہ گئیں، تحقیق کے مطابق منہدم ہونے سے بچ جانے والی متعدد مساجد نے اپنے گنبد اور مینار ہٹا دیے تھے۔
ASIP نے کہا کہ حکام نے سنکیانگ میں مزارات، قبرستانوں اور زیارات کے راستوں سمیت تقریباً ایک تہائی بڑے اسلامی مقاماتِ مقدسہ کو بھی ختم کر دیا۔
2019 میں اے ایف پی کی ایک تحقیق میں معلوم ہوا کہ خطے میں درجنوں قبرستان تباہ کر دیے گئے ہیں، جس سے انسانی میتیں اور ٹوٹے ہوئے مقبروں کی اینٹیں زمین پر بکھری رہ گئیں۔
حکومتِ چین پر خطے میں انسانی حقوق کی پامالی کے الزامات لگائے جا رہے ہیں، جن میں ماورائے عدالت حراستیں، جبری مزدوریاں، جبری رحم براری، زنا بالجبر اور نسل کشی شامل ہیں۔
سنکیانگ میں زیرِ حراست افراد کی اکثریت کو ان تنصیبات میں بھیج دیا جاتا ہے جنہیں بیجنگ "تعلیمِ نو" کی تنصیبات کہتا ہے اور جنہیں شدت پسندی کو نکال باہر کرنے اور ملازمت کے زیادہ مواقع کے لیے پیشہ ورانہ تربیت فراہم کرنے کے لیے ترتیب دیا جاتا ہے۔
آزادانہ تحقیق کے مطابق، بشمول "سیاسی تعلیم" کے کیمپوں، قبل از عدالتی کاروائی مراکز اور قید خانوں کے، ایسی 400 کے قریب تنصیبات ہیں۔
سابق قیدیوں، گارڈز، رشتہ داروں اور دیگر شاہدین کے مطابق، ان کیمپوں میں"وحشیانہ اور منظم بدسلوکیاں" پیش آتی ہیں۔
وہ دماغ شوئی کی تکنیکیں، بجلی کے جھٹکوں سے تشدد—بشمول برقی چھڑیوں کے ذریعے گارڈز کی جانب سے زنا بالجبر —خوراک سے محرومی، ذودوکوب کیے جانے، اجتماعی زیادتی اور جبراً رحم کشی کے طور پر بیان کرتے ہیں۔
سنکیانگ خطے میں بچوں کی پیدائش کو دبانے کی کاوشوں کے جزُ کے طور پر ژنجیانگ میں کیمپوں سے باہر بھی خواتین جبراً اسقاطِ حمل اور رحم کشی کا شکار بنتی ہیں ۔